کووڈ کرسمس- تہوار یا تنہائی۔۔۔فرزانہ افضل

کووڈ کرسمس- تہوار یا تنہائی۔۔۔فرزانہ افضل/کرسمس کا تہوار جو یسوع مسیح کی پیدائش کی خوشی میں ان کی سالگرہ کے طور پر دنیا کے 160 ملکوں میں منایا جاتا ہے جبکہ 14 ممالک ایسے ہیں جہاں کرسمس منانے کا رواج نہیں۔ کرسمس کی سجاوٹ اور روشنیاں بازاروں اور گھروں میں کئی ہفتے قبل ہی لگا دی جاتی ہیں اور کرسمس درخت کی رنگارنگ ڈیکوریشن پر تو خاص طور پر محنت ہوتی ہے۔ کرسمس کے تحائف عام طور پر کرسمس ایو یعنی چاند رات کو ہی دے دیے  جاتے ہیں اور کرسمس کے دن خاندان کے سب افراد ایک گھر میں جمع ہوتے ہیں مل کر روایتی ناشتہ کرتے ہیں اور پھر چرچ میں کرسمس کی اسپیشل سروس میں حاضری دیتے ہیں۔ اس کے بعد گھر آکر کرسمس ڈنر جس میں طرح طرح کے کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے ، سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور خوب گپ شپ کرتے ہیں۔ ہم مشرقی ثقافت کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہمارے ہاں اس قسم کی دعوتیں اور طعام معمول کا واقعہ ہیں اور ہم اپنی اقدار کے مطابق اپنے بزرگوں کی خدمت اور دیکھ بھال دل و جان سے کرتے ہیں اور خاندان کے باقی افراد سے میل جول اور رابطے میں رہنا بھی ہمیں بہت خوشی دیتا ہے لیکن مغرب میں فیملیز مخصوص موقعوں پر ہی اکٹھی ہوتی ہیں اور کرسمس کا دن تو ہر عمر کے لوگوں بلخصوص بوڑھے افراد کو بے چینی سے انتظار رہتا ہے جب ان کی اولاد اور پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں ان سے ملنے کے لیے آتے ہیں ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔

بدقسمتی سے سال 2020 کے آغاز سے ہی کرونا کی وبا کی وجہ سے پوری دنیا پر عذاب آیا گو کہ بہت سے ملکوں نے اس پر فوری قابو پا لیا مگر دو سال گزرنے کے باوجود بھی برطانیہ میں کورونا سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکا اور پھر نہ صرف کرونا بلکہ اس کی سپیشلائزڈ برانچز ڈیلٹا ویرئنٹ اور اب اومیکران کی مصیبت سر پر لٹک گئی ہے. یوکے بھر میں یکے بعد دیگرے لاک ڈاؤن اور مختلف مراحل کی پابندیاں عائد رہیں۔ سماجی پابندیوں سے لوگوں میں تنہائی کی وجہ سے اداسی اور ڈپریشن بہت پھیلا اور ٹیلی ویژن پر کورونا کے حوالے سے روزانہ نشر ہونے والی خبروں اور ملکی صورتحال میں تبدیلی سے لوگوں میں خوف اور بے یقینی پیدا ہوگئی۔ مگر اس ساری صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے معمر افراد ہیں، جو لاک ڈاؤن کے دوران اپنے بچوں سے ملاقات کرنے سے قاصر رہے۔ پھر حکومت نے کچھ نرمی کی اور دو قریبی تعلق رکھنے والے گھروں کےافراد کو آپس میں ملنے کی اجازت دی۔ گزشتہ برس 2020 کرسمس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی. بوڑھے لوگوں کے لیے کرونا سے حفاظت مزید ناگزیر تھی کیونکہ ان کی عمر کے تقاضے اور پہلے سے موجود بیماریوں کی وجہ سے کرونا لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔ ان دو سالوں کے دوران کئ بزرگ افراد جوڑے اپنے ساتھیوں کو کھو بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے ان سے بات کرنے والا بھی کوئی نہیں رہا وہ تنہائی میں اپنے ساتھی کی موت کے دکھ میں آزردہ ہیں۔
“تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا”

بوڑھے افراد کی سپورٹ کے لئے قائم ایک چیریٹی ایج یو کے Age UK نے معمر افراد کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور گاہے بگاہے مختلف رپورٹس شائع کی ہیں لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے کی پابندیوں کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد کی زندگی کی روٹین بالکل بدل کر رہ گئی ہے ان کی بیماریاں اور صحت کی ضروریات کی وجہ سے ان زندگیاں بہت متاثر ہوئی ہیں کیونکہ ان کو دی جانے والی سپورٹ میں کافی کمی آ گئی ہے ان کی جسمانی صحت اور فعالی شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایج یوکے کی رپورٹ کے مطابق بہت سے معمر افراد نے شکایت کی کہ ان کی نقل و حرکت کی قوت میں بہت کمی آگئی ہے، کورونا سے قبل وہ سیڑھیاں اتر اور چڑھ سکتے تھے، مختصر فاصلہ کی چہل قدمی بھی کر سکتے تھے اور اپنے روزمرہ کے کام گھر کے اندر کسی حد تک انجام دے سکتے تھے اب ان سب میں مشکلات محسوس کرتے ہیں، ان کو کافی تگ و دو کرنا پڑتی ہے کیونکہ ان کی جسمانی تکالیف اور جوڑوں کے دردوں میں بھی شدت آ گئی ہے۔ ان سب کا باعث تنہائی کا ڈپریشن ہے۔ یہ سب لکھتے ہوئے اچانک مجھے اپنا پسندیدہ گانا یاد آگیا جو میں کبھی کبھار گنگناتی ہوں۔ “دل چاہتا ہے” فلم میں عامر خان پر فلمایا گیا یہ خوبصورت نغمہ،” تنہائی ، میلوں ہے پھیلی ہوئی تنہائی”
سماجی رابطوں اور میل جول میں کمی کی وجہ سے ان بوڑھے افراد کی یادداشت بھی بہت متاثر ہوئی ہے اس کے ساتھ ساتھ اداسی کی وجہ سے بہت جذباتی اور حساس ہوگئے ہیں کچھ افراد نے یہ بھی کہا کہ بات بات پر رونے کا من کرتا ہے
“آج کا دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے۔
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا”

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سب کی اخلاقی، معاشرتی اور انسانیت کے حوالے سے ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے محلے کے بوڑھے ، معذور اور کمزور افراد کا خیال رکھیں، گاہے بگاہے ان کی خبر گیری کرتے رہیں۔ خاص طور پر کرسمس کے موقع پر ان کے دروازے پر دستک دے کر بھلے باہر سے ہی پھولوں کا گلدستہ، چاکلیٹ، کیک یا کسی بھی تحفے کے ساتھ ان کو ملنے جائیں ان کو یہ محسوس کروائیں کہ آپ اس موقع پر ان کی خوشی میں برابر کے شریک ہیں ۔ خدا کے لئے ان کو اس کیفیت سے بچا لیں کہ
” تنہا خاموش رات اور گفتگو کی آرزو
کس سے کریں بات کوئی سنتا ہی نہیں”
کرسمس کے علاوہ بھی ان سے رابطے میں رہیں شاپنگ اور گروسری میں ان کی مدد کریں ان کو کسی اپائنٹمنٹ پر جانا ہو تو اپنی گاڑی میں لے جائیں اور کبھی کبھار ان کو چھوٹی موٹی سیر و تفریح پر بھی لے جائیں تاکہ ان کا دل بہلا رہے۔ یقین مانیے  جب آپ دوسروں کی خوشی کا باعث بنتے ہیں تو اس سے آپ کے اپنے دل کو جو طمانیت اور خوشی محسوس ہوگی اسکا جواب ہی نہیں۔ مت بھولیے سب سے پہلے تو ہم انسان ہیں بعد میں کچھ اور۔
“ایسا مکتب بھی شہر میں کوئی کھولے ناصر
جہاں آدمی کو انسان بنایا جائے”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply