برنس روڈ کراچی کی کہانی۔۔انور اقبال

برنس روڈ کی تعمیر غالباً   1860 سے 1870 کے لگ بھگ ہوئی۔ اس روڈ کا نام ڈاکٹر جیمس برنس کے نام پر “برنس روڈ” رکھا گیا تھا۔

ڈاکٹر جیمس برنس 1821 میں ہندوستان تشریف لائے۔ بنیادی طور پر آپ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس روڈ کا نام تبدیل کر کے “شاہراہ لیاقت” کر دیا گیا۔ اُس وقت سے اب تک سرکاری کاغذات میں اسے شاہراہ لیاقت ہی لکھا جا رہا ہے لیکن عام بول چال میں لوگ اسے برنس روڈ کے نام سے ہی جانتے ہیں، عموماََ شہر کے رہائشیوں، پبلک بسوں کے ڈرائیورز، کنڈیکٹرز سے لے کر آٹو رکشا والوں اور دکانداروں تک سب ہی اسے “برنس روڈ” کہہ کر  پکارتے   ہیں۔

یہ شاہراہ “اوورسیز چیمبر آف کامرس” کی عمارت سے شروع ہو کر “ایمپریس مارکیٹ” پر ختم ہوتی ہے اور اس کی فوڈ  سٹریٹ آرام باغ کے قریب واقع بھاشانی مٹھائی والے سے شروع ہو کر گورنمنٹ وومن کالج پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس درمیانی علاقے میں آپ کو کبابوں کی مختلف اقسام سے لے کر نہاری، بریانی، حلیم، مچھلی، مٹھائی، لسّی، آئسکریم، ربڑی، چھولے، خشک میوہ جات، چائے، پراٹھے، رول، سموسے، جلیبی وغیرہ کی چھوٹی بڑی سجی سجائی بیسیوں دکانیں اور ریسٹورانٹس نظر آئیں گے۔

حال ہی میں شہری انتظامیہ کی طرف سے اس فوڈ سٹریٹ پر شام سات بجے سے ہر قسم کی گاڑیوں کا داخلہ بند کرنے اور اسے صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں گزشتہ ماہ کے ابتدائی دنوں میں ڈپٹی کمشنر جنوبی کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق شاہراہِ لیاقت کو فریسکو سے کورٹ روڈ تک شام سات بجے کے بعد بلاک کر دیا جائے گا اور آرام باغ سے فریسکو آنے والی ٹریفک کو ایم اے جناح روڈ پر موڑ دیا جائے گا جبکہ فریسکو سے فاطمہ جناح وومن کالج تک کا راستہ پیدل چلنے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر رہائش پذیر مقامی لوگوں کے لیے خصوصی  سٹیکرز کا بھی اجراء کیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی گاڑیاں سہولت سے پارک کر سکیں اور تفریح کی غرض سے فوڈ  سٹریٹ آنے والوں کے لیے “ویلے پارکنگ” کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لیے راستہ بھی رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ سڑک کے دونوں اطراف مارکنگ بھی کی گئی ہے تا کہ ریسٹورانٹس و دکان مالکان حد بندی سے آگے کرسیاں اور ٹھیلے نہ لگا سکیں۔ یہ تمام تر انتظامات روزانہ شام سات بجے کے فوراً بعد کر دیے جائیں گے۔

فوڈ  سٹریٹ پر واقع دونوں اطراف کی عمارتوں پر گہرے رنگ و روغن سے عمارتوں کے مٹتے ہوئے نقوش کو بھی ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس طرح کے رنگ و روغن کو صوبائی محکمہ ثقافت نے “سندھ ورثہ بحالی ایکٹ 1994” کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، چنانچہ یہ کام اب روک دیا گیا ہے اور ان عمارتوں پر کیے گئے رنگ و روغن کو صاف کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
سندھ ورثہ بحالی ایکٹ 1994 کی حرمت اور تعظیم اپنی جگہ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم من حیث الہجوم ہر معاملے میں کنفیوژن کا شکار کیوں رہتے ہیں۔۔۔؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ شہری حکومت اور سندھ ورثہ کا محکمہ مل کر کوئی ایسا مثبت فیصلہ کر لیتا کہ یہ تاریخی عمارتیں صاف ستھری ہو جائیں۔ کیونکہ ان عمارتوں پر عرصہ دراز سے دھول کی انگنت تہیں جم چکی ہیں، اربابِ اختیار کے پاس کوئی تو ایسی ٹیکنالوجی یا طریقہ کار ہونا چاہیے جن سے ان عمارتوں پر جمی ہوئی دہائیوں کی گرد اور کائی صاف ہو سکے۔ بہرحال عمارتیں نئی ہوں یا پرانی ان کو صاف ستھرا تو ہونا چاہیے۔

کل شب ہم اپنے کاروباری دوستوں کے ساتھ برنس روڈ پر اپنی مرغوب غذا ‘دھاگہ کباب’ اور ‘نہاری’ کھانے کے لیے گئے تو وہاں کی نئی چکاچوند دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کاروباری مصروفیات کی بنا پر میں تقریباً تین، چار ماہ بعد برنس روڈ گیا تھا اور میرے لیے برنس روڈ کا یہ جگمگاتا، پُرسکون نیا روپ انتہائی مسحور کُن تھا۔ ارد گرد لوگ اپنے اپنے کھانے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے، کئی لوگ پیدل چلتے ہوئے مختلف دکانوں میں سجی سجائی ڈشز کو خرید کر کھا رہے تھے۔ میں نے اس چیز کا بھی مشاہدہ کیا کہ گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہونے کی وجہ سے بھی علاقے کی رونق میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وہاں اطراف میں چھوٹے بچے اور بڑے بوڑھے لوگ بغیر کسی خوف کے چہل پہل میں مصروف تھے کیونکہ ان کو اب اس دوران کسی بھی قسم کے ٹریفک حادثے کی اذیت کا بھی سامنا نہیں تھا۔ ٹریفک کو ایک جگہ لگام دے کر شہری انتظامیہ نے یہ اہم کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ برنس روڈ کے داخلی دروازوں پر کھڑی ہوئی سجاوٹ سے بھرپور تین، چار بگھیاں آنے جانے والوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں، کچھ لوگ خوشی خوشی ان میں بیٹھ کر علاقے کی سیر بھی کر رہے تھے۔

گزشتہ شب ہم نے اُن پرانے دنوں کو بھی یاد کیا جب ہم بہت چھوٹے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ برنس روڈ پر واقع “پاک آئسکریم” کی دکان پر نہایت ذوق وشوق سے آئسکریم کھانے جاتے تھے اور پھر جب تھوڑے بڑے ہو کر کالج میں داخل ہوئے تو اکثر دوپہر کے اوقات میں اپنے دوستوں کے ساتھ یہیں برنس روڈ پر واقع “پنجاب لسّی ہاؤس” آتے تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ برنس روڈ کی یہ دونوں پرانی دکانیں ابھی تک یہاں موجود ہیں اور لوگ جوق درجوق ان کے منفرد ذائقوں سے آج بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ رونقیں صدا برقرار رہیں۔ اس علاقے میں ایک وہ پُرآشوب دور بھی گزر چکا ہے جب یہاں کے رہائشیوں کو نقل مکانی کرنی پڑی تھی اور وہ ہمیشہ کے لیے ہجرت کر کے ہندوستان چلے گئے تھے۔ دراصل تقسیم ہند سے پہلے اس علاقے میں ہندوؤں کی واضح اکثریت تھی لیکن قیامِ پاکستان کے بعد ہندوؤں کی آبادی یہاں سے نقل مکانی کر کے بھارت منتقل ہو گئی۔ آبادی کا یہ انخلا کسی منصوبہ بندی کے تحت یا خوشی خوشی نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے وہ خوف تھا جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے اپنی زندگیوں کو محفوظ بنانے کی خاطر بھارت کا رخ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے راتوں رات شہر کا پُرامن نقشہ تبدیل کر دیا تھا۔ تقسیم کے نتیجے میں اس علاقے میں آنے والے نئے آبادکاروں کا تعلق بنیادی طور پر دہلی، بمبئی اور گجرات کے علاقوں سے تھا۔

فسادات کے دنوں میں بانی پاکستان نے بھی اس جگہ کا دورہ کیا تھا۔ کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ ‘جناح’ کی آنکھوں میں صرف دو ہی دفعہ آنسو دیکھے گئے۔ پہلی بار اُس وقت جب ‘رتّی جناح’ کا انتقال ہوا اور پھر دوسری بار اُن کی آنکھوں میں آنسو اُس وقت دیکھے گئے جب تقسیم ہند کے بعد کراچی میں فساد برپا ہوئے تھے۔ فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے جس میں ‘برنس روڈ’ کا علاقہ بھی شامل تھا جناح کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کراچی کے شہریوں کے لیے برنس روڈ کا علاقہ اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے جمہوریت کی خاطر آمر جنرل ایوب خان کو للکارا تھا۔
سن 1965 میں فوجی آمر جنرل ایوب خان نے اپنے بنائے ہوئے صدارتی طرزِ حکومت کے آئین کے تحت انتخابات کرائے تھے۔ ان انتخابات میں اُن کا مقابلہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ برنس روڈ کے رہائشی سیاسی طور پر بالغ النظر تھے، اسی لیے انہوں نے سن 1965 کے عام انتخابات میں آمر جنرل ایوب کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی کُھل کر حمایت کی تھی۔ اُس زمانے میں برنس روڈ کا پورا علاقہ محترمہ فاطمہ جناح کا حمایت یافتہ ہو گیا تھا یہی وجہ تھی کہ علاقہ مکینوں نے ہر طرف لالٹینیں ٹانگ دی تھیں اور غروب آفتاب کے بعد ان لالٹینوں کی روشنی سے علاقے کی شان بڑھ گئی تھی۔ یہ روشن لالٹینیں اس بات کا بھی ثبوت تھیں کہ علاقہ مکین محترمہ فاطمہ جناح اور ان کے انتخابی نشان سے دلی وابستگی رکھتے تھے۔ صد افسوس کہ ایک منظم دھاندلی کے ذریعے جنرل ایوب خان ان انتخابات میں کامیاب قرار پائے۔ اس الیکشن کے بعد 1970 میں ہونے والے انتخابات میں برنس روڈ کے حلقے سے جمعیت  علمائے پاکستان کے رہنما شاہ احمد نورانی جیتے تھے۔ ان کی پارٹی کا ہیڈ آفس بھی اسی علاقے میں واقع تھا۔ ان انتخابات کے بعد 1977 میں ہونے والے انتخابات بہت ہی معرکتہ لآرا تھے۔ اس میں برنس روڈ کے حلقے سے پاکستان قومی اتحاد کے پرچم تلے ریٹائرڈ ائرمارشل اصغر خان کھڑے ہوئے تھے۔ جب آپ کراچی تشریف لائے تو ایک عظیم الشان جلوس کی صورت میں آپ کو ائیرپورٹ سے برنس روڈ تک لایا گیا تھا۔ اس جلوس میں لوگوں کا ایک جمّ غفیر تھا۔۔۔ تقریباً اٹھارہ گھنٹوں میں اصغر صاحب ائیرپورٹ سے برنس روڈ کے فریسکو چوک پہنچے تھے۔ سن 1977 کے انتخابات میں اصغر صاحب کراچی کے برنس روڈ کے علاوہ اپنے آبائی حلقے ایبٹ آباد سے بھی الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے۔ حیرت انگیز طور پر آپ کو اپنے آبائی حلقے ایبٹ آباد سے تو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن برنس روڈ سے آپ کو بھاری فتح نصیب ہوئی تھی۔ یہاں میں یہ بات بھی اپنے پڑھنے والوں کو بتانا چاہوں گا کہ مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ پاکستان کے ایک سابق صدر جناب ممنون حسین بھی برنس روڈ کے رہائشی تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply