اغواء شدگان” بلاگر حضرات، افوہیں، الزامات، خدشات اور ہم

اغواء شدگان” بلاگر حضرات”، افوہیں، الزامات، خدشات اور ہم
مفتی امجد عباس
بہت سے فیس بُک استعمال کرنے والوں کی طرح میں بھی اغواء ہونے والے بلاگر حضرات سے نہیں ملا، نہ اُن کے خیالات سے کچھ آشنائی ہے، ہاں سلمان حیدر سے ایک بین المسالک و مذاہب ہم آہنگی کے پروگرام میں دعا سلام ہوئی لیکن کُھل کے بات چیت نہ ہو سکی۔ ایک بار اُنھوں نے مجھے کال کی، وہ انتہاء پسندی کے خلاف ایک سٹیج ڈرامے کا انعقاد کرنا چاہ رہے تھے، میں اُس سلسلے میں اُن کی کوئی مدد نہ کر سکا۔ ایک عرصہ بیتا، چند روز قبل سلمان کے اغواء ہونے کی خبر فیس بُک پر گردش کرتی نظر آئی۔ چہرہ شناسا لگا، توجہ سے اُس کی آئی-ڈی دیکھی، وہ میرے حلقہءِ یاراں میں موجود تھا، لیکن میں اُس کی کوئی پوسٹ کبھی نہ پڑھ پایا، شاید ہم دونوں کی دلچسپی کے موضوعات الگ تھے۔ سُنا ہے وہ انسانی حقوق اور “یکولر ازم”کا پرچارک تھا اور میں “مذہبی”حلقے میں شمار ہوتا ہوں۔
چند روز سے اغواء شدگان کے متعلق بہت سی باتیں کہی جارہی ہیں، کسی بات کی بھی تصدیق یا تردید ہر دو مشکل کام ہے۔ جہاں سلمان حیدر اور دیگر سوشل میڈیا بلاگروں کو انسانی حقوق کی کوششیں کرنے والے اور “سیکولر”گردانا جارہا ہے وہیں اُنھیں “بھینسا”ور “موچی”,”روشنی”جیسے مذہب مخالف صفحات کا ایڈمن شمار کیا جارہا ہے۔ افسوس ہی کر سکتا ہوں کہ یہ صفحات میں کبھی نہیں دیکھ پایا تھا۔ آج بھینسا نامی صفحہ دیکھا، لکھا تھا کہ اب اِسے ایلیٹ سائبر فورس نے سنبھال رکھا ہے، اب اِس پر دین کی تبلیغ کی جائے گی۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ “بھینسا” اب مذہبی انتہاء پسندی کا بھی اظہار کررہا ہے، اگر اغواء کرنے والے عناصر اِس سوچ کے حامل ہیں تو یہ بات انتہائی خطرناک ہے۔ مذہب پرستی کو بالجبر ٹھونسنا بھی غلط ہے اور انتہاء پسندی شمار ہوگا۔ “بھینسا”کے موجودہ ایڈمن حضرات کا کھوج لگا کے اغواء کرنے والوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، اِس پہلو پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
مذہب پرستوں نے حالیہ اغواء کی کاروائیوں پر بھرپور خوشی کا اظہار کیا، اُن کا کہنا تھا کہ اغواء شدگان مذہب مخالف اور مُلکی مفادات کے منافی صفحات کے ایڈمن تھے۔ اِنھیں حساس اداروں نے سائبر ایکٹ کے تحت اُٹھایا ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ابھی تک کوئی ادارہ یا گروہ، اغواء شدگان کو اُٹھانے کی ذمہ داری قبول نہیں کررہا، نہ ہی اُن کے”جرائم”کی کوئی فہرست سامنے آئی ہے اور نہ ہی اُن کا کوئی اعترافی بیان موجود ہے جس کی رُو سے ایسے صفحات کی ذمہ داری اُن پر ڈالی جائے۔ ایسے میں مذہب پرستوں کا اِن افراد کے اغواء کیے جانے پر خوشی منانا انتہائی غلط عمل ہے اور اغواء کا الزام ریاستی اداروں کے سر تھوپنا بھی زیادتی ہے، اِسی طرح غلط صفحات کی اغواء شدگان پر ذمہ داری بھی نادرست رویہ ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مذہبی دہشت گرد گروہ، انسانیت سوز جرائم انجام دے کے، بخوشی اُن کی ذمہ داری قبول کر لیا کرتے ہیں تو مذہب پرست حضرات کا کہنا ہوتا ہے کہ اِس دعویٰ کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ القاعدہ نے فخریہ انداز میں نائین الیون کی ذمہ داری قبول کی، لیکن ہمارے مذہب پرست اِسے ایک لحظہ کے لیے بھی ماننے سے انکاری ہیں، لیکن مخالفین کے کھاتے میں بلا دلیل سب کچھ ڈال کے یہ حضرات خوش ہیں۔ اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ روائتی مذہب پرست شدید احساسِ کمتری اور اخلاقی ابتری کا شکار ہیں۔ اِن کی نظر میں اَسی ہزار بے گناہوں کا قتل اور چند غیر اخلاقی جملے دونوں برابر ہیں، اِن کی نظر میں قتل کرنے والا اور قاتل کو گالی دینے والا دونوں برابر کے مُجرم ہیں۔ اِن اغواء شدہ بلاگروں پر ابھی تک سوائے سوشل میڈیا پر زبانی بکواس کے اور کوئی الزام نہیں لیکن مذہب پرست جن کے حامی ہیں اُن کے کھاتے میں اَسی ہزار بے گناہوں کا قتل ہے۔
ہمارے سبھی مسائل کا حل عدل اور قانون کے یکساں نفاذ میں مضمر ہے۔ ماورائے قانون کسی کے خلاف کوئی کاروائی ہرگز درست نہیں، جیسے حکومت کو قانون شکنی نہیں کرنی چاہیے اِسی طرح کسی ریاستی ادارے کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون شکنی کرے۔ مذہب پرست ہوں، قوم پرست یا دیگر “مجرم” اُنھیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن یہ سب طے شدہ قانونی طریقہ کے مطابق ہونا چاہیے۔ آئین و قانون شکنوں پر باقاعدہ مقدمے درج کرکے اُنھیں عدالت سے سزا دلوانی چاہیے۔ سوشل میڈیا کو ضابطے میں لانا ہے تو مذہبی شدت پسند عناصر کے خلاف بھی کارروائیاں ہونی چاہیں اور سر عام مقدمات چلا کے سزا دلوائی جائے۔ کہا جارہا ہے کہ بعض ادارے “حُب الوطنی”کے جذبے کے سوشل میڈیا پر قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر ایسی کارروائیاں از خود کرتے ہیں کہ حکومت ایسے “جرائم”کی سزا نہیں دے پاتی۔ عرض ہے حُب الوطنی اور قومی مفادات کا تحفظ کسی ایک ریاستی ادارے کی انفرادی ذمہ داری نہیں ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اِس حوالے سے مناسب قانون سازی کرکے، قانون پر عمل کروائے۔ اب جبکہ سائبر ایکٹ موجود ہے ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ اِس کا باقاعدہ نفاذ کیا جائے، یہ الگ بات کہ موجودہ سائبر ایکٹ متوازن نہیں، اِس کی اصلاح ضروری ہے۔ آخر میں کہوں گا کہ بطور انسان ہماری ذمہ داری ہے کہ دنیا کو پُرامن بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ بطورِ مُسلمان ہمارا فریضہ ہے کہ اسلامی اخلاقی تعلیمات کا پاس رکھیں، کسی کو بُرا بھلا کہنے، دل آزاری کرنے، گالی دینے اور بلا ثبوت الزام دینے سے اجتناب کریں۔ بطورِ پاکستانی شہری ہماری ذمہ داری ہے کہ مُلکی وقار، مُلکی آئین و قانون کا بھرپور لحاظ کریں۔ کسی کو بُرا بھلا کہنے، انتہاء پسندی پھیلانے اور قانون کو ہاتھ میں لینے جیسے اقدامات سے بچیں۔
مُلکی وقار کا تحفظ اور آئین و قانون پر عمل کرنا ریاست کے سبھی شہریوں، اداروں اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مُلک کے دیگر علاقوں کی طرح، پُراسرار طریقے سے وفاقی دار الحکومت سے بھی لوگوں کا اغواء کیا جانا موجودہ حکومت کی ناکامی کا واضح ترین ثبوت ہے۔ حکومتِ وقت کو اِس مسئلے کو سنجیدہ لینا ہوگا۔ اغواء شدگان کو بازیاب کروایا جائے، ابھی تک یہ بھی طے نہیں کہ کِس نے اور کیونکر اغواء کیا، ایسے میں کسی ریاستی ادارے پر اِن کی ذمہ داری ڈالنا مناسب رویہ نہ ہوگا۔ الزامات، افواہیں اور خدشات تب مٹیں گے جب مغوی حضرات کو بازیاب کروالیا جائے گا۔ یہ حکومتِ وقت کا کڑا امتحان ہے کہ وہ وفاقی دار الحکومت میں بھی انجام پانے والی ایسی خلافِ قانون کارروائیوں سے کیسے نمٹتی ہے۔

Facebook Comments

امجد عباس، مفتی
اسلامک ریسرچ سکالر۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply