سیاسی یتیمی کی وجہ۔۔حسان عالمگیر عباسی

خدمت خلق عین عبادت ہے جیسے سیاست عین عبادت ہے بلکہ خدمت خلق ہی سیاست ہے لیکن ہر سیاست دان عوامی فلاح کا ٹھیکیدار نہیں ہے کیونکہ سیاست حکومت اور اپوزیشن کا مجموعہ ہے جہاں حکومت کیے گئے وعدوں کی پاسداری اور اپوزیشن عوامی ایشوز پہ بات کرتی اور حکومت وقت کو اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالے سے یاددہانی اور مجبور کرتی ہے۔

سیاست دانوں میں سے جن پہ عوام کا اعتماد ہو جائے وہ خدمت کے مکلف ہیں جیسا کہ ‘کلکم راع وکلکم مسئول عن رئیته’ میں وضاحت و صراحت موجود ہے کہ ہر ایک اپنی جگہ اور حیثیت میں جوابدہ ہے لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی اور وہ متبادل دینی جماعت جو عوام کو اس حکومت کے خلاف اکسانے اور اپنا منشور سمجھانے کی ذمہ دار ہے تاکہ کل بڑی ذمہ داری اٹھانے اور حکومتی سطح پہ عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کی اہل ہو سکے ابھی سے خدمت اور وسائل کی بارش کر چکنے کے بعد سیاسی یتیمی کا مزہ چکھتی اور ہاتھ ملتی نظر آتی ہے۔

جس معاشرے میں خدمت خلق عبادت ہو اور انتخابات میں اترنا گالی ہو اس کے بسنے والوں کو گھر نہیں گلی محلے میں رات بسر کرنے دیے جانا ہی بہتر ہے یا زیادہ سے زیادہ حکومت تک اس کی شکایت کا پہنچانا تحریک کے فرائض میں شامل ہے۔ بے جا وسائل کا لا متناہی استعمال حکمت کو کبھی اپیل نہیں کر سکتا اور بالخصوص ان لوگوں پہ من و سلویٰ پھینکنا جنھیں سیاست اور انتخابات کی شد بد بھی نہ ہو کیسے بھی اپیلنگ سٹریٹجی نہیں ہو سکتی۔ جن لوگوں سے جان پہچان ہی نہیں ہے اور تحریک کو جانتے تک نہیں ہیں پہ خرچ کا جمع خرچ فضول خرچی ہے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ان حضرات کا معیار زندگی بہتر سے بہتر بنایا جائے جو تن من دھن کی بازی لگا کر ان لوگوں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں جن کا کل، آج اور آنے والا کل نامعلوم ہے۔

جب اپنوں کی زندگی میں معاشی، معاشرتی اور اصلاحی انقلاب برپا ہوگا وہی تحریک کا کل اثاثہ ہیں اور انہیں کے حوالے سے قیامت کے روز حساب کتاب ہوگا۔ یہاں ان پہ خرچ ہوتا ہے جن کی تربیت کے لیے اداروں کا فقدان ہے اور اگر کسی چھپڑ کا قیام عمل میں آ بھی جائے تو وہ کشش کے حساب سے بالکل خالی ہے۔ ایسے میں تحریک نے جامد ہی ہونا ہے کیونکہ رب کی رضا تربیت سے ہٹ کر انجان لوگوں کی خدمت میں رکھ دی گئی ہے۔

نتیجہ

Advertisements
julia rana solicitors

بھائیو میں ایک نتیجے پہ پہنچا ہوں۔۔۔ سب صحیح ہے اور سب صحیح ہیں۔۔۔ کوشش کریں آپ بھی جلد اس نتیجے پہ پہنچ جائیں۔۔۔ چس آئے گی البتہ آزمائش شرط ہے۔۔۔ کسی وڈی شخصیت کا کہنا تھا کہ انھوں نے کسی وڈی شخصیت کو پڑھا ہے جن کا ماننا تھا کہ وہ کسی کو غلطی پہ اس لیے ٹوکنے سے پرہیز کرتے ہیں کیوں کہ انھیں اندیشہ تھا کہ کہیں وہ خود بھی اس کا شکار نہ ہو جائیں۔ لہذا شیر و شکار نہیں شیر و شکر ہو جائیں۔ خیر ڈھونڈیں۔۔۔ ہو سکتا ہے بظاہر خیر سے خالی اندر ہی اندر خیریت سے ہو اور بظاہر خیر سے بھرپور اندر سے کھوکھلا ہو۔ ہاں، خیر اندر اور باہر کے مجموعے کا نام ہے لہذا بظاہر درست اندر سے برا اگر منافق ہے تو بظاہر غلط اندر سے اچھا بھی یہی کچھ ہے۔۔۔ مثبت بات یہ ہے کہ دونوں ہی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply