مسائل کا حل سوچنا چاہیے۔۔رابعہ احسن

کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک لڑکی جاب کے سلسلے میں کاؤنسلنگ لیتے ہوئے مجھے کہتی ہے کہ ٹیکس ایبل انکم سے تو میرے گورنمنٹ والے بینیفٹس کم ہوجائیں گے۔ اور پھر مجھے ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا۔ میرے ذہن میں بہت پرانا فارمولا کلک کیا کہ ہمیشہ اپنے وسائل کو بڑھانے کا سوچنا چاہیے، نہ  کہ ایسے بینیفٹس لئے جائیں جس کیلئے ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے۔ گورنمنٹ کب تک ایسی سہولیات دیتی ہے اور پھر اگر کسی میں یہ قابلیت ہے کہ وہ اپنے وسائل اور آمدنی کو بڑھا سکے تو گورنمنٹ کے بینیفٹس کی امید لگانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اگر ہم گورنمنٹ پر سے اپنا بوجھ کم کر دیں گے تو یہی سہولیات کسی ضرورتمند کے کام آسکیں گی۔ لیکن ہم کبھی اس پیرائے پر سوچتے ہی نہیں ۔

ہمیں ساری سہولیات صرف اپنے تصرف میں چاہئیں ۔ یہ سائیکل بہت پیچیدہ ہے اسے نہ کوئی سمجھتا ہے اور نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ ہمارا عمومی رویہ ہے جہاں زیادہ فائدہ ملے اور جہاں زیادہ سے زیادہ وہ سہولیات ہوں جن کیلئے ہمیں کچھ بھی نہ کرنا پڑے ،وہی کام بہترین  ہے۔ جیسے فلاحی ریاستوں میں لوگ اس چیز کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ لوگ اپنی انکم کم دکھا کر ٹیکس سے بچ جاتے ہیں اور یوں  ہر طرح سے فلاحی بینفٹس اور سہولیات ان کو بآسانی میسر ہوتی ہیں۔

اور جو بیچارے انکم چھپا نہیں سکتے تو پھر وہ ہر طرح سے پِس رہے ہوتے ہیں ۔ مولانا طارق جمیل نے ایک لیکچر میں لوگوں کو یہ مسئلہ سمجھانے کی کوشش بھی کی ۔ مگر ہم اخلاقیات اورمذہب بھی صرف اتنا اپناتے ہیں جتنا بس ہمیں چاہیے ہوتا ہے، باقی سب پسِ پشت ڈال دیتے ہیں ۔

بات نکلی تو دوسرے پیرائے میں ہی چل پڑی۔ حالانکہ آج کا موضوع مسائل کا حل تھا۔ ہر روز ہمارے سامنے مسائل کا انبار کھڑا ہوتاہے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے ۔ آج کل خصوصاً جو صورتحال ہے ہر کوئی گھر پہ ہے۔ بیماری کا خوف الگ اور مالی وسائل کی تنگی کا خوف الگ۔ جو کام کررہے ہیں اس کام کے ساتھ اس کام سے متعلقہ لوگوں کے مسائل کو بھی سننا پڑتا ہے اور انسانی ہمدردی اور جاب کا تقاضا  پورا کرتے ہوئے ایک دوسرے سے انتہائی ہمدردانہ اور مثبت گفتگو کرنی پڑتی ہے اور کرنی  چاہیے بھی، کیونکہ یہ وقت ہی ایسا ہے ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا اور ساتھ لیکر  چلنے کا، بس پانچ فٹ کے فاصلے سے۔۔

ایسے میں بھی بہت سے لوگ اپنی ازلی منفیت پھیلارہے ہوتے ہیں ۔ ایک دوست سے   کافی دن بعد  بات کی ۔ پتہ چلا کہ اسے ڈپریشن ہورہا ہے، وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ چونکہ اس کے شوہر میڈیکل فیلڈ میں کام کرتے ہیں، ہسپتال میں ہوتے ہیں ،تو اس کی ساری  جاننے والی فیملیز کی خواتین اسے فون کرکے ہمدردی جتارہی ہیں اور یہ بھی باور کروا رہی ہیں کہ تمہارا شوہر تو ہائی رسک ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا ہے تو تمہارے پورے خاندان کو کرونا کا بہت خطرہ ہے۔ وہ شوہر کو اب ہسپتال میں کام کرنے سے تو روک نہیں سکتی مگر خود پریشان رہ رہ کے ڈپریشن کا شکارہورہی ہے ۔
اسے بہت ساری تسلیاں دیں ۔کتنے ہی مثبت پہلوؤں پر بات ہوئی تو اس کی طبیعت تھوڑی بہتر ہوئی۔

ادھر یہ عالم کہ جس کمپنی کے  ساتھ میں خود کام کرتی ہوں دوہفتے سے اتنی کینسلیشنز آرہی ہیں کہ کام کرتے ہوئے میری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے یہ سوچ سوچ کر  کہ آخر کمپنی کا بنے گا کیا۔ ہر طرف خوف اور پریشانی ہے ،ایسے میں کوفت اور بیزاری بھی انتہا کو پہنچنے لگتی ہے۔

اس ساری صورتحال سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے ،ہمیں اس وقت اس چیز پہ سوچنا چاہیے۔ سارا وقت سوشل میڈیا پہ کھانوں کی تصویریں دیکھ کے دل بہت چاہتا ہے کہ یہ ساری ڈشز بنائی جائیں پر کبھی وقت نہیں ملتا اور کبھی بیزاری آڑے آجاتی ۔
کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ واک یا ایکسر سائز ہوسکے تاکہ جسم چست رہے اور فریش بھی۔ بچوں کو ساتھ لیکر نماز پڑھی جائے، ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مسائل ڈسکس کیے جائیں ۔ ہم لوگ لانگ ڈرائیو پر تھے کہ بچوں کے فیورٹ عالم کا لیکچر فیس بک پر لائیو ہوا ،تو بچوں نے بڑے شوق سے نہ صرف سنا بلکہ سوالات بھی کیے اور انھیں اپنے سوالوں کے جواب بھی ملے۔ ٹاپک بھی جانوروں سے ہمدردی کا تھا، ہمارے عالم اس ٹاپک پر بہت کم بولتے ہیں لیکن بچوں کو چونکہ جانوروں سے پیار ہوتاہے سو ان کی دلچسپی  بڑھ گئی ۔

مذہبی مسائل میں ہم ہمیشہ قیامت کے ہونے کے حوالے سے اور جنت میں جانے کے پیشِ نظر سب کچھ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ عام انسان کے پاس نیکی صرف مذہب کا حصہ ہے ۔ نیکی فطرت میں شامل نظر نہیں آتی ۔ جہاں پر پرندے کے انڈے واپس کرنے کیلئے نبی صلی اللہ وسلم نے اپنے صحابی سے کہا تو یہ کہا کہ پرندے کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی آپ انڈے پرندے کو واپس کیجیے، جو آپ نے چرائے ہیں ۔ وہاں یہ بیان نہیں تھا کہ قیامت کو پرندہ اپنے انڈوں کا حساب لینے آئے گا۔ جب کہ ہمیں مذہب محض قیامت کے پیرائے میں پڑھایا جاتاہے ۔ اور زندگی اور زندہ انسانوں کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دلائی جاتی کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ۔

مذہب زندگی گزارنے کیلئےلائحہ حیات ہے ۔ قیامت سے پہلے کی زندگی ۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اپنی دوڑ میں بھاگے جارہا ہے ۔ مسائل وہیں کھڑےہیں ۔ دورہ قرآن شروع ہوچکے ہیں بہت ساری جگہوں پر آن لائن ۔ جو لوگ بھی فری ہیں اپنے مسلک کے حوالے سے جوائن کیجیے ۔ بچے بھی آج کل گھر ہیں اونچی آواز میں لگاکے گھر کے باقی کام کیے جاسکتے ہیں ۔ سیکھنے کاموقع بھی ملے گا بہت کچھ ۔ ڈپریشن اور بیزاریت میں سکون بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سو ان دنوں میں خود کو مثبت رکھنا اور مثبت ایکٹیویٹیز کرنا بہت ضروری ہے۔ دوسروں کیلئے سکون اور امن و آشتی کا باعث بنیے جن لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے جیسے بھی آپ کرسکیں ضرور کیجیے ۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply