طالبان کی آمد ِثانی پر مختلف نقطہ ہاۓ نظر۔۔سلمان احمد شیخ

پاکستان کےانگریزی اخبارات کے کالم نگاروں نے بھی خلاف ِ توقع امریکہ کی شکست اور افغانستان سے واپسی پر امریکہ کو ہدف ِ تنقید بنایا۔ نقد کرنے والوں میں کچھ کامیلان چونکہ سوشل ازم کی طرف ہے اور لبرل جمہوریت اور لبرل سرمایہ داری کو غلط سمجھتے ہیں, سو ان کی تنقید کی یہ وجہ ہوسکتی ہے۔

بہرحال سوشلزم اور لبرل جمہوریت و سرمایہ داری کی طرف کے زیادہ تر لکھنے والے مذہب بیزار ہیں تو عام حالات میں ان کا ہدف ِ تنقید مذہبی تحریکیں یا گروہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ابھی امریکہ کے سیاسی اطلاقی تضادات پر تنقید کررہے ہیں مگر طالبان کا خیر مقدم نہیں۔ ان کے نظریات پر تنقید ہوسکتی ہے مگر یہ اپنے نظریات کے ساتھ بظاہر تضاد کے مرتکب نہیں ہوتے۔ پروفیسر پرویز ہودبھائی مذہبی طبقہ کے سماجی رویوں پر تنقید کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ امریکہ کے امپیریلزم پر بھی۔

پاکستان میں طالبان کا خیر مقدم کرنے والے لوگوں میں بھی دو طرح  کی وجوہ   پائی  جاتی ہیں۔ ایک بھارت کی حمایتی حکومت کی شکست اور ایک امریکہ کی شکست جس نے پاکستان میں بھی کئی ایک کارروائیوں میں مقامی آبادی کو نقصان پہنچایا جس میں ان کے مطلوب جنگجوؤں کے ساتھ عام افراد بھی اپنی جانوں سے  گئے۔ ایک تیسری وجہ حمایت کی وہ ہے جو اسلام پسندوں کے ساتھ خاص ہے۔ یعنی طالبان کا افغانستان پر کنٹرول جو اسلام اور شریعت کی بات کرتے ہیں۔

بہت قلیل افراد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سیاسی وجوہ کی بنیادپر طالبان میں ہر دو میں سے ایک کے لازمی ناقد اور لازمی حمایتی نہیں۔ یہ مبصرین افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے آپس میں نظریاتی اور سیاسی روابط پر دونوں کی سرِدست حمایت سے اپنے آپ کو باز رکھ رہے ہیں۔

ایک  قلیل  تعداد  ان لوگوں کی بھی ہے جو امریکہ, اس کی حمایت یافتہ حکومت اور طالبان تینوں کی نہ مکمل حمایت کرتے ہیں نہ ان کی کسی نظریاتی بنیاد پر مکمل اور مطلق مذمت۔ ان کے خیال میں قومی ریاست ایک حقیقت ہے، حقِ  اقتدار اور انتقال اقتدار کے لیے جمہوریت آمریت کے مقابلہ میں نہ صرف بہتر بلکہ امرھم شوری بینہم کے تقاضے  کے عین مطابق بھی ہے۔ اس لیے جب ایک زمین دوسرے کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال ہو, وہ بھی غلط, اس کے جواب میں ایک قومی ریاست پر قبضہ ہو, وہ بھی غلط اور حالات, معیشت اور عالمی سیاست میں تغیر کی وجہ سے ایک گروہ کو ایک قائم اور منتخب حکومت, اداروں اور نظم کو ازسر ِ نو سمیٹنے کاموقع مل جاۓ تو اس موقع سے فائدہ اٹھالینا بھی کوئی قابلِ  تحسین بات نہیں۔

اس سے بڑھ کر ان کے نزدیک دین کی ایک ہی تعبیرکو شخصی معاملات میں اور خاص طور پر خواتین کے حوالے سے بزور نافذ کیا جاۓ, اس کی حمایت یا توثیق کرنا بھی دین کی دعوت اور صحیح تعارف کے حوالے سے کوئی پسندیدہ چیز نہیں۔

اس آخری فکری نقطہ نظر پر جو تنقید ہوئی وہ بھی قابلِ  توجہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ طالبان نے ماضی کے برعکس اپنے رویہ میں جو لچک دکھائی ہے اب تک, اس کو نظرانداز کرکے صرف ان کے ماضی کو حوالہ بناکر تنقید کرنا منصفانہ نہیں۔ انہوں نے اگر انتخابات کے ذریعہ اقتدار حاصل نہیں کیا فی الوقت تو اس بات کو بھی موجودہ سیاسی منظرنامہ کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ ان کی افغانستان میں  حکومت تھی جو بیشک جمہوریت کے اصول پر نہیں ہو  ئی مگر کسی حد تک امن قائم کرنے میں کامیاب تھی            ۔ اسے امریکہ نے اپنے خلاف جارحیت میں سہولت کار بننے کے محض الزام میں ہی ختم کردیا۔ اس کے بعد کی حکومتیں امریکہ کی حمایت یافتہ تھیں اور ان کی طرف دار تھیں۔ انہوں نے امریکہ کے تسلط کو برقرار رہنے دیا۔ طالبان نے اس تسلط کے خلاف جدوجہد کی اور افغان حکومت کو مستعفٰی ہوکر عبوری حکومت بنانے کی تلقین کی۔ امریکہ نے خود افغان حکومت کو بالاۓ طاق رکھ کر طالبان سے براہ راست مذاکرات کیے جو یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ کے نزدیک بھی سیاسی قوت کس کے پاس تھی۔ سردست ابھی بھی طالبان نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ مل جل کر حکومت تشکیل دینے کے قائل ہیں اور شخصی آزادیوں پر جو لوگوں کے تحفظات ہیں, ان پر وہ واضح جواب دے چکے ہیں کہ ان کا رویہ پہلے سے مختلف ہوگا۔ اب اگر واقعتا ً وہ ان دونوں باتوں یعنی مشترکہ حکومت سازی اور انسانی حقوق کی حفاظت پر قائم رہتے ہیں, تو ان پر تنقید کا جواز نہیں رہتا۔

دوسری طرف امریکہ نے پچھلے چند دنوں میں ہزاروں افراد کو افغانستان سے ہوائی جہاز کے ذریعے منتقل کیا۔ جہاز کانقشہ ہی تبدیل کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لے جانے کی کوشش جاری ہے۔ ان میں زیادہ تر افغان ہیں۔ دیگر ملکوں کے باشندوں کی ذمہ داری بھی انہوں نےلی ہے۔

اپنے ایک ایک فرد کو نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کئی ممالک میں ٹرانزٹ سینٹرزبناۓ ہیں اور اپنے ساتھ کام کرنے والے افغان لوگوں کو کئی ممالک میں منتقل کرنے کی ذمہ داری لے رہے ہیں۔

کوئی شک نہیں کہ اپنے ملک میں انہوں نے مثالی نظام بنانے کی کوشش کی ہے جہاں کئی اور قومیتوں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے علاوہ چالیس لاکھ سے زائد مسلمان بھی رہتے ہیں, مگر ان کی بنیادی غلطیاں یہ ہیں:

پیسہ اور اسلحہ کو سب کچھ سمجھنا اور یہ مغالطہ کہ مذہب پر ایمان لوگوں کی طرف سے صرف جبر یا کم معلومات کانتیجہ ہے۔ مسلم ممالک میں بھی لوگوں کو جب آزادی راۓ دی جاۓ گی تو وہ بھی مذہب سے ویسے ہی لا تعلق ہونا چاہیں گے جیسے مغرب کی عوام۔

ان کے اخلاقی اصول کے اطلاق اپنے ملک اور لوگوں کے لیے اور ہیں اور دوسروں کے لیے اور۔ ریمنڈ ڈیوس کو یہاں انسانوں کو قتل کرنے کے باوجود چھڑوالیا جاتا ہے اور پھر امریکہ میں اسے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔

جمہوریت اپنے لیے پسند ہے مگر اپنے مفادات کے لیے کہیں بادشاہت تسلیم اور کہیں جمہوریت بھی نہیں تسلیم جیسے غزہ اور مصر میں۔

انسان کے شرف, عزت اور آزادی کے کیا معنی ہیں جب کئی لاکھ انسان ان کے فوجی ایڈونچر کا نشانہ بن جائیں۔

انسان کو سمجھنے اور عمرانیات اور سماجیات میں علمی اور نظریاتی برتری کا دعویٰ  کس طرح کیا جاسکتا ہے جب ان لوگوں سے حمایت مطلوب ہو جن کے اعزاواقارب کو کولیٹرل ڈیمیج میں مار دیا جاۓ۔

جمہوریت کے تقدس کے کیا معنی جب اپنی ہی عوام کے پُرزور احتجاج کے باوجود عراق میں فوج کشی کی جاۓ اور لاکھوں جانوں کے نقصان کے باوجود مہلک ہتھیاروں کا کوئی ثبوت نہ  ملے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیم ہیرس جو اس بات کے قائل تھے کہ ضرورت پڑنے پر امریکہ کو یہ جواز حاصل ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرے, نے لکھا تھا کہ امریکہ کو دلیل یا جنگ میں سے ایک چیز لازمی جیتنی ہوگی۔ مگر وہ اپنے تضادات میں دونوں چیزیں ہارگیا۔

Facebook Comments

سلمان احمد شیخ
سلمان احمد شیخ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں- ملیشیا سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں- دینیات, سائنس اور سماجیات میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں- کئی مقالوں کے مصنف اور دوکتابیں لکھ چکے ہیں- ان کا تحقیقی کام ان کے ریسرچ گیٹ کی پروفائل پر دیکھا جاسکتا ہے۔- ایک ماہنامہ ریسرچ بلیٹن کے مدیر ہیں جو اسلامک اکنامکس پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply