نظامِ تعلیم جدت کا متقاضی ہے۔۔سیّد عمران علی شاہ

علم  نور ہے، اور ایسا آفاقی نور ہے کہ جس کی بدولت کائنات کا ذرّہ ذرّہ روشن اور منور ہوجاتا ہے، رب العالمین نے قرآن مجید ،فرقان ِ حمید میں سب سے پہلی وحی کا نزول بھی اقراء سے فرمایا، پڑھ اپنے پروردگار کے نام سے، انسان علم کے بغیر سوائے گوشت پوشت کے کچھ بھی نہیں ہے۔

یہ علم ہی تو ہے کہ جس کی بدولت انسان نے مخلوقات پر فضیلت کا تاج پایا، علم بلاشبہ کائنات کا سب سے  بڑا خزانہ ہے، کہ جس کے  حصول نے  انسان کو اس قدر طاقت ور بنا دیا ہے کہ وہ کہکشاؤں کے راز جان کر ان کو تسخیر کرنے کے  قابل ہوگیا۔

علم نے انسان  کو اتنا  ہنر عطا  کردیا کہ انسان نے دریاؤں کے رخ موڑ دیے، صحراؤں کو گلزاروں میں بدل دیا، کوہساروں پر اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑھ دیے،دنیا کی تاریخ کا مطالعہ اس بات کی بھرپور نشاندہی کرتا ہے کہ حصولِ  علم نے اقوام کی تقدیر بدل کر رکھ دی، اور جن اقوام نے علم کی اہمیت کا ادراک نہیں کیا ،وہ نہ صرف تباہ ہوئیں بلکہ وہ بے نام و نشان بھی ہوگئیں۔

جب کہ جو اقوام علم کے حصول  میں  ترقی کی منازل طے کرتی رہیں، وہ حاکم ٹھہریں،دنیا کی ترقی یافتہ  قوموں نے اپنے تعلیمی نظام کو وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بروقت اقدامات کیے، اور شعبہ تعلیم میں تحقیق کے عنصر کو نہایت اہمیت  کا حامل بنایا،پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے، اگر پاکستان میں شعبہء تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو، اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ، پاکستان میں تعلیم کا شعبہ تجربہ گاہ رہا ہے،. جس پارٹی نے اکثریت حاصل کی اس نے تعلیم کے شعبے پر اپنی من مرضی کی پالیسیوں کا اطلاق کیا، جس سے تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کو شدید نقصان پہنچا، اس وقت بھی پورے ملک  میں تین طرح کے تعلیمی نظام بہ یک وقت چل رہے ہیں، سرکاری سکول، دینی مدارس اور پرائیویٹ سکول سسٹم، ملک کی اکثریت تو اس وقت بھی قدیم طرزِ تعلیم  حاصل کر رہی ہے، شہری علاقوں میں تو پھر بھی  کسی قدر بہتر نظامِ  تعلیم رائج ہے، مگر دیہی علاقوں کا آج بھی کوئی پُرسانِ  حال نہیں ہے،  اس وقت بھی ملکی  60 فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔

انسانی تاریخ کے لیے گزشتہ سال:
گزشتہ برس کورونا وائرس کی موذی  وباء  کے لیے بد ترین رہا، جس  کی تباہ کاریوں کے  موجودہ سال میں بھی اپنے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔
اس نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، پاکستان میں بھی اس وباء کے بد ترین اثرات مرتب ہوئے، لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ اس موذی وباء سے جو شعبہ متاثر ہوا، وہ تعلیم کا شعبہ ہے، ملکی تاریخ میں تعلیمی اداروں کی یہ طویل ترین بندش رہی۔

اس دوران کچھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تو آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع رکھا،جن میں چند ایک اداروں کا  معیار  تو بہت بہتر تھا، مگر زیادہ تر اداروں  میں آن لائن تعلیم  معیاری نہیں تھی،  اس  سب سے بڑی  وجہ یہ کہ اس طرز ِ تعلیم کے لیے نہ ہی ادارے تیار تھے ،اور نہ ہی طالب علموں کو کوئی خاص آگاہی تھی۔

جس طرح سے دنیا میں وبائی امراض وقوع پذیر ہو رہے ہیں، وہ تشویشناک ہے، لیکن ایک اہم سوال  اُٹھتا ہے کہ کیا ہم ایسے ہی اپنے اداروں کی بندش کرتے رہیں گے یا پھر اپنے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر  استوار کر کے اپنی آنے والی نسلوں کی تعلیم کے حصول کو یقینی بنائیں گے۔

پاکستان میں جدید ممالک کی طرز پر روایتی تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ آن لائن تعلیم کا جدید ترین نظام بھی نافذ العمل کرنا ہوگا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں اور اداروں  کو پابند کرے، کہ وہ پورے ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو مفت یا رعایتی نرخوں پر انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کریں، جس میں صرف اور صرف رسمی تعلیمی مواد تک رسائی ممکن ہو،
نرسری سے لے  کر  پی ایچ ڈی لیول تک کا تمام نصاب حکومتی سرپرستی میں سرکاری ویب سائٹس پر موجود ہونا چاہیے۔

تعلیمی نصاب کو ممکنہ حد تک یکساں ہونا چاہیے۔ملک میں موجود شعبہ تعلیم سے وابستہ تمام افراد کو جدید آن لائن تعلیمی نظام کی بھرپور ٹریننگ دی جانی چاہیے،کلسٹر سکول سسٹم کا نظام مؤثر بنایا جانا چاہیے،ہر ایک مضمون کا جماعت کی بنیاد پر پورا مواد آن  لائن ہونے کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کی آن لائن ایپلی کیشنز بنوا کر ان پر بھی مہیا کیا جانا چاہیے،دیہی علاقوں میں موجود طلبا  و طالبات کے لیے  آن لائن تعلیم کی تمام تر سہولیات کو مہیا کیا جانا چاہیے، تاکہ وہ بھی وقت  کی دوڑ میں کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کو چاہیے کہ  ماہرین تعلیم کی مشاورت سے جس قدر ممکن ہو سکے، پاکستان میں نظام ِ تعلیم کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے، تاکہ ہم لوگ آنے والے وقت میں اقوام ِ عالم کا مثبت مقابلہ کر نے کے اہل ہو جائیں، کیونکہ تعلیم کا حصول پائیدار ترقی کا ضامن ہے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply