اہل سادات کے نصیباں میں ہجرتوں کے دکھ نجانے کاتب تقدیر نے کس مصلحت کے تحت لکھے تھے کہ صدیاں گزر گئیں گریہ کرنے والے رو رو اندھے ہوۓ مگر ہجرتوں کے سلسلے ہنوز جاری ہیں امام علی عون کے خانوادے سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ صدیوں پہلے ملتان آباد ہوا اور پھر مرشد کی جانب سے اشارہ ملنے پر اس گروہ کے سرکردہ رکن سید شرف الدین شاہ ولایت نے امروہہ کا رخ کیا۔
شہر امروہے کے کنارے ایک وسیع تالاب میں ہر روز نیلگوں آسمان سے ڈھلتے ہوۓ سورج کی نارنجی میں سفید بگلے ایک بڑی تعداد میں برف کے گولوں کی مانند شفاف پانی میں پروں کو ساکت کیۓ ہوۓ اترتے، اسی تالاب کے کنارے شرف الدین شاہ ولایت نے رہائش کے لیۓ قطعہ زمین منتخب کیا، لوگ درشن کے لیے آتے اور اپنی مرادیں بر پاتے ،یوں وہ علاقہ آباد ہوا، اور وقت گزرنے کے ساتھ بگلا محلہ کے نام سے مشہور ہوا۔
مشہور مصور صادقین کے اجداد شرف الدین شاہ ولایت کی اولاد میں سے تھے، اسی محلے میں انہوں نے دالان در دالان وسیع سبزہ زاروں کے درمیان ایک حویلی کی بنیاد رکھی، صادقین کا بچپن اس کتاب کے مصنف اپنے خالہ زاد بھائی سید علی نقوی کے ساتھ اسی حویلی کی بھول بھولیوں میں گزرا۔
امروہے میں واقع امام المدارس ہائی سکول میں صادقین حروف تہجی کو بولنے اور یاد کرنے سے پہلے ان کی اشکال سیکھ کر خوشخطی سے لکھنے لگے ،محلے کے تمام گھروں کی دیواروں کو وہ کینوس کے طور پر استعمال کرتے ہوۓ بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھ چکے تھے، ایک تپتی دوپہر کو جب سب گھر والے سو رہے تھے صادقین نے علی نقوی کو کہا کہ گذشتہ رات کے اپنے اپنے خوابوں کو تصویروں کی صورت کاغذ پر بیان کرتے ہیں، شاید تخیل میں جگمگاتے نقوش کو رنگوں کا روپ دینے کی یہ صادقین کی پہلی کوشش تھی۔
محلے کے کمہار کے گھر صادقین پہروں بیٹھے چاک پر دھری مٹی سے برتن بننے کے عمل کو دیکھتے رہتے اور ان ظروف پر رنگ بھرنے میں کمہار کی بیوی کی مدد کرتے، مگر تخیل کو وسعت درکار تھی سو رنگوں سے جی بھر جاتا تو گھر میں ہونے والی مجالس کی وجہ سے مرثیہ و سلام کے لاتعداد یاد رہنے والے اشعار کو دھیمی آواز میں پڑھتے ہوۓ خوشخطی سے لکھنے میں مگن ہو جاتے ،یوں شاعری کے صوتی آہنگ سے اُن کا پہلا تعارف ہوا۔
میٹرک کے بعد صادقین دہلی ریڈیو اسٹشن شاعروں کے منتخب کلام کو خوشخطی سے لکھنے کی نوکری کرنے لگے ،غالب سے والہانہ دلچسپی انہی دنوں پیدا ہوئی ،غالب کے انتخابِ کلام کے ساتھ شاعر کی شبیہہ بھی بنائی، نظیر کے عوامی رنگ سے متاثر ہونے کے علاوہ جوش کے الفاظ اور رباعیوں سے وہ کئی دن اُلجھے رہے ،یوں رباعی کی صنف سے شغف پیدا ہوا، بعد کے برسوں میں نہ صرف اپنی رباعیات کے کئی مجموعے چھپواۓ بلکہ لفظوں کو تصویروں کی صورت اور موج ِ خیالِ یار میں ہر دم رواں نقوش کو الفاظ میں ڈھالنے کا ملکہ بھی حاصل کیا ۔۔۔
اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔۔
مہربان دوست بیگم سرافراز اقبال کا صادقین سے قریبی تعلق تھا، صادقین انہی کے گھر ٹھہرے ہوۓ تھے، ٹی۔وی پر ممتاز مفتی کے بارے کوئی پروگرام نشر ہوا، سرافراز اقبال نے کہا ٹی۔وی پر پروگرام دیکھتے ہیں، انا پرست صادقین کو بھلا یہ بات کیسے گوارا ہوتی، کہ ٹی۔وی پر ہی سہی میزبان کسی اور پر نظرِ التفات کرے، اسی وقت کچی پینسل سے یہ رباعی ایک بوسیدہ کاغذ پر لکھ کر سرفراز اقبال کے حوالے کی۔
اب اس کو نہ تم نامہِ الفت بھیجو
اب اس کو نہ پیغامِ محبت بھیجو
اس شوخ کے دل میں نہیں گر بوۓ وفا
بہتر ہے کہ اس شوخ پر لعنت بھیجو
اور دوسرے دن متلون مزاج درویش صفت صادقین نے ایک رومال پر دائمی مسکراہٹ لئے بیگم سرفراز اقبال کی چوڑیوں کی گونجتی کھنک اور اداس آنکھوں سمیت تصویر کے ساتھ یہ رباعی لکھی۔
مکھڑے کی تنویر سے باتیں کی تھیں
اور زلف کی زنجیر سے باتیں کی تھیں
کل ایک تصویر بنا کر میں نے
پھر کچھ تیری تصویر سے باتیں کی تھیں
*
سلسلہ روز و شب
نقش گر حادثات
اور ہجرتوں کے سلسلے
زندگی کے ساتھ ساتھ
تصاویر اور بیاض تقسیم کے حادثے میں گم ہوئی امروہے کے زمانے کی جو شاعری محفوظ رہی برسوں بعد صادقین نے جزو بوسیدہ کے نام سے شائع کروائی ۔قیام پاکستان کے بعد پہلی نوکری ضلع حیدر آباد کے شہر سکرند کے زرعی کالج میں کی ،جہاں نباتات کی تصاویر بنانے کا کام صادقین کے سپرد کیا گیا تھا۔ ایک روز نجانے جی میں کیا آئی کہ شاعری اور تصاویر کے پلندے کو نذر آتش کیا ،نوکری کو خیر آباد کہا اور کراچی جا کر دم لیا۔ صبح سے شام تک خالہ زاد بھائی علی نقوی کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر ایک سعی لا حاصل کی تلاش میں پھرتے ہوۓ ہر دو قدم پر کسی چاۓ خانے میں دم لیتے جہاں بیٹھنے والے شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں سے دوستانہ تعلقات قائم ہوۓ ۔اسی زمانے میں مشہور بنگالی مصور شیخ سلطان کی وساطت سے صادقین حسین شہید سہروری سے متعارف ہوۓ سہروری بساط ِ سیاست کے شہسوار ہونے کے علاوہ فنون لطیفہ کے بھی قدردان تھے ۔انہوں نے اپنے گھر صادقین کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کر کے صادقین کو کراچی کے اعلیٰ سماجی حلقے سے متعارف کروایا ،مگر اس سے پہلے کوئٹہ میں صادقین کی پینٹگز اہلِ ذوق ایک نمائش میں منہ مانگے داموں خرید چکے تھے۔
بھائی کی اچانک ہونے والی موت کا سانحہ نازک مزاج صادقین بھلا کیونکر برداشت کر پاتے ،سو ان کو فوری طور پر کراچی کے جناح سینٹرل ہسپتال داخل کروایا گیا ،طبیعت بحال ہوئی تو ہسپتال کے کمرے کو صادقین بطور سٹوڈیو استعمال کرنے لگے ،صادقین کی توجہ کے حصول کے لیے ہسپتال کی نرسوں میں رقابت کا جذبہ فروزاں ہوا، مصور اس تماشے سے مطمئن ہمہ وقت خواتین کے جھرمٹ میں نقش و نگار بنانے میں مگن رہا ،صادقین کے خالہ زاد بھائی اور کتاب کے مصنف کی اپنی ہونے والی بیوی نرجس سے پہلی ملاقات ہسپتال کے اسی کمرے میں ہوئی، نرجس فائن آرٹ میں ایم۔اے کرنے کے بعد صادقین سے ملنے ہسپتال آئی تھی، جناح سینٹرل ہسپتال اور کراچی کے پرانے ہوائی اڈے کے لیے صادقین نے میورال بناۓ جب ہسپتال اور ہوائی اڈہ کے لیے موجودہ عمارات بنائی گئیں، تو وہ میورال نجانے کسی سرے محل منتقل ہوۓ یا کوڑیوں کے مول کباڑ خانے تک پہنچے۔
صادقین صحرا کو مشت خاک سمجھتا سو اظہار کے لیے رنگوں اور الفاظ کا انتخاب کیا ،پاؤں میں جو چکر تھا اس نے تخلیق کے کرب کو جلا بخشی، 1960 کی دہائی میں صادقین پیرس جا کر خیمہ فگن ہوۓ وہاں کے آرٹ ڈیلروں نے جب صادقین کے کام کو دیکھا تو اس کی پذیرائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی، البرٹ کامیو کو ادب کا نوبل انعام مل چکا تھا، پیرس کے ایک معروف کلب نے کامیو کے شہرہ آفاق ناول(outsider)کا باتصویر ایڈیشن چھاپنے کا اعلان کیا، صادقین اس سے پہلے پچاس سے زائد ممالک کے مصوروں کے درمیان پیرس میں ہونے والے ایک مقابلے میں اوّل انعام لے چکے تھے کامیو کے ناول کا تصویری ایڈیشن چھاپنے کا کام بھی انہی کو تعویض ہوا۔
یورپ اور امریکہ کے کامیاب دورے کے بعد جب صادقین واپس آۓ تو ذاتی کرب، تنہائی کے دکھ اور معاشرتی انتشار کے اظہار ِ بیان کے لیے کیکٹس کے پودے کو انسانی شبیہ کی صورت مصور کرنے لگے ،ابن آدم کی حدود وقت سے آگے نکلنے کی بے سود کوششوں کو 62 فٹ کے طویل کینوس پر پینٹ کیا ،ترقی کے نام پر انسانی ارتقائی عمل کو منگلا ڈیم میں آویزاں میورال میں بیان کیا ،علم کی لگن کتاب تک پہنچنے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے، غالب صادقین کا عمر بھر محبوب شاعر رہا، غالب کے اشعار نے جب صادقین کے تصور خیال کو وسعت بخشی تو صادقین نے غالب کے منتخب اشعار کو مصور کر کے دو آتشہ سا بنا دیا ،اضطراب تخلیق کے کئی روپ طلب کرتا ہے، صادقین نے مصوری،خطاطی اور شاعری کو بیان کا وسیلہ بنانے کے لیے یکساں طور پر استعمال کیا۔
وطن بدر کب یادِ وطن سے غافل رہتے ہیں، ان کو تو خوابوں میں بھی جنم بھومی کی یاد ستاتی ہے، اسی کے عشرے میں صادقین دعوت ملنے پر ہندونستان گئے،وزیراعظم اندرا گاندھی نے صادقین سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ،ملاقات کے دوران صادقین نے اندرا گاندھی کی تصویر بنائی اور اپنے دستخط ثبت کرنے سے پہلے مسز گاندھی کو اپنا نام لکھنے کے لیے کہا، اندرا گاندھی نے ہندی میں اپنا نام لکھا ،صادقین نے بیگم گاندھی سے کہا آپ کے والد اور دادا تو اُردو کے شیدائی تھے ،اندرا گاندھی نے مسکراتے ہوۓ ہندی کے نیچے اُردو میں بھی اپنا نام لکھ دیا، صادقین ہندوستان میں قیام کے دوران علی گڑھ یونیورسٹی سمیت کئی عمارات میں اپنے فن کے اَن مٹ نقوش چھوڑ آۓ۔
مملکت خدا داد میں جہاں مصوری کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا گیا اس کے باوجود صادقین کو ہر طبقے کے لوگوں نے پذیرائی بخشی، ان کے اَن گنت فن پارے ان کی ہمہ جہت شخصیت کے گواہ ہیں ،درویش صفت صادقین انا پرست تھے ،وہ فیاض ہونے کے ساتھ ساتھ زود رنج بھی انتہا کے تھے، ایک روز چاند چہروں کے درمیان وہ رنگوں سے کھیلتے ہوۓ راہی ملک عدم ہوۓ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں