فیس بک کا متبادل کیا ہے؟۔۔آصف محمود

فیس بک پر ’ کمیونٹی سٹینڈرڈ‘ کے نام پر آزادی رائے محدود تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور دوست سوال اٹھا رہے ہیں کہ فیس بک کا متبادل کیا ہے۔میرے نزدیک اس کا فی الوقت کوئی متبادل نہیں ہے۔ کسی بھی اور سروس کے نام اور عنوانات ضرور بدل سکتے ہیں لیکن جس مسئلے نے لوگوں کو فیس بک کے متبادل کی تلاش پر مجبور کیا ہے وہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ خرابی ہمارے داخل میں ہے اور تلاش ہم خارج میں کر رہے ہیں۔ کمیونٹی سٹینڈرڈز کے نام پر مغرب کو اتنا مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ بڑی حد تک ان کی مشترکات اور حساسیت یکساں ہے۔ ان معیارات سے سب سے زیادہ نقصان ہمارا ہو رہا ہے کیونکہ ہم جنوبی ایشیاء میں ہیں اور یہاں کے کمیونٹی سٹینڈرڈز اور حساسیت کے معیارات کے تعین میں بھارت کو اجارہ رادی حاصل ہے۔جوں جوں وقت گرزتا جائے گا، کمیونٹی سٹینڈرڈز کے نام پر بھارت کی حساسیت کو مسلمات کا درجہ ملتا جائے گا اور اس سے اختلافی نکتہ نظر کا دائرہ کار مختلف بہانوں اور اصولوں کی بنیاد پر محدود ہوتا جائے گا۔ دنیا میں اصول نہیں مفادات فیصلہ کن ہوتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ کی طرح سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک کی دنیا میں بھارت خود کو مستحکم کر چکا ہے۔

بھارت میں 280 ملین لوگ یعنی 28 کروڑ لوگ فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔یہ تعداد پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔پاکستان میں قریب چار کروڑ لوگ فیس بک  استعمال کر رہے ہیں۔ گویا فیس بک کے کاروباری مفادات ہمارے ساتھ نہیں بلکہ بھارت کی اس کنزیومر مارکیٹ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس خطے میں فیس بک کے فیکٹ چیک میکنزم پر بھی بھارت کی اجارہ داری ہے۔پاکستان میں فیس بک کا ایک ہی فیکٹ چیک پارٹنر ہے ، اے ایف پی۔ جب کہ بھارت میں فیس بک کے بہت سارے فیکٹ چیک پارٹنر کام کر رہے ہیں جن میں انڈیا ٹوڈے ، نیوز موبائل ، کوئنٹ ، وشواس نیو ز ، فیکٹلی اور بوم جیسے نام شامل ہیں۔ یعنی اس علاقے میں کمیونٹی سٹینڈرڈز کے تعین اور ان کی پامالی پر تادیب کے تمام مراحل میں بھارت کو عملاً  ’ واک اوور ‘ حاصل ہو چکا ہے۔

عالم یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ  کے ترجمان کے اکاؤنٹ سے کشمیر پر ایک پوسٹ کی جاتی ہے اور اس پر ان کا اکاؤنٹ معطل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی حکومت رسمی سا ایک بیان دے دیتی ہے کہ ہم فیس بک اور ٹوئٹر سے شکایت کریں گے اور اس کے بعد کسی کو معلوم نہیں شکایت کی گئی یا نہیں اور کی گئی تو اس کا نتیجہ کیانکلا۔ اس صورت حال میں ، سنجیدہ لوگوں کے پیش نظر اب سوال یہ ہے کہ فیس بک پر بات کہنے میں اسی طرح گھٹن بڑھتی رہی تو پھر ہم کہاں جائیں گے؟ کیا ہمارے پاس کوئی متبادل موجود ہے؟ کچھ دوست اس کا جواب انسٹا گرام کی شکل میں تلاش کر رہے ہیں اور کچھ دیگر ایپس کی جانب رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔لیکن یہ تمام آپشنز ایک سراب سے زیادہ حیثیت نہیں کیونکہ ہم بطور پاکستانی اس معاملے کو دیکھیں یوں بطور امت ، ہر دو صورتوں میں مسئلہ ہمارے داخل میں ہے۔ ہمارے ہاں حکومتیں یہ چاہتی ہی کب ہیں کہ آزادی رائے دستیاب رہے۔ آزادی رائے کا مقدمہ لڑنا تو بہت بعد کی بات ہے۔حکومتوں نے یہاں سوشل میڈیا سے جڑے ابلاغ اور معیشت کے امکان کو کبھی سنجیدہ ہی نہیں لیا۔یہاں سوشل میڈیا کبھی زیر بحث آیا بھی تو اس عنوان کے تحت کہ اس گستاخ کو حد ادب میں کیسے لایا جائے۔ہمارے ہاں حکومت اپنی مدح ہی کو کشور کشائی کا متبادل سمجھتی ہے ۔

اس بات کو ابھی سمجھا ہی نہیں جا رہا کہ گلوبل ولیج میں سفارت کاری اب محض سفارتکاروں کا کام نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر موجود ہر آدمی اپنے وطن کا سفیر ہوتا ہے۔ سطحی ترجیحات نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم امہ کو دائروں میں قید کر رکھا ہے۔ آزادی رائے پوری مسلم دنیا میں نا پسندیدہ ترین چیزوں میں سے ایک ہے۔ شخصی حکومتوں کو تو چھوڑیے ترکی جیسے جدید جمہوری معاشرے میں طیب اردوان صاحب پر تنقید کرنے والے میڈیا ہائوسز کے ساتھ جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔مسلم دنیا کے حکمران اپنے داخلی تضادات کی وجہ سے آزادی رائے کی بات کر ہی نہیں سکتے۔ وہ یہ بات کرنا بھی نہیں چاہتے۔ لیکن ابلاغ کی دنیا بدل رہی ہے۔ زباں بندی پر مائل مسلم سماج اپنی افتاد طبع کی وجہ سے ابلاغ کے گلوبل میدان میں غیر محسوس طریقے سے پٹ چکا ہے اور یہاں دوسری قوتیں اجارہ داری حاصل کر چکی ہیں۔ اجارہ داری کے اس ماحول میں فیس بک ہو یا ٹوئٹر ، انسٹا گرام ہو یا واٹس ایپ، آخری قہقہہ اسی کا ہو گا، جس نے اس میدان پر توجہ دی ہو گی۔اور اس میدان میں ہم کہیں بھی نہیں ہیں۔

آج ہم فیس بک سے نکل کر کسی اور ایپ پر جائیں گے لیکن کل یہی یا اس سے بھی شدید کمیونٹی سٹینڈرڈز وہاں بھی آ جائیں گے۔ان کمیونٹی سٹینڈرڈز کے تعین میں ہماری رائے کہیں شامل ہی نہیں نہ ہی یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ہمیں تو سوشل میڈیا کی گستاخیاں ویسے ہی اچھی نہیں لگتیں۔ڈر یہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب سوشل میڈیا پر پاکستان کا جائزموقف دیتے ہوئے بھی اکاؤنٹ معطل ہو جایا کرے گا۔اس وقت سمجھ تو سب کو آ جائے گی لیکن دیر بہت ہو چکی ہو گی۔ کہنے کو مسلم دنیا کی او آئی سی کو ابلاغ کی اہمیت کا بڑا احساس ہے۔لیکن عملاً  ابلاغ سے کسی کی نہیں بنتی۔کہنے کو تو بہت پہلے 1975 میں ہی ، چھٹی وزرائے خارجہ کانفرنس کے موقع پر مسلم دنیا نے اسلامک براڈ کاسٹنگ یونین قائم کر دی تھی جس کے چھ مقاصدتھے اور ان مقاصد کا خلاصہ بیان کرنا ہو تو اسے آپ مسلم دنیا کی ’ فیس بک ‘ قرار دے سکتے ہیں۔لیکن عملاً  آج تک کیا ہوا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ وہ راز ہے جس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ اسی طرح 1970 میں انٹر نیشنل اسلامک نیو ز ایجنسی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔1975میں او آئی سی نے اسلامک سٹیٹس براڈ کاسٹنگ آرگنائزیشن قائم کی۔آج شاید خود او آئی سی کو معلوم نہ ہو یہ ادارے کہاں ہیں ، کس حال میں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ مسلم دنیا ابلاغ کے چیلنجز سے بے نیاز ہے۔ ابلاغ کے باب میں مسلم معاشروں کی حساسیت اگر ہے بھی تو بس اتنی کہ حکمرانوں کے گستاخوں کو قابو میں رکھا جائے اور حد ادب کو فروغ دیا جائے۔ اس میدان سے جڑے عالمی چیلنجز سے سبھی بے نیازہیں۔ اس میدان میں نہ حکومتیں دلچسپی لیتی ہیں نہ سماجی سطح پر ایسے پراجیکٹس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ایسے میں کیسا متبادل اور کون سا متبادل۔ ایک ایپ کو چھوڑ کر کسی دوسری ایپ پر جانا ایسا ہی ہو گا جیسا ڈوبنے والا سہارے کے طور کسی تنکے کو تھام لے۔ ابلاغ کی دنیا میں جب تک مسلم سماج خود متحرک نہیں ہو گا ، تب تک کوئی متبادل نہیں ملے گا۔ اور اس کام کے لیے صرف معاشی خوش حالی ہی نہیں فکری ساخت میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply