اجتماعی دیوانگی /ڈاکٹر مختیار ملغانی

ایک اصطلاح Geosphere ہے، جس کا مطب کرہ ارض ہے، یعنی زمین کی اوپری سطح ، جس میں پہاڑ صحرا سمندر میدان وغیرہ شامل ہیں، اس کرہ ارض کے اوپر موجود رواں زندگی کو Biosphere ، یعنی حیاتی کرہ کہا جاتا ہے، سوویت جیو کیمسٹ ولادیمیر ورنادسکی نے ایک فرانسیسی خدا شناس کے ساتھ مل کر یہ دلچسپ نظریہ پیش کیا

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

کہ ان دو کروں کے اوپر ایک اور کرہ موجود ہے، جسے انہوں نے Noosphere کا نام دیا، Noos یونانی زبان میں شعور کو کہتے ہیں، یعنی کہ کرہ ارض سب سے پہلی سطح، اس کے اوپر حیاتی کرہ اور اسے کے اوپر شعوری کرہ پایا جاتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جوں جوں کمیونیکیشن کے ذرائع بڑھیں گے، شعوری کرہ مضبوط تر ہوتا جائے گا ۔
تمام بے جان کرہ ارض تک محدود ہیں، انسان کے علاوہ باقی جاندار حیاتی کرہ ہی بنا پاتے ہیں، جبکہ حضرتِ انسان ان سب کے اوپر ، اپنی عقل کی بدولت ، ایک اضافی یعنی شعوری کرہ بناتا ہے، اس بنیاد پر ورنادسکی کا کہنا ہے کہ انسانی عقل صرف زمینی چیز نہیں ، اس زمین کے باہر بھی کوئی اینٹینا موجود ہے جہاں سے عقل کو سگنلز دئیے جاتے ہیں ۔
صرف انسان ہی وہ جاندار ہے جو موت کے بعد اپنے اقارب کو دفنانے کی روایت رکھتا ہے، مردے کو دفنانے کا عمل مذہبی تعبیر کو جنم دیتا ہے، یا پھر شاید مذہبی تعبیر نے انسان کو دفنانے کا فن سکھایا، اسی مذہبی تعبیر کا جنم ہی شعوری کرے کی طرف پہلا قدم ہے، انسان کا یقین حواسِ خمسہ کے باہر تلک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ قبر سے مذہب اور اساطیر، مذہب و اساطیر سے عبادت گاہ ، عبادت گاہ سے شہر اور شہر سے تہذیب جنم لیتی ہے ، جانور چونکہ دفنانے کے فن سے واقف نہیں، کیونکہ وہ شعور کی نچلی سطح پر ہیں، اس لئے وہ کسی تہذیب کی داغ بیل نہ ڈال سکے ۔
اجتماعی دیوانگی کا تصور پہلی دفعہ سوویت محقق الیکزینڈر چیژیوسکی نے پیش کیا، ان کے مطابق سورج پر شعلوں کے بھڑکنے (مقناطیسی طوفان کہیئے) سے جو انرجی کا اخراج ہوتا ہے، یہ اخراج شعوری کرے کو خاطر خواہ متآثر کرتا ہے۔ سورج کی سطح پر ان” ایٹم بموں ” کا پھٹنا شعوری کرے کو چیرتے ہوئے کسی خاص خطے، کسی ملک ، قوم یا گروہ کو اجتماعی دیوانگی کی لپیٹ میں لے لیتا ہے، یہ اجتماعی دیوانگی مختلف روپ اختیار کر سکتی ہے لیکن انسانی تاریخ میں اس کی بھیانک ترین مثال مذہبی جنونیت ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہ مذہبی جنونیت مسلسل یا ہمیشہ جاری رہتی ہے، اس کے ادوار ہوتے ہیں، چیژیوسکی نے باقاعدہ چارٹ بنا کر سورج پر غیر معمولی دھماکوں کے ماہ و سال اور انہی ماہ و سالوں میں مذہبی جنونیت کے عروج کی تصویر دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ دونوں مظاہر ایک دوسرے سے بلا واسطہ جڑے ہیں ۔ صلیبی جنگوں کے دور کو لے کر انہوں نے اس پہ تفصیلی بحث کی ہے کہ اس دور میں سورج کی سطح پر غیر معمولی اور مسلسل دھماکے دیکھنے میں آئے، نتیجے میں اجتماعی دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ ہر صلیبی گھر بار بیچ کر، بیوی بچوں کو چھوڑ کر، سر تا پا مسلح ہوکر فلسطین کو روانہ ہوجاتا، اور چونکہ فلسطین کی سمت اور جغرافیہ معلوم نہ تھا تو راستے میں ہر یہودی بستی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے کہ شاید یہی فلسطین ہے، ان صلیبیوں کی بھاری اکثریت فلسطین تک تو پہنچ ہی نہ پائی ، اور جو پہنچ پائے انہوں نے خون کی وہ ہولی کھیلی کہ متعصب ترین مؤرخ کا قلم بھی کانپ اٹھتا ہے۔
ہٹلر کو خدا کا درجہ دینے والے کوئی بے وقوف لوگ نہ تھے، وہ تمام پڑھی لکھی مغربی تہذیب کے علمبردار تھے، قرونِ وسطٰی کے یورپ بالخصوص برطانیہ میں لاکھوں خواتین کو زندہ جلا دیا گیا کہ ان پر غیر مرئی شیطانی قوتوں کا ساتھ دینے کا الزام تھا، اور عوام کی اکثریت اس الزام اور سزا کو دل میں بھی برا نہ جانتی تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ عصر حاضر میں بھی سورج کی سطح پر پے در پے غیر معمولی دھماکے جاری ہیں کہ مذہبی جنونیت کی شکل میں اجتماعی دیوانگی اپنے جوبن پر ہے، کہیں مقدس کتب کو جلایا جاتا ہے تو کہیں مقدس کتب کے پیروکاروں کو قتل کیا جا رہا ہے، برصغیر کے شعوری کرے کی اوزون شاید شمسی لہروں کی شدید زد میں ہے۔
یہ بات درست ہے کہ شمسی لہریں اس پاگل پن کی واحد وجہ نہیں، سماجی اور سیاسی حالات بھی اپنا اپنا اثر رکھتے ہیں، لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ مودی سرکار میں ایک طرف تو ایسے ایسے بڑے دماغ موجود ہیں کہ چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے نہ ملیں اور دوسری طرف غیر ہندوؤں کے ساتھ ریاستی رویہ نہایت شرمناک ہے، مانا کہ پاکستان میں تعلیم کی کمی، سماجی و سیاسی عدم استحکام ہماری اجتماعی دیوانگی کی بڑی وجہ ہیں، لیکن پارلیمنٹ میں بیٹھے افراد جو کوئی بھی مضحکہ خیز اور خطرناک بل پاس کروانے پر آنکھ تک نہیں جھپکتے، کیا وہ بھی غربت یا کسی عدم استحکام کا شکار ہیں، ان کی اکثریت تو ترقی یافتہ اور مہذب ممالک سے تعلیم یافتہ بھی ہے، پھر مسئلہ کہاں ہے؟ یقینا الیکزینڈر چیژیوسکی نے اس پاگل پن کے ایسے عنصر کی طرف توجہ دلائی ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔
آئیڈیاز کبھی بھی Geosphere یا Biosphere میں جنم نہیں لیتے، یہ خالصتاً Noosphere کی پیداوار ہیں، کیونکہ یہی وہ کرہ ہے جہاں کھڑے ہوکر انسان ظاہری حقیقت کے اس پار جھانکنے کی کوشش کرتا ہے، عجب نہیں کہ مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر نفرت یا محبت اس پار سے آئی معلومات کا خاصہ ہیں، آئیڈیاز کو پنپنے کیلئے مناسب زمین مل جائے تو ٹھیک ، وگرنہ یہ وائرس کی طرح مردہ حالت میں پڑے اپنے وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں، جیسے ہی سماجی، سیاسی حالات وائرس کیلئے سازگار ہوں اور سورج کے شعلے ان کے جسم میں حرارت کا باعث بنیں تو یہ وائرس نئے سرے سے اپنی جدوجہد شروع کرتے ہیں، ولادیمیر ورنادسکی نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ کے بڑھنے سے شعوری کرہ مضبوط تر ہوگا، پہلے یہ دیوانگی محدود ہوتی تھی، اب جب ٹاک شوز میں ملک کے احمق ترین لوگ اہم ترین موضوعات ڈسکس کریں گے اور کروڑوں لوگ انہیں سننے اور چاہنے والے ہوں تو منفی اور سطحی آئیڈیاز وائرس کی طرح کیوں نہ پھیلیں جو اپنی اصل میں جان لیوا ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply