گذشتہ بیس سال میں جس فوجی بیس کا نام سب سے زیادہ لیا گیا، وہ یقیناً بگرام بیس ہے۔ یہاں سے اڑنے والے جہازوں نے افغانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اسی کے قید خانے میں قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ یہ بظاہر افغان سرزمین پر واقع تھا مگر یہاں کوئی افغان فوجی بھی امریکنز کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ بلگرام بیس افغانستان میں امریکی قوت و طاقت کی علامت تھا۔ ایک دفاعی امور کے ماہر دوست کی تحقیق کے مطابق امریکی افواج نے یکم اور دو جولائی کی درمیانی شب نہایت خاموشی سے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا اڈہ بگرام ائر بیس خالی کر دیا۔ یہاں امریکی میرینز، آرمی اور ائر فورس کی تنصیبات کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا ڈیٹینشن سنٹر یعنی قید خانہ بھی موجود تھا۔ سن 2006ء میں امریکا نے سوویت دور میں بنائے گئے اس ائر بیس پر نیا رن وے بنانے کے ساتھ ساتھ اس کو 70 مربع کلومیٹر کے علاقے تک وسعت دی اور اسے ایک ائر بیس سے بڑھا کر مکمل فورٹریس کی شکل دی، جہاں ایک پورا فوجی شہر آباد تھا۔ اس بیس پر پبز، کلب، شاپنگ سینٹرز، ہسپتال، جم، سوئمنگ پولز جیسی سہولیات کے ساتھ امریکی فاسٹ فوڈ کی چینز بھی موجود تھیں۔ امریکی افواج نے یہاں 56 میگاواٹ استعداد کا بجلی گھر بھی قائم کیا تھا۔ امریکی افواج یہاں سے جاتے ہوئے حساس نوعیت کا ایسا سامان جسے منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا، تباہ کر گئی ہیں، تاکہ وہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگ سکے۔
افغان طالبان نے بگرام بیس کو خالی کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسی بیس کے سامنے انڈیپینڈنٹ نے ایک افغان نوجوان کا انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کے اس بیس کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ اس نے امریکہ کے جانے پر خوشی اور خانہ جنگی کے شروع ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں بگرام بیس کی لوٹ میں حصہ لینا چاہتا ہوں، تاکہ میں بھی اپنا حصہ وصول کر سکوں۔ امریکہ نے بیس سال افغانوں کو مسلسل ذلیل کیا اور ان کی تحقیر کی، جس کی وجہ سے ایک عام افغان امریکی افواج سے شدید نفرت کرتا ہے۔ امریکی افواج نے بیس سالوں میں ٹریلینز ڈالر خرچ کرکے جو کچھ کمایا ہے، وہی یہی ہے کہ افغان عوام اب امریکہ سے پہلے سے زیادہ نفرت کرتی ہے۔ اب یہ بات امریکہ کو سمجھ آجانی چاہیئے کہ دنیا تبدیل ہوچکی ہے، اقوام کو زیادہ عرصے تک گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کے ظاہری نعرے جیسے مرضی ہوں، عوام اصل حقائق کو سمجھتے ہیں۔
کئی لوگوں کی رائے ہے کہ چین، ایران، پاکستان، روس ملکر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاملات طے کرائیں۔ یقیناً ایسا کرنا خطے کے ممالک کے مفاد میں ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے، کیونکہ امریکہ سات سمندر پار نکل گیا ہے، مگر خطے کے ممالک موجود ہیں اور یہ موجود رہیں گے۔ امریکہ بڑی چالاکی سے افغانستان کو بدامن کرکے گیا ہے کہ سارے ممالک اسی میں الجھے رہیں۔ سب سے پہلے افغانستان کے تمام گروہوں کا امتحان ہے کہ وہ امن کے لیے کوشش کریں اور باہمی مذاکرات سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ ہمارے ہاں کے جہادیوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ اس وقت کا کابل ایک مضبوط اور بڑا شہر ہے اور دنیا بھی کافی آگے بڑھ چکی ہے، طالبان اگر طاقت کے زور پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں ایک طویل خانہ جنگی کے عمل سے گزرنا ہوگا، جس میں افغانستان تباہ ہو جائے گا۔ اس لیے امن کو موقع دینے کے لیے اپنے ذرائع کو استعمال کرنا چاہیئے۔ میں ایسے ہی نہیں کہہ رہا، افغانستان میں جنگ کی آگ ہمیں بھی متاثر کرے گی۔
جس طرح سابقہ جہادیوں نے معرکوں سے فارغ ہو کر پاکستان کا رخ کیا اور تباہی مچائے رکھی۔ بالکل اسی طرح اب کی بار یہ دھماکے اور جہاد ہمارے پلّے پڑے گا اور وہ جو “جہاد” کے عرصہ سے عادی ہیں، وہ یہاں بدامنی پیدا کریں گے۔ اب ایسے حالات میں گذشتہ روز پارلیمنٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس غیر معمولی نوعیت کا تھا۔ جس طرح کے حالات سے خطہ گزر رہا ہے، ایسے اجلاس روز ہونے چاہیں، تاکہ امریکہ کی ایک کال پر پالیسی تبدیل کرنے کے نتیجے میں ستر ہزار پاکستانیوں اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی جو قربانی ہم نے دی ہے، اس جیسے کسی اور سانحہ سے بچا جا سکے۔ حکومت کی ابھی تک کی پالیسی بہت اچھی ہے، جس میں امریکی پھندے میں پھنسنے سے انکار کیا گیا ہے۔ جب ڈرون اور طیارے یہاں سے اڑ کر افغانستان پر حملے کریں گے تو واپس پھول نہیں آئیں گے بلکہ وہاں سے بھی بارود ہی واپس آئے گا۔ مہاجرین کے سیلاب سے خطے کے ممالک دوبارہ معاشرتی دباو کا شکار ہوں گے، اس لیے تمام پڑوسی ممالک کو افغانستان میں سول وار کو روکنا ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام کے ہمارے دوست مفتی محمد عمران نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فی الحال چائنا اتنا اسٹیبل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی عالمی اداروں پر اس کی گرفت مضبوط ہے، پاکستان جیسے کمزور معیشت ملک کا یوں کسی سے منہ موڑنا ممکن نہیں ہے، افغان امن و جنگ ایک طرف، پاکستان براہ راست سرد جنگ کا شکار ہونے جا رہا ہے اور امریکہ جہاں اس خطے میں بھارت کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کا خواہاں ہے، وہیں “چائلڈ سولجر ایکٹ” لسٹ میں پاکستان کو شامل کرکے پابندیوں کا سندیسہ دے رہا ہے، ماضی کی غلط سلط پالسیوں کی وجہ سے پاکستان دوراہے پر مجبور کھڑا ہے۔ مفتی صاحب کے خدشات بلکل درست ہیں اور امریکہ کی پاکستان کو نقصان پہچانے کے حوالے سے پالیسی کی ایک تاریخ ہے، یقیناً چائلڈ ایکٹ میں ڈالنا اور ایف ٹی اے ایف کی گرے لسٹ سے نہ نکلنے دینے کے پیچھے امریکہ کا ہی ہاتھ ہے۔ چین اکیلا یقیناً اتنا طاقتور نہیں ہے، مگر جب ایران، پاکستان اور روس ملکر پرامن افغانستان کی بات کریں گے تو یقیناً صورتحال مختلف ہوسکتی ہے اور امریکہ کا خطے کو برباد کرنے کا منصوبہ خود بخود ناکام ہو جائے گا۔ بگرام بیس سے نکلنے والا آخری امریکی فوجی یہ بتا کر جا رہا ہے کہ زمین کے مالک مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں اور قابض قوتوں کو ایک نہ ایک دن جانا ہی پڑتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں