• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حدیث و سنت کے مابین فرق اور حدیث و سنت بطور ماخذ شریعت ایک تحقیقی جائزہ(حصّہ اوّل)۔۔مشرف اسد

حدیث و سنت کے مابین فرق اور حدیث و سنت بطور ماخذ شریعت ایک تحقیقی جائزہ(حصّہ اوّل)۔۔مشرف اسد

برصغیر میں جب اسلام  داخل ہوا  تو دینِ اسلام  نے اس خطہ زمین میں رہنے والوں کو زندگی گزارنے کا ایک الگ طریقہ دکھایا۔دین اسلام نے لوگوں کو اس قدر متاثر کیا کہ جو لوگ وہاں اسلام لے کر آئے  انہیں دیکھ کر ہی  وہاں کے بسنے والے ایمان لے آئے اور دین اسلام ان کی زندگی کے ہر شعبے   پر اثر انداز ہوا ۔وہ کہاں بتوں کو پوجنے والے ،اب  ایک اللہ کی بندگی کرنے لگے ۔وقت گزرتا گیا اور یہاں بسنے والے مسلمان ترقی کرنے لگے اور مختلف  علوم کو لے کر اپنا نام منوانے لگے۔ یہ دور مسلمانوں کے عروج کا دور تھا ۔مسلمانوں نے ہر ہر علوم کو لے کر چاہے وہ سائنس ہو ،فلسفہ ہو ، علم طب ہو  یا  علم ِنجوم ہو، انہوں نے  اپنا ایک الگ ہی نام بنا لیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اُس دور میں   ایک عام انسان بھی اتنا ذہین  و فطین تھا کہ اسے مختلف زبانوں  پر عبور حاصل تھا اور کئی  دینی و دنیاوی علوم ابتدائی  تعلیم میں ہی مکمل کروا دیے جاتے ۔ایک طرف ترکوں کی حکمرانی تھی تو دوسری طرف برصغیر میں مغلوں کی۔ لیکن ایک وقت  ایسا بھی آیا   کہ آہستہ آہستہ انگریزوں نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرکے مسلمانوں میں پھوٹ ڈال  دی اور مسلمانوں کی حکومت توڑ دی۔وہ حکومتیں جو صدیوں سے چلی آرہی تھیں اور اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہی تھیں۔اس دور میں   صرف مسلمانوں کی حکومت ہی ختم نہیں ہوئی،  ساتھ ہی ساتھ مسلمان علمی ذخیرے سے بھی محروم ہو گئے  اور پھر غلامی کا ایسا دور شروع ہوا ،جس کے اثرات آج آزادی ملنے کے باوجود  بھی نظر آتے ہیں۔  اور اب  برصغیر کے مسلمانوں نے  ایک نئے زمانے کی   شکل دیکھی وہ Secularism   اور Liberalism کا دور تھا  ۔ دینی تعلیم اور قرآن و سنت کو مدرسوں تک محدود کرکے   مغربی تعلیم کو رائج کردیا گیا اور اسی طرح مسلمان     دین سے متنفر ہونا شروع ہوگئے،  محل سے بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔اب چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں کی سوچیں بدل د ی تھیں۔اور  اب ہر فرد انگریز جیسا ہی  حلیہ   اپنا کر ان کی نمائندگی  کرنے لگا  اور قرآن و سنت کو فقط  باپ دادا اور مدارس تک ہی محدود کردیا  گیا  ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام آج مدارس تک محدود  ہوچکا ہے۔  ہمارے ایک سادہ لوح مسلمان کے مطابق  پانچ وقت نماز و ماہ رمضان کے روزے ہی اُن کے لیے کُل دین ہے ، سنت؟  قرآنی احکامات؟   شریعت۔۔ہماری    اکثریت  ایسی ہے کہ انہیں دین کی بنیادیں تک نہیں معلوم ۔فقط یہی روش اختیار کر رکھی ہے  کہ فلاں مفتی صاحب ہیں فلاں مولوی صاحب ہیں  انہیں سب معلوم ہے گویا  ان کا پورا دین ہی یہی ہیں۔

ہم اب خود سے کچھ نہیں پڑھتے نہ ہی کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمیں بحیثیت مسلمان دین کا علم حاصل کرنا چاہیے،   عقائد و نظریات قوی ہونے چاہئیں  کہ جب غیر مسلم یا  دشمنان اسلام، اسلام   پر تنقید کریں یا ہمارے پیارے نبیﷺ کی شان مبارکہ میں گستاخی کرنے کی کوشش کرے تو  ہمیں انہیں   ان سوالات کے جوابات ہوش و حواس میں  دلائل اور حکمتِ عملی کے ساتھ دیں نہ کہ جوش ِ  جذبات میں آکر اپنا ہی نقصان کریں ۔

ویسے تو موضوعات کی طویل فہرست ہے کہ  جن کے بارے میں  ہم سب مسلمانوں کو علم  ہونا چاہیے،  لیکن میں ایک موضوع کو اجاگر  کروں گا اور ان دو اصطلاحات پر بحث کروں گا۔    وہ ہیں حدیث اور سنت  اور ان کے مابین فرق۔ اب اسی موضوع کی ضرورت کیوں ہے؟آج کے مسلمان کو اس بات کا علم ہی نہیں، ان اصطلاحات کے حقیقی معنی کیا ہیں، ان کی کیا ا  ہمیت ہے اور ان کے مابین  کیا فرق ہے تو میں  اس موضوع پر بحث  سوال و جواب کی شکل میں کرنے کی کوشش کروں گا۔لہذا بحیثیت مسلمان اور دین محمد ﷺ کے پیروکار ہوتے ہوئے   ہمیں دین اسلام کی بنیادی تعلیمات اور ان جیسی اصطلاحات کا علم لازما ًہونا چاہیے۔

سوال 1: لفظ حدیث کے لغوی و اصطلاحی معنی کیا ہیں؟

احادیث لفظ حدیث کی جمع ہے  جس کے معنی ہیں خاص بات یا کوئی  نمایا ں چیز۔ عربی زبان میں لغوی اعتبار سے لفظ حدیث کے کئی  معنی و مفاہیم  ہیں۔ حدیث سے مراد نئی  بات کے بھی ہیں اور کسی قابل ِ ذکر واقعہ کے بھی ہیں، کوئی  گفتگو یا کوئی  کلام، نئی  بات، نئی  چیز  کو عربی زبان میں  حدیث کہتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ارشاد ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا “احسن الحدیث کتاب اللہ” یعنی سب سے اچھا کلام اللہ کا کلام ہے۔ یعنی لفظ حدیث اور کلام، بعض اوقات ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔

فلیاتوا بحدیث مثلہ(الطور:34)۔

اس جیسی ایک حدیث یا اس جیسا ایک کلام بنا کر لے آؤ

دور جہالت میں عرب اپنے تاریخی قصے  اور واقعات یاد رکھا کرتے تھے ،انہیں ایام العرب کہا جاتا ہے یعنی عرب کے دن اور انہی واقعات اور تاریخی جنگوں کو احادیث بھی کہا جاتا ہے۔(1)

اسی طرح قرآن مجید میں بھی لفظ حدیث لغوی اعتبار سے  قصے یا واقعہ کے  معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے

“فجعلنھاھم احادیث و مزقناھم کل ممزق”(السباء:19)

اور ہم نے انہیں بھولے بسرے قصے بنادیا۔

امام جلال الدین سیوطی نے تدریب الراوی میں لکھا ہے کہ

مَا یُضَافُ إِلَی النَّبِیِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَکَأَنَّهُ أُرِیدَ بِهِ مُقَابَلَةُ الْقُرْآنِ لِأَنَّهُ قَدِیمٌ.(2 )

حدیث کا دوسرا لغوی معنی خبر ہے۔ اس معنی کی رُو سے اس کا مطلب ہے کہ

جو حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ گویا لفظِ حدیث قدیم کا متضاد بھی ہے اور منقول  عن  النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

بھی یہ دونوں معانی اس کے لغوی مفہوم میں شامل ہیں۔

جیسے بتایا گیا کہ لفظ حدیث کے معنی نئی  چیز کے بھی ہیں اور عربی زبان میں لفظ حدیث لفظ قدیم کے لئے بطور متضاد بھی استعمال ہوتا ہے۔جیسے اللباس الحدیث یعنی جدید طرز کا لباس۔

انہی معنوں میں کہا جاتا ہے کہ قرآن  کلام ِ قدیم ہے اور حدیث رسولﷺ کلام جدید یا نیا کلام ہے۔ (3)

لفظ حدیث کے اصطلاحی معنی کی بات کریں تو ایک مشہور محدث نے لفظ حدیث کی جامع ترین تعریف کچھ یوں کی ہے

اَلْمُرَادُ بِالْحَدِیْثِ فِیْ عُرْفِ الشَّرْعِ مَا یُضَافُ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ ۔(4)

عرف ِشریعت میں حدیث سے مراد ہر وہ چیز جو آپ ﷺ کی طرف منسوب کی جائے۔

یا ہر وہ چیز جو رسول ﷺ کی ذاتِ  گرامی سے  نسبت رکھتی ہے، تو وہ حدیث ہے۔

مشہور محدث اور فقیہ علامہ بدر الدین عینی نے شرح صحیح بخاری میں حدیث کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی ہے:

ھو علم یعرف بہ اقوال رسولﷺ و افعالہ واحوالہ(5)

یعنی علم حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے آپﷺ کے اقوال احوال و افعال معلوم کیے جا ئیں ۔محدثین میں حدیث کے اصطلاحی معنی کو لے کر شروع سے اختلاف ہے بعض کی رائے کے مطابق حدیث سے مراد صرف رسولﷺ  کے اقوال و افعال و احوال اور بعض کے نزدیک صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و احوال بھی حدیث کہلاتے ہیں۔کیونکہ ان کی رائے ہے صحابہ،تابعین اور تابعین کے ارشادات سے رسولﷺ کے احوال،اقوال و افعال کا پتہ چلتا ہے۔ گویا جن محدثین کی رائے یہ ہے کہ  حدیث سے مراد صرف آپﷺ کے اقوال،افعال و احوال ہیں انہوں نے صحابہ کرام کے اقوال،افعال و احوال کے لئے الگ اصطلاح کا استعال کیا ہے جس کا نام اثر ہے۔(6)

سوال 2: حجیت حدیث کو بیان کریں۔

لفظ حجیت سے مراد استدلال کے ہیں یعنی کسی حکم کو ثابت کرنا ہے حجیت حدیث سے مراد قرآن کے ساتھ ہی احادیث سے بھی عقائد و احکام ثابت کرنا۔

اللہ رب العزت نے رسولﷺ کی حیات مبارکہ کو تمام عالم اور انسانوں کے لئے   رہنمائی کا ذریعہ  بنایا ۔ صحابہ کرام نے آپﷺ سے براہ راست علم حاصل کیا جب بھی کوئی  وحی نازل ہوتی تو صحابہ کرام وہاں موجود ہوتے اور آپﷺ کی حیات مبارکہ سے ان آیات کی تفسیر سنتے لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج کے دور میں ہم تک یہ احکامات کیسے پہنچے اور اسکا   کیا ذریعہ ہے؟ یہ کہنا احادیث کی تدوین چونکہ تیسری صدی میں کی گئی  تو اس میں شک و شبہات ہیں تو یہ بات درست تو ہے کہ اس میں اختلاف ہے لیکن اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ  علم حدیث کو ہم رد ہی کردیں ،چنانچہ  حدیث ہی  وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم تک اسوہ رسولﷺ کی تفصیلات   پہنچتی ہیں اور اللہ کے احکامات کے ساتھ ساتھ رسولﷺ کے احکامات کی اتباع بھی ہم پر لازم ہے۔(7)

بِالۡبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ​ؕ وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ‏ (سورۂ النحل ۴۴)

یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔
وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوا۟ (سورۂ النحل ۶۴)

یہ کتاب ہم نے آپ پر اس لئے اتاری ہے کہ آپ ان کے لئے ہر چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔

ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُواللَّه وَأَطِيعُوٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ  (النساء:59)

اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں۔۔۔

سوال 3: لفظ سنت کے لغوی و اصطلاحی معنی کیا ہیں؟

سنت کا لفظ سَنَّ یَسِنُّ سَنٌّ سے نکلا ہے ۔ سَن کا معنی ہے کسی شے کا آسانی سے چلنا ۔ پے در پے ایک دوسرے کے پیچھے ہونا ۔ (8)  لغوی اعتبار سے سنت کے معنی    راستے کے ہیں (9)

لفظ حدیث کی اصطلاح اسلام نے دی ہے جبکہ لفظ سنت کی اصطلاح قبل از اسلام چلی آرہی ہے  اور اسلام میں اس کے معنی بھی وہی ہیں جو قدیم دور سے چلے آرہے ہیں ۔دور جہالت کے مشہور شعرا  میں سے ایک شاعرا لبید بن ربیعہ العامری ایک شعر میں کہتا ہے

من معشرسنت لھم اباھم
و لکل قوم سنۃ و اماماھا

یعنی میرا تعلق اس گروہ سے ہے  جن کے آباواجداد نے ایک سنت مقرر کی یعنی ایک طریقہ رائج کیا جس کی سب نے  اتباع کی اور وہ طریقہ بطور سنت قائم ہوگیا  اور ہر قوم کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور امام ہوتا ہے۔(10)

اصطلاح محدثین میں لفظ سنَّ سے مراد  وہ طریقہ  جو آپﷺ نے اختیار فرما  یا، آپﷺ  کے جس طریقے  کو قائم کرنے کے لئے آپﷺ کو مبعوث کیا گیا سنت کہلاتا ہے۔(11) یا ہر وہ فعل قول اور تقریر کا نام  سنت ہے جوآپﷺ سے ماثور ہو(12)

حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ فتح باری میں لکھتے ہیں

والمراد ”بالکتاب“ القرآن المتعبد بتلاوتہ، و”بالسنة“ ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم من أقوالہ وأفعالہ وتقریرہ وما ہَمَّ بفعلہ، والسنة في أہل اللغة الطریقة وفي اصطلاح الأصولیین والمحدثین ما تقدم. (13ا)

اصطلاح حدیث کی طرح اصطلاح سنت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ بعض محدثین کے نزدیک  سنت کی اصطلاح خاص نبیﷺ کے لیے  ہےاور بعض کے  نزدیک  یہ اصطلاح صحابہ ،تابعین اور تبع تابعین کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے اور بعض کے نزدیک  جس طرح نبیﷺ کی سنتیں ہیں اس طرح صحابہ ،خلفائے راشدین،تابعین اور تبع تابعین کی بھی سنتیں ہیں۔(14)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

Musharaf asad
جامعہ کراچی,شعبہ علوم اسلامیہ کا ایک طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply