• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاسی پناہ کی متلاشی افغان اشرافیہ (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

سیاسی پناہ کی متلاشی افغان اشرافیہ (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

وہ بھارت میں سیاسی پناہ کے خواستگار تھے۔ پریس کانفرنس کو کور کرنے کے بعد جب میں آفس پہنچ کر اسٹوری لسٹ کروا رہا تھا، میرے سینیئر رفیق کار شاستری راما چندرن نے کہا کہ ان کے ڈاکٹر سے بھی رابطہ کیا جائے، تاکہ اس چپ کے بارے میں کچھ معلومات مل جائیں۔ میں نے اس جوڑے سے دوبارہ رابطہ کرکے ان سے ڈاکٹر کا فون نمبر لے لیا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹراپالو اسپتال میں نیورفزیشن ہیں۔ رابطہ ہونے پر اور اس جوڑے سے متعلق اور چپ کے بارے میں جونہی ان سے استفسار کیا ، تو وہ خوب برس پڑے اور سبھی صحافیوں کو گالیوں سے نوازا کہ دماغی مریض سے ہمدردی جتانے کے بجائے اسکی پریس کانفرنس کرواکے اسکا بھارت اور پاکستان کے درمیان تماشہ بنوا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ، جو بھی صحافی اس پریس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں، ان کو خود کا دماغی علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ مختصراً کہ یہ دونوں میاں بیوی بعد میں صحت یاب ہوگئے اور واپس پاکستان چلے گئے، جہاں وہ اب خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ افریقی ملک یوگنڈا نے بھی حال ہی میں شکایت کی کہ ان کے ملک میں کوئی بھی شخص مغربی ملک کے سفارت خانے کا دروازہ کھٹکھٹا کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہم جنس پرست ہے اور چونکہ اپنے ملک میں اسکو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسلئے اسکو پناہ کی تلاش ہے۔ یوگنڈاکے افسران نے کئی ایسے افراد کی لسٹ تیار کی ہے، جو ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے بیرون ملک تو چلے گئے ، مگر وہاں عورتوں سے شادیا ں کرکے بچے بھی پیدا کر لئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ واقعی ہم جنس پرست تھے، تو انکے بچے کیسے پیدا ہوگئے اور وہ عورتوں کے ساتھ نارمل زندگی کیسے گذار رہے ہیں۔ بہر حال 15اگست کو طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد جو مناظر ایئر پورٹ پر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس سے کلیجہ پھٹ رہا ہے۔ امریکہ اورنیٹو ممالک کی بد انتظامی سے پہلے بھگدڑ میں اور پھر خود کش حملوں میں دو سو کے قریب لوگ مارے جا چکے ہیں۔ امریکیوں کو کہنا ہے کہ جولائی سے لیکر اب تک انہوں نے ایک لاکھ سے زائد افراد کو افغانستان سے باہر لیجانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور مزید دو لاکھ 50ہزار افراد کو لیجانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ کے مطابق افغانستان سے تقریباً پانچ لاکھ افراد باہر جانے کی کوشش میں ہیں۔ اگر دیکھا جائے، تو امریکی افواج کی تعداد 2011میں سب سے زیادہ یعنی ایک لاکھ سے کچھ اوپر تھی۔ ناٹو ممالک کی فوج کو ملاکر ان کی تعداد دو لاکھ کے قریب بن سکتی ہے۔ اب اس دولاکھ فوج کیلئے تین سے پانچ لاکھ افغانیوں کو بطور ترجمان یا سہولت کار بھرتی تو نہیں کیا گیا ہوگا۔ افغانستان کو چھوڑ کر اگرمغربی ممالک اسی طرح کے جہازکسی بھی جنوبی اایشیائی ملک کے کسی بھی شہر میں کھڑا کرکے مفت سفر اور کسی مغربی ملک میں قیام و طعام کی سہولت کا وعدہ کرلیں ، تو اسی طرح کی بد نظمی اور عوام کا رش کسی بھی شہر میں ائیر پورٹ کی طرف رواں ہوگا۔ جان کا خطرہ ہو یا نہ ہو، کون بیرون ملک سٹیل ہونے کا موقع گنوانے دیگا۔ اگر طالبان ملک میں استحکام اور نظم و نسق بحال کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں، تو اگلے چند ماہ کے بعد مغربی ممالک خود ہی اکثر افراد کو ڈیپورٹ کرکے واپس کابل روانہ کریں گے۔ کیونکہ ان میں سے اکثر کے کاغذات درست ہونگے نہ ہی وہ سیاسی پناہ کے زمرے میں آتے ہونگے۔ طالبان کو بھی چاہئے کہ اس نسل کو بیرون معاشروں میں آباد ہونے کے بجائے ان کو افغانستان میں رہنے کی ترغیب دیں۔ یہ برین ڈرین افغانستان پر خاصا بھاری پڑے گا۔ اگر افغانوں کا طبقہ اشرافیہ کابل ائیر پورٹ سے انخلاء کر رہا ہے، وہاں دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افغان پاکستان اور ایران بارڈر سے واپس بھی آرہے ہیں۔ 15اگست سے جنگ کے خاتمہ کے بعد سے تقریبا 1,500افغان خاندان مسلسل ہر روز طور خم کے راستے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ افغانستان میں طالبان کا عروج اور ان کی فتح ملک کے دیہاتوں میں رہنے والے غریب طبقات کی مرہون منت ہے ۔ افغانستان کی مغربی طرز کی اشرافیہ حکمرانی میں ناکام رہی۔ وہ افغانستان سنبھال نہ سکی ۔ اگر وہ انصاف پہ مبنی معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتے، تو طالبان کی فتح ناممکن تھی۔ جہاں خواص و عام میں خلیج بہت بڑھ جائے، وہاں اس طرح کے انقلاب کا آنالازمی ہے۔ طالبان کو بھی اب احساس ہو نا چاہئے کہ نظام عدل کے ساتھ سماجی انصاف بھی معاشرہ کی ضرورت ہے اور اسکی بنیاد تعلیم اور صحت کے شعبوں پہ ہوتی ہے۔ فی الحال عالمی براددری کیلئے لاز م ہے کہ نہ صرف افغانستان میں طالبان کی قیادت میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام میں مدد کریں، بلکہ امداد جاری رکھ کر نئے حکمرانوں کو ملک میں امن و استحکام لانے میں بھی رول ادا کریں۔ طالبان کو الگ تھلگ کرنے اور ان کی امداد روکنے سے ایک نئی گریٹ گیم کی ابتدا ہوگی، جس کا کہیں اختتام نہیں ہوگا۔ کیونکہ سبھی مہرے پٹ چکے ہیں۔ افغانستان اس وقت ایسے موڑ پر آچکا ہے کہ پروپیگنڈہ کے بجائے عالمی برادری کو ترجیحات طے کرنی پڑیں گی۔ اس ملک کی اولین ترجیح اس وقت امن و استحکام ، نظم و نسق، کورپشن کا خاتمہ اور حکومت میں سبھی نسلی طبقوں کی شمولیت ہے۔ جب یہ مرحلے طے ہوجائینگے، تو مرحلہ وار حقوق نسواں اور جمہوریت ، آزادی اظہار رائے جیسے ایشوز اٹھا کر نئے حکمرانوں کو ان پر عمل کرنے پر قائل کروایا جائے۔ مگر فی الوقت خدا را ، افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنے میں مدد کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply