• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • بالائے بنفشی فاجعہ اور کوانٹم کی دریافت۔۔ادریس آزاد

بالائے بنفشی فاجعہ اور کوانٹم کی دریافت۔۔ادریس آزاد

اگر آپ ایک سفید کاغذ پر سیاہ رنگ کے ساتھ انچ بائی انچ کا ایک چوکٹھا لگائیں اور پھر اس چوکھٹے پر ٹارچ سے روشنی ڈالیں تو تمام کی تمام روشنی سیاہ چوکھٹے میں جذب نہیں ہوجائےگی۔ بلکہ کچھ روشنی اس طرح منعکس ہوگی کہ وہ سیاہ چوکھٹا اب کم تاریک نظر آنے لگے گا۔ اگر روشنی کی شدت زیادہ کردی جائے تووہ سیاہ چوکھٹا زیادہ سے زیادہ روشنی کو منعکس کرنے لگے گا، اس لیے سیاہ ہی نہ رہےگا بلکہ سفید ہوجائےگا۔
لیکن اگر آپ کسی گتے کے بالکل بند باکس کی کسی ایک دیوار میں اُسی سائز کا ایک چوکھٹا کاٹ لیں اور پھر اس چوکھٹے پر روشنی ڈالیں تو چاہے روشنی کی شدت جتنی بھی زیادہ ہو، وہ سیاہ چوکھٹا ، سیاہ ہی رہےگا، کیونکہ تمام تر روشنی باکس کے اندر چلی جائےگی اور واپس نہ آئے گی۔

فزکس میں بلیک باڈی کا تصورسمجھناہوتو ایسا ہی ایک باکس ذہن میں لانا چاہیے جس میں ایک چوکور سوراخ ہے، جیسے کوئی ننھا مُنا سا روشندان۔ وہ باکس اندر سے مکمل طورپر تاریک ہے، بلکہ اس کی اندرونی دیواروں کو کالے رنگ سے پینٹ بھی کردیا گیاہےتاکہ اندر سے اور بھی تاریک ہوجائے۔ یادرہے کہ باکس چاروں طرف سے بند ہے اور فقط ایک سوراخ کے سِوا اس میں کوئی اور سوراخ یا روشن دان نہیں ہے۔اب اس باکس کو اپنے سامنے میز پر اِس طرح رکھیں کہ چوکورسوراخ آپ کی نگاہوں کے سامنے رہے۔ظاہر ہے آپ کو باکس کے اندر سے اندھیرا نظر آرہاہوگا۔یہ مکمل سیٹ اپ ، آپ کی ریڈی میڈ بلیک باڈی ہے۔کیونکہ جب آپ اس تاریک سوراخ پر کسی بھی قوت کی روشنی پھینکتے ہیں، تو وہ منعکس نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سوراخ سے ہوکر باکس کے اندر چلی جاتی ہے اور جب باکس کی اندرونی دیواروں سے ٹکرا کر واپس باہر نکلنا چاہتی ہے تو نکل نہیں سکتی کیونکہ اندرونی دیواروں سے منعکس ہوکر روشنی کچھ اس طرح پھیل جاتی ہے کہ واپس سوراخ سے باہر آنے کے لیے مرتکز نہیں ہوسکتی۔ روشنی اندر ہی اندر باکس کی ایک دیوار سے دوسری دیوار کو ہی چھوتی رہتی ہےا وراس وجہ سوراخ مسلسل ایک کالے سیاہ چوکورخانے کے طورپر ہی نظر آتارہتاہے۔
اب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر یہ سیٹ اپ کیونکر بلیک باڈی کی بہترین مثال ہے؟

دراصل بلیک باڈی ایسا جسم ہے جو ہرقسم کی برقی مقناطیسی ریڈی ایشن (روشنی) کو جذب کرلیتاہے۔بلیک باڈی کو بلیک باڈی اس لیے کہا جاتاہے کہ وہ ہررنگ کی روشنی کو جذب کرلیتی ہے۔ایک بلیک باڈی برقی مقناطیسی لہروں کو خارج بھی کرتی ہے۔ یہ خارج ہونا منعکس یعنی ریفلیکٹ ہونا نہیں ہے بلکہ ایمِٹ (emit) ہوناہے۔اس کے برعکس ایک وائٹ باڈی وہ جسم ہے جو تمام کی تمام لہروں کو منعکس کردیتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ روشنی کئی رنگوں کی ہوتی ہے۔سرخ روشنی کی لہریں کمزور لہریں سمجھی جاتی ہیں جبکہ سبز یا نیلی روشنی کی لہریں زیادہ قوت والی لہریں سمجھی جاتی ہیں۔ اسی طرح بالائے بنفشی(ultraviolet) شعاعیں اور بھی زیادہ قوت والی شعاعیں ہیں اور ان سے زیادہ قوت والی شعاعیں تو کھلی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتیں اور ہوتی بھی بہت زیادہ طاقتور ہیں۔جب کوئی بلیک باڈی برقی مقناطیسی لہروں کو خارج یعنی ایمٹ کرتی ہے تووہ بلیک باڈی کسی انگارے کی طرح دہکنے لگتی ہے۔ ایک انگارہ بھی ایک بلیک باڈی ہی ہوتاہے۔ ہمارے آس پاس کی دنیا میں سب سے بڑی بلیک باڈی سورج ہے۔سُورج دراصل ایک بڑا انگارہ ہے۔ جب روشنی کسی شئے سے منعکس ہوتی ہے توہ چیز انگارے کی طرح نہیں دہکتی، بلکہ چمکنے لگتی ہے۔ چمکنے اور دہکنے میں بہت فرق ہے۔ دونوں بالکل الگ تصورات ہیں۔دہکنے کا مطلب ہے جسم کے اندربہت زیادہ توانائی ہے اور وہ اضافی توانائی کو باہر پھینک رہاہے۔

ہم نے اوپر جو سیٹ اپ بنایا یعنی گتے کا باکس، وہ ہماری بلیک باڈی کی مثال ہے۔اور یہ مثال اس لیے بھی عمدہ ہے کہ اگر آپ اسی باکس کی اندرونی ہوا کو گرم کرنا شروع کریں تو کیا ہوگا کہ سوراخ اب سیاہ نہ رہے گا۔ جوں جوں باکس کی اندرونی فضا ، حرارت میں بڑھتی چلی جائےگی، ہمارا سیاہ چوکھٹا جو ہم نے باکس کی ایک دیوار میں کاٹ رکھاہے، دور سے دیکھنے پر سُرخ سُرخ نظر آنے لگےگا، بالکل کسی انگارے کی طرح۔ آپ باکس کے اندر کی فضا کو گرم کرنے کے لیے اندر کوئی ہیٹر رکھ سکتے ہیں یا فقط کوئی اینٹ پتھر بھی رکھا جاسکتاہے جسے بہت زیادہ گرم کردیا گیا ہو۔ جب اندرونی ہوا بہت زیادہ گرم ہوجائےگی تو گتے کی دیواروں کے جل جانے سے پہلے پہلے تک، سوراخ میں سے سرخ رنگ کا اندھیرا نظر آنا شروع ہوجائےگا۔ ہم اگر باکس کے اندر کی فضا کو سات سو ڈگری تک گرم کردیں تو وہ سوراخ جو بالکل سیاہ تھا اب بالکل سرخ انگارے جیسا ہوجائےگا۔ اگر ہم باکس کے اندر کی فضا کو کسی طرح تیرہ سو(1300)ڈگری تک گرم کردیں تو وہ سوراخ سفیدی مائل پیلا نظر آئےگا۔ اور اگر اس سے بھی درجہ حرارت بڑھا دیا جائے توہ پہلے سوراخ سفید نظر آئےگا اور پھر رفتہ رفتہ اس کی رنگت سبز ہوتی چلی جائےگی، پھر نیلا اور پھر الٹراوائیلٹ۔

انیسویں صدی کے آخری دنوں میں سائنسدان یہ سمجھتے تھے کہ اگر کسی بلیک باڈی کے اندر درجہ حرارت بڑھتا چلاجائےتو اس سے خارج ہونے والی توانائی کی لہریں شدید سے شدید ہوتی چلی جائیں گی ، حتیٰ کہ اتنی شدید ہوجائیں گی کہ ان کی طاقت سے آس پاس کے اجسام کو تباہ ہوجانا چاہیے۔دراصل ابھی کوانٹم فزکس سامنے نہیں آئی تھی اور وہ کلاسیکل فزکس کے قوانین کی روشنی میں ایسا سمجھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب کسی ایٹم سے توانائی کا کوئی ذرّہ ٹکراتاہے تو ایٹم اس کے دھکے سے کانپنے لگتاہے، یعنی مرتعش ہوجاتاہے۔ اگرایٹم کے ساتھ ٹکرانے والا توانائی کا ذرّہ بہت زیادہ قوت کے ساتھ ٹکرائےتو ایٹم بہت زیادہ وائبریٹ ہونے لگتاہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایٹم کی وائبریشن بڑھتی ہی چلی جائےگی اگر اُس کے ساتھ ٹکرانے والے ذرّے کی انرجی بڑھتی ہی چلی گئی تو۔

یہ بات کلاسیکل فزکس کے اصولوں کی روشنی میں تو بالکل درست تھی، لیکن کوانٹم فزکس کی دنیا میں قوانین بالکل مختلف ہیں۔اس پر مستزاد حقیقت میں پیش آنے والا واقعی اَمر تھا۔ یعنی دوسری طرف تجرباتی سائنس تھی جو اس خیال کے مقابل تجرباتی طورپر جانتی تھی کہ ایسا نہیں ہوتا۔ تجرباتی سائنس جانتی تھی کہ درجہ حرارت جتنا بھی بڑھا دیا جائے، بلیک باڈی سے خارج ہونے والی توانائی کی لہریں اتنی زیادہ طاقتور نہیں ہوجاتیں، جتنا کہ ریاضیاتی طورپر اخذہورہاہے۔یہ گویا ایک بہت ہی بڑا معمہ(paradox) تھا۔نظریاتی سائنس کچھ اور بتارہی تھی اور تجرباتی سائنس کچھ اور بتا رہی تھی۔چونکہ یہ معمہ اس کے وقت کے تمام سائنسدانوں سے حل نہ ہورہاتھا ، اس لیے اس معمے کا نام پڑگیا، بالائے بنفشی فاجعہ(Ultraviolet Catastrophe)۔

1900 میں میکس پلانک نے ایک منفرد کام کیا۔ اس نے سوچا کہ ریاضیاتی طورپر جو بھی نتیجہ اخذہورہاہے، ہوتا رہے۔ کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ حقیقت میں جو واقعی طورپر پیش آرہاہے، اس کی ریاضی وضع کرلی جائے۔میں فرض کرتاہوں کہ اُس نے ہمارے گتے کے باکس کی طرح کا باکس تصورکیاہوگا۔ بہرحال اس نے حقیقی زندگی میں پیش آنے والے نتائج کو ریاضیاتی طورپر درج کرنا شروع کردیا۔مثلاً ہمارے مفروضہ باکس کے سیاہ چوکھٹے میں سے نظر آنے والی تاریکی، اُس وقت سیاہ تاریکی نہیں رہتی، جب ہم باکس کے اندر سات سوڈگری سینڈی گریڈ کا گرم پتھر یا ہیٹر رکھ دیں۔ ہمارا سیاہ چوکھٹا سرخ ہوجاتاہے۔ ہم اگر یہ درجہ حرارت سات سو ڈگری سے بڑھا کر تیرہ سو ڈگری کردیں تو سیاہ چوکھٹا سفید چوکھٹے میں بدلنے لگتاہے۔ سوال یہ ہے کہ سفیدرنگ تو حقیقی رنگ نہیں ہے۔ سفید رنگ تو دیگربنیادی رنگوں کا مجموعہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ باکس کے اندر جب حرارت بڑھتی جاتی ہے تو خارج ہونے والی ریڈی ایشن جو فی الاصل ہرقوت کی توانائی کے کچھ نہ کچھ حصے پر مشتمل ہوتی ہے، کُل رنگوں کو ملا کر سفید رنگ کی روشنی خارج کرنے لگتی ہے۔ لیکن چونکہ بنفشی یا قرمزی یا یوں کہہ لیجے کہ زیادہ قوت کی توانائیاں کم ہوتی ہیں اور تھوڑی قوت کی توانائیاں زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے اخذ کیا جاسکتاہے کہ ’’الٹراوائیلٹ کیٹاسٹرافی‘‘ حقیقی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ زیادہ قوت کی توانائیاں کم مقدار میں خارج ہورہی ہیں۔بالفاظ دیگر ہر ہر ایٹم سے ٹکرانے والی توانائیاں مخصوص ہیں۔

اس بات کو تھوڑا آسان کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل کلاسیکل فزکس میں جو یہ سمجھا جاتاتھا کہ کسی ایٹم سے توانائی کا جو بھی ذرہ ٹکرائےگا وہ ایٹم کو ضرور مرتعش(vibrate) کرےگا، غلط تھا۔ایسا نہیں ہوتا کہ ہرقوت کی توانائی کا ہر ذرّہ جب ایٹم سے ٹکراتا ہے تو ایٹم مرتعش ہوتاہے۔ فی الاصل جو واقعہ پیش آتاہے وہ یہ ہے کہ ایٹم سے ٹکرانے والا توانائی کا کوئی ذرّہ دراصل ایٹم کے الیکٹرانوں سے ٹکرا رہا ہوتاہے۔ اب ایٹم اس طرح سے بناہواہے کہ اس کے حجم(Volume) کا زیادہ تر حصہ اس وسیع و عریض علاقے پر مشتمل ہے جہاں الیکٹران گردش کرتے ہیں، جبکہ ایٹم کا مرکزہ یعنی نیوکلیس بہت ہی باریک ہے۔ الیکٹرانوں والا علاقہ زیادہ تر خالی ہے۔ الیکٹرانوں کے کئی مدار ہیں، جنہیں فزکس کی زبان میں انرجی لیول کہاجاتاہے۔نیوکلیس کے قریب ترین مدار میں (یا کسی بھی مدار میں) موجود کسی الیکٹران سے جب کوئی باہر سے آنے والا فوٹان ( جوکہ ریڈی ایشن یعنی روشنی کا ذرّہ ہے اور جو کسی بھی قوت کا ہوسکتاہے) ٹکراتاہے، تو اس ایٹم کے الیکٹران کی پہلے سے موجود توانائی کو بڑھا دیتاہے، جس کی وجہ سے وہ الیکٹران ایٹم کے قریبی مدار سے چھلانگ لگا کر قدرے دور والے کسی مدار میں جاگرتاہے۔ کچھ دیر وہاں قیام کرنے کے بعد وہ الیکٹران جب واپس اپنی گراؤنڈ سٹیٹ پر لوٹتاہے تو ایک فوٹان خارج کردیتاہے۔ اب چونکہ فوٹان روشنی کا ذرّہ ہےاور روشنی کے کئی رنگ ہوتے ہیں تو خارج ہونے والا فوٹان بھی کسی نہ کسی رنگ کا ہی ہوتاہے۔ان خارج ہونے والے رنگوں کو دیکھ کر سائنس دان اندازہ لگالیتے ہیں کہ اب کون سے مدار کے الیکٹران نے کہا ں تک چھلانگ لگائی ہوگی۔یہ ساری تحقیق پہلی بار آئن سٹائن کے ۱۹۰۴ والے مقالے میں شائع ہوئی توسائنس دانوں پر صورتحال واضح ہوئی۔لیکن آئن سٹائن ایسا کرنے میں کامیاب ہوا تو میک پلانک کے کام کی وجہ سے۔ کیونکہ میکس پلانک نے یونہی اندھیرے میں تیر مارا تھا اور یہ ریاضی مرتب کی تھی کہ ،
’’ہم فرض کرلیتے ہیں کہ جب بھی ایٹم میں توانائی کا کوئی ذرّہ داخل ہوتاہے اور کسی الیکٹران سے ٹکراتاہے تو اس کی ایک مخصوص مقدار ہوتی ہے جو اثر دکھاتی ہے ۔ کسی اور مقدار میں داخل ہونے والا توانائی کا کوئی ذرّہ الیکٹرانوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

اس بات کو یوں فرض کرلیں کہ مثلاً ایک الیکٹران ہے جس کے ساتھ سات سو ڈگری سینٹی گریڈ کی ریڈی ایشن ٹکرائےگی تو وہ چھلانگ لگاجائےگا، اور جب واپس لوٹے گا تو سرخ روشنی خارج ہوگی۔ اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ آٹھ سو ڈگری سینڈی گریڈ کی ریڈی ایشن اس سے ٹکرائےاور وہ پھر بھی چھلانگ لگا جائے۔ اسی طرح اگر اس کے ساتھ نوسو ڈگری سینٹی گریڈ کی روشنی ٹکرائے گی تو وہ چھلانگ لگاکر نیوکلیس سے، پہلے سے بھی زیادہ دور کسی اوپر کے مدار میں جاگرے گا، لیکن جب وہ واپس لوٹے گا تو پیلے رنگ کی روشنی خارج ہوگی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہزار سینٹی گریڈ کی ریڈی ایشن ٹکرائے اور وہ اسے چھلانگ لگانے پر مجبور کرلے۔ کتنی عجیب بات ہے۔ جو الیکٹران نوسوڈگری سینٹی گریڈ سے چھلانگ لگاتاہے وہ ہزارڈگری کی پروا بھی نہیں کرتا۔یوں گویا میکس پلانک نے فرض کرلیا کہ توانائی کی چند مخصوص مقداریں ہی ہیں جو الیکٹرانوں کو چھلانگیں لگانے پر مجبور کرتی ہیں اورایسا نہیں ہے کہ ہر قوت کی توانائیاں الیکٹرانوں کو چھلانگیں لگانے پر مجبور کریں۔
کلاسیکل فزکس کا خیال کچھ یوں تھا،
B=(f^2 2K_B T)/c^2
جبکہ میکس پلانک کا مفروضہ کچھ یوں تھا،
B=(2hf^3)/c^2 ×1/(e hf/(K_B f)-1)
اور یوں بالاخر بالائے بنفشی فاجعے کا قضیہ حل ہوا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply