انقلابِ ناتمام ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

معاشرے کے اندر دباؤ جب تمام بند توڑتے ہوئے پورے نظام کو ساتھ بہا لے جائے تو عموما ً اسے انقلاب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ دباؤ تین قسم کے ہو سکتے ہیں، گر سماجی اقدار، روایات یا انسانی خواہشات پر زبردستی پابندیاں لگی ہوں ، مزید براں ریاستی سہولیات کا فقدان بھی ہو تو اسے ہم سماجی دباؤ کہیں گے، دوسرا معاشی دباؤ ہے جو معاشرے میں معاشی ناہمواری اور نا انصافی کی وجہ سے سامنے آتا ہے ، اور تیسرا دباؤ فکری دباؤ ، یعنی فرد کے تخیل کو قید کرنے کی کوشش کی جائے یا اسے اپنے حق میں موڑنے پر مجبور کیا جائے، نظام کا الٹنا انہی تین قسم کے دباؤ کا مرہون منت ہوتا ہے۔

تاریخ میں تین معروف انقلابی کوششیں ہمارے سامنے ہیں، فرانس، روس اور ایران کے انقلابات ، یہاں اگر انقلاب کی تعریف میں یہ شرط بھی عائد کر دی جائے کہ نظام بدلنے کے بعد بہتری اور دیرپا تبدیلی معاشرے میں دیکھنے کو ملے گی تو اس تعریف پر صرف انقلابِ فرانس ہی پورا اترتا ہے، روس میں انقلاب کے نتیجے میں فقط معاشی تبدیلی دیکھنے میں آئی، زارِ روس کو کمیونسٹ پارٹی نے ہٹا کر کیمونزم کو لاگو کیا اور ایک خلافِ فطرت معاشی نظام کی عملی داغ بیل ڈالی جو سات دہائیوں کے بعد دم توڑ گئی، روس میں سماجی آزادی پر کوئی قدغن نہ لگائی گئی البتی فکری آزادی مکمل طور پر ضبط ہو کر رہ گئی، فکری آزادی پر پابندیوں اور غیر فطری معاشی نظام کا نتیجہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کا سبب بنا۔

دوسری طرف ایران کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے، شاہِ ایران کا تختہ الٹنے کے بعد نوجوانوں کی اس تحریک کو مذہبی علما   نے ہائی جیک کرتے ہوئے اسلامی نظام کا راگ الاپا، اور معاشرے میں مذہبی و مشرقی اقدار کے نام پر ملاازّم کو پروموٹ کیا، نتیجتاً فکری آزادی سے قوم کو ہاتھ دھونے پڑے، اسی فکری آزادی کے ضبط ہونے سے ادارے بانجھ ہوئے اور عاقبت نا اندیش پالیسیوں کی بدولت ایران پے در پے پابندیوں کی زد میں رہتے ہوئے معاشی بحران کو اپنے گلے کا طوق بنا بیٹھا، سماجی آزادی کو جو گرہن لگا اس پر خاموش رہنا ہی بہتر ہے، آئمہِ اہلِ بیت کی تعلیمات پر جس انقلاب کا واویلا مچایا گیا، صورتحال یہ ہے کہ آئمہ کرام کے خود ساختہ خلفاء اب مریدین کو امام علی رضا کے قرب میں قبر کی جگہ تین سے پانچ کروڑ پاکستانی روپوں کی مالیت برابر برائے “برکت ” فروخت کرتے ہیں۔ لیکن ایران کی سرزمین پر شاید سحر ہونے کو ہے کہ موجودہ نظام سلیمان علیہ السلام والے دیمک زدہ عصاء پر آخری سانسیں لے رہا ہے۔
کہا یہی جاتا ہے کہ برِصغیر کی سرزمین انقلاب جیسی خرافات کیلئے ناہموار ہے اور یہ بات درست بھی ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟

ایک ڈیم کی مثال لیجیے جس کا مقصد پانی کو مختلف مقاصد کیلئے ذخیرہ کرنا ہے، اس ڈیم کی بنیاد ایک مضبوط بند ہے، جسے wall کہا جاتا ہے، یہ پانی کے حجم اور دباؤ کو روکے رکھنے کیلئے ہے، لیکن اس بند کے علاوہ ڈیم کے spillways بھی ہوتے ہیں، ہم اپنے سمجھنے کیلئے ان سپِلویز کو کھڑکیاں یا روشن دان کہہ سکتے ہیں، ان کھڑکیوں کا مقصد یہ ہے کہ اگر پانی کا حجم یا دباؤ ضرورت سے بڑھ جائے، جو کہ بنیادی بند کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے، تو ان کھڑکیوں کے ذریعے زائد پانی کو خارج کر دیا جاتا ہے، یوں دباؤ پہ قابو پا لیا جاتا ہے اور ڈیم کی بنیاد یعنی بند محفوظ رہتا ہے۔
وطنِ عزیز میں جو بھی نظام ہو ، یا ہے، اسے آپ ڈیم کے بنیادی بند سے تعبیر کیجئے، اور اس بند کے پیچھے پانی کے دباؤ کو سماجی دباؤ تصور کیجیے، سماج میں موجود گھٹن، ناانصافی ودیگر مسائل جب فرد کے قابو سے باہر ہو جائیں، اعصاب جواب دے جائیں اور دباؤ اپنے نکتۂ عروج پر پہنچ جائے تو ایسے میں نظام کے بند کو ٹوٹ جانا چاہئے، لیکن ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ اس معاشرے کے ڈیم کی ساخت میں کچھ spillways بھی موجود ہیں جو بڑھتے دباؤ کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں، یہ سماجی سپِلویز یا کھڑکیاں کیا ہیں ؟

یہ وہ تمام افراد، گروہ، تنظمیں اور ادارے ہیں جو فلاحی کاموں کی مد میں ریاستی نااہلی کی کسی حد تک تلافی کرتے ہیں، یہ دردِ دل رکھنے والے افراد انفرادی اور اجتماعی سطح پر انسانیت کی خدمت کیلئے تن من دھن کی قربانی دے رہے ہیں، یہ بہت اعلی مقصد اور نیک کام ہے، لیکن نقصان اس کا یہ ہے کہ سماجی طور پر یہ لوگ یا تنظیمیں spillways یعنی کھڑکیوں کا کام دے رہے ہیں، جس سے اضافی یا غیر ضروری دباؤ کم ہو جاتا ہے اور نظام کا بند ٹوٹ نہیں پاتا۔

وطنِ عزیز میں جس بڑے پیمانے پر فلاحی تنظمیں متحرک ہیں، دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہو، ایدھی، الخدمت، چھیپا اور اخوّت جیسی تنظیمیں اس کی معروف مثالیں ہیں، یہ تنظمیں اپنی کارکردگی سے بے گھروں کو گھر، بھوکوں کو کھانا، یتیموں کو دستِ شفقت، بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع یا قرض وغیرہ دیتے ہوئے اس لاوے پر ٹھنڈے پانی کا کام کرتی ہیں جو عوام الناس کے دل و دماغ میں بھڑک رہا ہوتا ہے، یوں دباؤ کم ہونے سے نظام کی زیادتیاں اپنا سفر جاری رکھتی ہیں، اس لیے وہ تمام افراد جو وطنِ عزیز میں دوٹوک انقلاب کے خواہاں ہیں ان پر لازم ہے کہ ان تمام “خدا ترس “تنظیموں کا گلا گھونٹا جائے تاکہ spillways بند ہوں اور نظام کا بند ٹوٹتے ہوئے سب کچھ ساتھ بہا لے جائے۔ جو نکتہ سب سے دلچسپ ہے وہ یہ کہ انقلاب کے اکثر داعی ایسی ہی فلاحی تنظیموں سے بھی جڑے ہیں، یعنی کہ
” تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ”
ایسے افراد اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو اس dilemma کا حل صرف انہی کے پاس ہے کہ آخر ان کی منزل کیا ہونی چاہیے۔
لیکن کیا انقلاب ضروری ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب انقلاب جیسی خرافات کو دنیا کیلئے خطرہ سمجھا جاتا ہے، انقلاب کے بعد کیا تبدیلی آئے گی، اس بابت کوئی شخص بھی پورے وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن جو بات طے ہے وہ یہ کہ دورانِ انقلاب خون بہا لازم ہے، ایسے میں کسی نامعلوم منزل کیلئے ہزاروں یا لاکھوں افراد کی قربانی سراسر بے وقوفی کا سودا ہے، محققین عصرِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ریوولوشن کی بجائے اب ایوولوشن کو ترجیح دیتے ہیں اور ہمیں بھی جذبات پر قابو پاتے ہوئے اسی سمت پُرامید ہوکر چلنا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply