میری دنیا (41،آخری قسط)۔۔وہاراامباکر

کئی بار لوگ کہتے ہیں، “ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ میری بھانجی کبھی نہیں چل سکے گی۔ وہ دیکھیں، وہ بھاگ رہی ہے”۔ یہ بتانے والے کا دمکتا چہرہ اور جوش دل گرما دیتا ہے۔ لیکن ایسا کیسے ہوا؟ اول تو شاید ڈاکٹر نے “کبھی نہیں” کا لفظ نہ استعمال کیا ہو۔ شاید سب سے زیادہ امکان والا منظر بتایا ہو۔ یا پھر وہ توقع نہ بڑھانا چاہ رہا ہو۔ جو بھی وجہ ہے، اچھا ڈاکٹر اتنے وثوق سے بیان نہیں دیتے۔ کیونکہ دماغ کی خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ممکنات کے دروازے کھلے رکھتی ہے، خاص طور پر کم عمر میں۔
میری نظر میں، زندہ دماغ بائیولوجی کا سب سے شاندار فینامینا ہے۔ اگر ہم اس کے بارے میں تمام معلومات کو کشید کریں تو دماغ کے سات اصول ہیں۔
ا۔ یہ دنیا کی عکاسی کرتے ہیں۔
۲۔ ہر قسم کی وصول ہونے والی انفارمیشن سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
۳۔ خود کو جس بھی جسمانی ساخت میں مقید پائیں، اس مشینری کو آپریٹ کر سکتے ہیں۔
۴۔ جو اہم ہے، اس کو یاد رکھتے ہیں۔
۵۔ جو انفارمیشن مستحکم ہے، اس کو لاک کر لیتے ہیں۔
۶۔ “جیتو یا مر جاؤ” کے اصول کے تحت اس کے حصوں میں مقابلہ جاری رہتا ہے۔
۷۔ ڈیٹا اور انفارمیشن کی طرف حرکت کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ وائرنگ ایسا عمل ہے جو ذہن کو دنگ کر دیتا ہے۔ اور یہ یادداشت، ذہانت اور تہذیب کا بنیادی حربہ ہے۔ یہ وہ مکینزم ہے جس سے قدرتی چناوٗ اور ارتقا ناممکن پریشرز سے آزاد ہوا ہے۔ ہر ممکنہ کے لئے پہلے سے تیاری کے بجائے اربوں پرامیٹر ایڈجسٹ کر کے غیرمتوقع سے مقابلہ کرنے کا بائیولوجی کا عظیم ترین حربہ ہے۔
لچک ہر سطح پر ہے۔ سائناپس سے لے کر پورے دماغ تک۔ علاقے کی جنگ اور ہر وقت مقابلہ۔ ہر سائناپس پر۔ ہر نیورون پر، ہر آبادی پر۔ وسائل کی جنگ جاری ہے۔ اور جس طرح یہ لڑی جاتی ہے۔ یہ نقشہ اس حساب سے بدلتا ہے جو جاندار کے مقاصد کے لئے سب سے ضروری ہے۔
جس طرح ہم دنیا کا مطالعہ کریں گے، لائیو وائرنگ شاید ہماری سوچ کا سٹینڈرڈ حصہ بن جائے۔
مدرسے کی کہانی۔۔ادریس آزاد
امریکہ میں نوے کی دہائی میں جرائم کی شرح تیزی سے گری۔ ایک خیال ہے کہ اس کی وجہ ایک قانون ہے جو “صاف ہوا کا قانون” تھا جس نے پٹرول میں سیسے کے اضافے پر پابندی لگائی تھی۔ سیسہ کم ہونے کے تئیس سال بعد جرائم کی سطح گر گئی۔ وجہ یہ کہ سیسے کی ہوا میں زیادہ مقدار بچوں کے دماغ کی ڈویلپمنٹ پر اثر ڈالتی ہے جس کا نتیجہ فوری فیصلے کرنے اور طویل مدتی سوچ نہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ کیا سیسے کی سطح اور جرائم کے درمیان تعلق اتفاقی ہے؟ غالباً نہیں۔ مختلف ممالک نے اس پر پابندی مختلف وقتوں میں لگائی اور تمام نے یہی پیٹرن دیکھا۔ پابندی کے تقریباً تئیس سال کے بعد جرائم کی سطح کا گرنا ہر جگہ پر نوٹ کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کے بچے بالغ ہو رہے تھے۔ اگر یہ ہائپوتھیسس درست ہے تو ممالک کی تاریخ میں جرائم کے خلاف سب سے زیادہ موثر قانون یہ رہا ہے۔ اگرچہ ابھی اس ہائپوتھیسس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن یہ ایک اہم آئیڈیا کی نشاندہی کرتا ہے۔ زندہ وائرنگ کے پراسس کو مالیکیولز، ہارمونز اور ٹاکسنز کی وجہ سے ضرر پہنچ سکتا ہے۔ اس عمل کے ڈانڈے افراد سے معاشروں تک پیوست ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ وائرنگ کی وجہ سے ہم ٹائم اور سپیس کے مسافر ہیں۔ ہم اس دنیا میں کسی وقت پر اور کسی مقام پر آن وارد ہوتے ہیں اور اس کی تفصیلات جذب کرتے ہیں۔ ہم اس کائنات کے اس لمحے کی ریکارڈنگ ڈیوائس بھی بن جاتے ہیں۔
اگر آپ کسی شخص سے ملیں جس کا آپ سے عمر میں یا علاقے میں یا عہد میں بہت فرق ہو اور آپ کو اس کی رائے یا ورلڈ ویو سن کر شاک لگے تو ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کر لیجئے کہ وہ اپنے وقت اور اپنے تجربات کا نتیجہ ہے۔ ویسے ہی جیسے آپ ہیں۔ ایک مختلف عہد، مختلف وقت اور مختلف جگہ کے لئے آپ بھی ایسی ہی ریکارڈنگ ڈیوائس ہیں۔ اور ہاں، آپ بھی آنے والی نسلوں کے لئے قدیم خیالات اور گزرے وقتوں کے شخص ہی ہوں گے۔
ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے (ترجمہ: عاصم رضا)حصّہ دوم
ہم اپنی زندگی اس خیال میں گزارتے ہیں کہ ایک طرف “میں” ہوں اور باقی سب “دنیا” ہے۔ لیکن “میں” باقی دنیا سے الگ نہیں۔ میں جو بھی ہوں، اسی سے ابھرا ہوں، جس سے میرا تعلق رہا ہے۔ میرا ماحول، میرے تجربات، میرے دوست، میرے دشمن، میرا کلچر، میرے یقین، میرا دور ۔۔۔ میں ان سب کی تجسیم ہوں۔
“میں الگ سوچ کا بندہ ہوں”، “وہ اپنی آزاد فکر رکھتا ہے”۔ یہ فقرے ہمیں پرکشش لگتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم سب ایک تناظر کا اور ایک تسلسل کا حصہ ہیں۔ اس میں “میں” اپنی دنیا سے الگ نہیں۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ اربوں برس سے جاری اس دنیا کے اور زندگی کے چکروں نے میرا وجود ممکن کیا۔ اپنے وجود کی چند دہائیوں میں ہی نہ جانے کتنے ہی دوسرے ذہنوں نے میرے ذہن کو چھو کر تبدیل کیا ہے۔ اور اسی دوران میں نہ جانے کتنے ہی دوسرے ذہنوں کو میں نے چھو کر تبدیل کیا ہے۔ دنیا میں جاری اس کھیل کے، انفارمیشن کے اس بہاوٗ میں سب کا اپنا اپنا حصہ ہے۔
میرا علم، میرے اصول، میری اقدار، میرے عقائد، میری امنگیں، میری امید، اسی سب نے تشکیل دی ہے۔ ویسے جیسے سنگِ مرمر کے ٹکڑے سے ایک ماہر فنکار مجسمہ تراشتا ہے۔
ہم میں سے ہر ایک الگ نہیں ۔۔۔ اپنے اندر کی اور اپنے باہر کی ۔۔۔ ایک پوری دنیا ہے۔
نت نئے روپ اختیار کر لینے والی، عقل کو دنگ کر دینے والی، خود کو وقت کے ساتھ ساتھ ڈھالتے رہنے والی ایک عجیب ہی مخلوق سے ہماری ملاقات ہو گئی ہے۔ وہ مخلوق ہم خود ہی ہیں۔
(ختم شد)

Facebook Comments