مکھیوں والا کمرہ۔۔وہاراامباکر

بائیولوجی کی انیسویں صدی کی تاریخ میں مٹر کے پودے اور جزیرے کی چڑیاں مشہور ہیں۔ بیسویں صدی میں جدید بائیولوجی کی بنیاد مکھیوں سے بھرے کمرے میں رکھی گئی تھی۔

ڈارون ازم کو زوال انیسویں صدی کے آخر میں آیا اور اس کی وجوہات منطقی تھیں۔ بائیولوجسٹ ڈارون کو ارتقا ثابت کرنے کا کریڈٹ تو دیتے تھے لیکن ان کا طریقہ نیچرل سلیکشن کافی نہیں تھا۔ “جو فٹ نہیں، وہ نہیں بچتا” اس کی وضاحت بالکل بھی نہیں کرتا تھا کہ فائدہ مند تبدیلیاں آخر آتی کیسے ہیں۔ ڈارون کے اس بات پر اصرار نے، کہ تبدیلیاں سست رفتار ہوتی ہیں، اس مسئلے کو پیچیدہ کر دیا تھا۔ کوئی اس بات کو ماننے پر تیار نہیں تھا کہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لمبی مدت میں بڑے عملی فرق پر متنج ہوں گی۔ یہ بڑے جھٹکوں اور چھلانگوں کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ ڈارون کے سب سے بڑے سپورٹر تھامس ہکسلے نے بھی ڈارون کو اپنے اس خیال پر نظرثانی کرنے کو کہا تھا لیکن ڈارون اس چیز کے قائل تھے کہ بہت چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کو اگر بہت بڑے وقت کے سکیل پر لیا جائے تو یہ بڑی ہو جاتی ہیں۔ تبدیلی کا ایک قدم بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے۔ ڈارون اس بارے میں ٹھیک نہیں تھے۔

ڈارون کے 1882 میں انتقال کے بعد اس خیال کے خلاف مزید شواہد اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ شماریات میں یہ دکھایا جا چکا تھا کہ جانداروں کے خصائص بیل کرو کے مطابق ہیں۔ یعنی کسی آبادی میں جو اوسط قد ہے، زیادہ آبادی اس کے قریب ہو گی۔ چھوٹے اور لمبے قد والے جس طرح اوسط سے دور ہوتے جائیں گے، ان کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ اگر کسی آبادی سے سست رفتار نکل جائیں تو پھر بھی درمیانہ کی تعداد زیادہ ہو گی۔ تیزرفتار ان سے ہی ملاپ کریں گے۔ آبادی میں درمیانہ پن کا راج رہے گا۔ فطری چناوٗ اس کو بہتر نہیں بناتا۔ اصل اور بڑا ارتقا لمبی اور یکایک چھلانگ سے ہو سکتا ہے۔

ڈارون ازم کے خلاف ایک اور بڑی چیز کام کر رہی تھی۔ جذبات۔ بے رحم موت زندگی کے ڈیزاین کا اہم حصہ ہے؟ یہ ہضم کرنا جذباتی وجوہ کی بنا پر مشکل تھا۔ جارج برنارڈ شا، جو ابتدا میں اس کے پرجوش سپورٹر تھے، ان کے الفاظ میں، “میں فطری چناوٗ کے مضمرات کو جتنی گہرائی میں سوچتا چلا گیا، میری ناپسندیدگی بڑھتی چلی گئی۔ جب آپ کو اس کے مطلب کی سمجھ آتی ہے، تو آپ کا دل جیسے کسی دلدل میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ یہ بدصورت ہے، ظالم ہے۔ کمزور کی موت کا اصول۔ یہ ٹھیک نہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ماحول میں مینڈیل کی دریافت کردہ جینیات آ گئیں۔ مینڈیل کا کام موت اور فاقہ زدگی پر نہیں تھا، بڑھنے اور پھلنے پھولنے پر تھا۔ اس میں جھٹکے تھے۔ بڑا پودا اور چھوٹا پودا۔ پیلے مٹر اور سبز مٹر۔ 1902 میں برطانوی بایئولوجسٹ ولیم بیٹسن نے پہلی انسانی جین دریافت کر لی (یہ بچوں کے پیشاب کو سیاہ کر دینے والی بیماری الکاپٹونیریا کی جین تھی)۔ تبدیلی کی وجہ جینیات ہیں۔ یہ تحریک باقاعدہ طور پر شروع ہو گئی۔ اس قدر زور و شور سے کہ 1904 میں جرمن سائنسدان ایبرہارڈ ڈینرٹ نے اعلان کیا، “ڈارون ازم بسترِ مرگ پر ہے۔ اس کی آخری رسومات کی تیاری چل رہی ہے”۔ ڈارون ازم کے سپورٹر اب اقلیت میں تھے۔ مکالمے تلخی بھرے ہوا کرتے تھے۔

بیسیویں صدی کے اوائل میں جینز اور کروموزوم کے بارے میں اہم چیزوں کا پتا لگنا شروع ہو گیا۔ یہ پتا لگ گیا کہ تمام مخلوقات کی جینز ہوتی ہیں، یہ تبدیل ہو سکتی ہیں، ان کی میوٹیشن ہو سکتی ہے، کروموزوم خلیوں میں جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں، یہ والدین سے آتے ہیں۔ لیکن ان سب تصورات کو ملا کر کوئی ایک مربوط تھیوری نہیں تھی۔ ہر کوئی وراثت کے ایک چھوٹے سے حصے کو دیکھ رہا تھا۔ ان ٹکڑوں سے کوئی تصویر نہیں ابھر رہی تھی۔ “کروموزوم تھیوری”، “جین تھیوری”، “میوٹیشن تھیوری” اور کئی اور تھیوریاں میدان میں تھیں۔ کئی سائنسدانوں کا خیال تھا کہ جینز کروزوم میں نہیں ہوتیں، کئی کے خیال میں ایک کروموزوم میں ایک جین ہوتی ہے، کئی کے خیال میں کروموزوم کا وراثت سے تعلق نہیں۔ ان سب الگ گروپس کے مکالمے بھی دوستانہ نہیں تھے اور لوگ دوسرے گروپس کی دریافتوں کو اہم نہیں سمجھتے تھے۔ بائیولوجی منقسم تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں پر یہ سب انقلابی اور جوابِ انقلابی ایک دوسرے سے یورپ میں لڑ جھگڑ رہے تھے، ایک اور سائنسدان خاموشی سے امریکہ میں اپنا کام کر رہے تھے۔ یہ تھامس ہنٹ مارگن تھے۔ مارگن ڈارون ازم اور جینیٹکس دونوں کو ناپسند کرتے تھے اور ان دونوں کو غلط ثابت کرنے کے خواہشمند تھے۔ ان کو اس موضوع میں دلچسپی ہالینڈ میں اپنے گزارے وقت کے دوران ڈی ورائز کے تجربات دیکھ کر ہوئی تھی۔ ڈی ورائز میوٹیشن تھیوری کو سپورٹ کرتے تھے۔ انہوں نے ایمسٹرڈیم میں ایک آلو کے خالی کھیت میں گلِ فنجانی کے بڑے ہی مختلف پودوں مشاہدہ کیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ پودے گلِ فنجانی کے عام پودوں سے مل کر افزائشِ نسل نہیں کرتے تھے۔ یہ نئی نوع بن گئے تھے۔ ڈارون نے ارتقائی چھلانگ کو مسترد اس لئے کیا تھا کہ ان کے مطابق اگر کوئی خصائص مختلف ہو جاتے ہیں تو وہ نارمل افراد سے مل کر واپس نارمل کی طرف آ جائیں گے۔ ڈی ورائز کے میوٹیشن پیرئیڈ نے یہ اعتراض ختم کر دیا تھا۔

مورگن کے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ ڈی ورائز کو یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ نئی نوع آئی کیسے ہے۔ لیکن اس کا آ جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ نئی انواع بن جانا محض قیاس آرائی نہیں ہے۔ اس کا ثبوت تو ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ کیا یہ جانوروں میں ہو سکتا ہے؟ کیا تجربہ کیا جا سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مورگن نے تجربات چوہوں اور کبوتروں سے شروع کئے لیکن ان کی اگلی نسلوں تک پہنچنا بڑا وقت لیتا تھا۔ نیویارک میں کیلے آنا شروع ہو گئے تھے اور ان کے ساتھ پھلوں والی مکھی ڈروسوفیلیا بھی۔ یہ جلد بڑھتی تھیں اور چند روز میں اگلی نسل آ جاتی تھی۔ یہ ان کے تجربوں کے لئے آئیڈیل تھیں۔ مورگن کا بنایا ہوا “مکھیوں کا کمرہ” بائیولوجی کی اہم دریافتوں کا سبب رہا ہے۔ مکھیوں کی افزائشِ نسل، ان پر تجربوں کی تکینک، تلف کرنے کے طریقے اس کمرے میں بنے۔ آج سب سے زیادہ تجربات ان پر کئے جاتے ہیں۔

ان پر بڑے صبر آزما تجربات کے بعد ان کی نسل در نسل افزائش کے بعد ان میں میوٹیشن نظر آنا شروع ہوئیں۔ ایک آبادی میں ہی رہتے ہوئے ایک نسل میں اتنی بڑی میوٹیشن ہو سکتی ہیں۔ یہ اس کا ثبوت تھا۔ مئی 1910 میں ایک مکھی نظر آئی جس کے آنکھ سرخ کے بجائے سفید تھیں۔ اس کو الگ کیا اور جب اس سے افزئشِ نسل کی تو مینڈیل والے نتائج نکلے۔ مورگن کے لئے بڑا دھچکا تھا کیونکہ وہ اس کو غلط ثابت کرنے نکلے تھے لیکن ذہن بدل لینا مورگن کی طاقت تھی۔ مکھیوں سے کھیلتے ہوئے انہوں نے اب نئی دریافتیں کیں۔ جین کروموزوم پر ہوتے ہیں لیکن ایک جین ایک کروموزوم کا خیال غلط ہے، یہ بھی ان تجربات کا حاصل تھا۔

ان کا اگلا بڑا خیال بھی وہ تھا جو ان کو خود بالکل پسند نہیں تھا۔ یہ جین کروزوم تھیوری کی یکجائی تھی۔ کونسی خاصیتیں آپس میں تعلق رکھیں گی، اس کا تعلق اس سے ہے کہ یہ جین کروموزوم میں کس جگہ پر موجود ہیں۔ یہ مورگن کا شاندار تجربہ تھا۔ انہوں نے کوئی نیا خیال پیش نہیں کیا تھا بلکہ دنیا میں ہونے والے ٹکڑوں میں الگ الگ کئے جانے والے کاموں کو جوڑ کر تجرباتی طور پر جینیات کی سائنس میں ایک لمبی جست لگوا دی تھی۔ کسی بھی خیال کو ٹیسٹ کرنے کے لئے ان کے پاس دسیوں ہزار مکھیاں ہر وقت بھنبھنا رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکھیوں پر کام کرنے والے سائنسدانوں (ان کے گروپ کو فلائی بوائز کہا جاتا تھا) نے ان تجربات کی مدد سے ان مکھیوں کی جینز کا نقشہ بنا لیا تھا۔ اس سب کو قدرتی چناوٗ کے ساتھ ملانے کا آئیڈیا مورگن کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور سائنسدان میولر کا تھا۔ ان کی منطق، بصیرت اور خیالات اور مورگن کے ساتھ ہونے والی لمبی بحثوں نے بالآخر مورگن کو بھی اس پر قائل کر لیا۔

جینز مخلوقات کو خاصیتیں دیتی ہیں۔ میوٹیشن خاصیتوں کو بدل دیتی ہے۔ رنگ، قد، رفتار وغیرہ میں ان کی وجہ سے فرق آ جاتا ہے۔ جس طرح ڈی ورائز نے گلِ فنجانی کی نئی نوع بنتے دیکھی تھی، اس کے پیچھے یہی مکینزم کار فرما تھا۔ زیادہ تر میوٹیشنز جانداروں میں معمولی فرق ڈالتی ہیں۔ کروموزومز کی کراسنگ اوور جینز کو پھینٹ دیتی ہے، نئے ورژن بنا دیتی ہے اور فطری چناوٗ کو کھیلنے کے لئے مزید مواد فراہم کر دیتی ہے۔ اکثر خاصیتیں بہت سی جین کے ساتھ مل کر بنتی ہیں۔ سب سے اہم، چونکہ جینز ڈسکریٹ ہیں، یہ مکمل حالت میں اپنی اگلی نسل تک پہنچتے ہیں، اس لئے فائدہ مند جین ملاپ کے ساتھ ڈائیلئیوٹ نہیں ہو جاتی۔ اگلی نسلوں میں جاری رہتی ہے۔ شماریات کا آرگومنٹ جینیات نے غلط ثابت کر دیا تھا۔

یہ سب میولر کے پیش کردہ خیالات تھے۔ ڈارون ازم اور مینڈل ازم الگ اور مخالف نہیں، ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ بائیولوجی کی تصویر مکمل کرتے ہیں۔

مورگن کے لئے یہ اپنے ذہن کو تبدیل کرنے کا یہ ایک اور بڑا قدم تھا۔ مورگن خود مینڈل اور ڈارون کے سپورٹرز کی لڑائیوں سے تنگ آ کر دونوں کو غلط ثابت کرنے نکلے تھے۔ ان کے کام نے ان دونوں کو ٹھیک ثابت کر کے ان کی دوستی کروا دی تھی۔ اس کو جدید سنتھیسز کا نام دئے جانے کی یہی وجہ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مورگن کا ایک اور بڑا کنٹریبیوشن بائیولوجی کو جذبات سے نکال کر تجربے اور ریاضی کی میز پر لانا تھا۔ ان کی اپنی جو خاصیت اس میں سب سے ضروری ثابت ہوئی، وہ ان کے اپنے پہلے سے بنے خیالات پر اصرار نہ کرنا بلکہ ٹھوس ثبوت تلاش کرنے پر زور دینا تھا۔ چیختی چلاتی بائیولوجی کے سیاہ دور کو خوشگواری میں تبدیل کرنے میں مورگن کے مکھیوں کے کمرے کے علاوہ ان کی اپنی ہنستی مسکراتی طبعیت کا بھی کمال تھا، جس پر لوگ بھروسہ کر سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تھامس ہنٹ مورگن کو اپنے کام پر نوبل پرائز مکھیوں کے کمرے کے دو ساتھیوں سمیت 1933 میں ملا۔ میولر کو ایکسرے کے ذریعے میوٹیشن پیدا کرنے کا طریقہ ڈھونڈنے پر الگ نوبل انعام 1946 میں دیا گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply