نیشنل ایکشن پلان او ر ادارے

اس مسئلے میں پڑے بغیر کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر، کون قادیانی ہے اور کون احمدی، کون رافضی ہے اور کون خارجی، کون توحیدی ہے اور کون محمدی، کون اقلیت میں ہے اور کون اکثریت میں، کون شیعہ ہے اور کون سنی، کون بریلوی مسلک کا ہے اور کون دیوبندی مسلک کا ،کون سا فرقہ اہل سنت والجماعت ہے اور کون سا شیطان کے طریقے پر چل رہا ہے،کس کی طریقت صحیح ہے اور کس کی پیری فقیری قابلِ مذمت، کون جدت پسند، اصول پسند اور مثبت سوچ کا حامل ہے اور کون لبرل خیالات کا عکاس ہے، کون نظامِ کائنات کو چلانے کے لیے ایک ذات پر یقین رکھتا ہے اور کون دہریہ یا زندیق ہے، کون سی جماعت کالعدم ہے اور کون سی جماعت غیر کالعدم، راجہ بازار میں معصوموں کو تیل چھڑک کر زندہ کس نے جلایا اور سانحہ رادھا کشن کا ذمہ دار کون ہے؟ سانحہ بلدیہ کراچی کا ماسٹر مائنڈ کون ہے اور اے پی ایس جیسے اندوہناک واقعے کے پیچھے کون ہے؟ کس سیاسی جماعت میں دہشت گردی کے بت ہیں اور کس اسلامی و مذہبی جماعت میں انتہا پسندی کے مذموم عناصرچھپے بیٹھے ہیں! ان تمام سوالوں میں ایک بات تو طے ہے کہ ہر مذہب، دھرم، مسلک، رواج، روایت، تہذیب اور طور طریقے میں انسانیت کی جان ہر اک شے سے بالا ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ تعظیم اور قابلِ تحریم ہے۔ تورات، زبور، انجیل، مختلف آسمانی صحائف اور پھر قرآن پاک سب میں انسانیت سے محبت، شفقت اور عفو و درگزر کا درس دیا گیا ہے، لہٰذا نیشنل ایکشن پلان ہر فرد کا انفرادی اور اجتماعی طور پر مثبت کردار کا نام ہے۔
نیشنل ایکشن پلان وہ آئینہ ہے جس میں کوئی اپنی شکل دیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ چودھری نثار علی خان نے بھی NAP پر عمل درآمد نہ ہونے کا رونا رویا ہے اور شکوہ کیا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کی کوئی رپورٹ ہو یا کوئی دوسری رپورٹ، مجھ پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ نیشنل ایکشن پلان میں تمام سیاسی قیادت کا کردار ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے نیکٹا کو بھی اپنے سر سے اتار پھینکا ہے اور کہا ہے کہ اس کا اختیار صرف وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس ہے اور اس میں وزارتِ داخلہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ چودھری نثار نے شہرِ اقتدار کے انتظامات کو بہتر بنانے، کراچی آپریشن میں رینجرز اور فوج کا بھرپور ساتھ دینے اور نادرا کے ریکارڈ کی درستی سے لے کر اندرونی سطح پر دہشت گردی اور بھارتی امن کی جھوٹی آشا کی بیخ کنی کرنے تک اپنی وزارت سے انصاف کیا ہے۔ مجموعی طور پر مختلف ادوار میں شرح قتل کے تناسب کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو نیشنل ایکشن پلان، ضربِ عضب، خیبر ون ٹو، نیکٹا، پولیس، رینجرز، آئی ایس آئی، ایف آئی اے اور ایم آئی وغیرہ کے ہوتے ہوئے بھی موجودہ حکومت میں سب سے زیادہ قیمتی جانوں کے ضیاع ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ مسئلہ Collective wisdom کا ہے جو کہ بدقسمتی سے ناپید ہے۔ ہر پارٹی میں دھڑے بندیاں ہیں، پیپلزپارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف وغیرہ میں بھی ہیں لیکن مسلم لیگ ن میں دھڑا بندی سوچ سے بالاتر ہے کہ ملک کو چلانے والی پارٹی بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ عدلیہ نے بھی ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں اور اب رہی سہی کسر آصف علی زرداری، ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کیس میں مفاہمت کی صورت میں نکال دیں گے۔ اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تقریبًا ہر سیاسی اور فوجی حکومت نے کالعدم تنظیموں Banned outfits کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور کبھی ان کی اصلاح احوال کا نہیں سوچا۔ جیسے کہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ایک خاص جماعت پر میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے کالعدم پارٹی ہونے کے الزامات کو سختی سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سیاسی سرگرمیاں اور عوامی جلسے سب کا بنیادی حق ہے۔
وزارتِ مذہبی امور پاکستان کا ایک سرکاری ادارہ ہے۔ اس کے کام کی انجام دِہی کے لیے وفاقی وزیر، وزیر مملکت، وفاقی سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور ڈائریکٹرز سمیت کل 68 افرادکی فوج ظفر موج تعینات ہے۔ ایڈمن ونگ، دعوۃ و زیارت ونگ، حج ونگ، ریسرچ اور ریفرنس ونگ کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹوریٹ آفس اور دو خود مختار ادارے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور اویکیوئی ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ بھی اس کا حسن ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور رؤیتِ ہلال کمیٹی بھی وزارتِ مذہبی امور کے گلدستے میں شامل ہے اور بدقسمتی سے ان پھولوں کی خوشبو اب مانند پڑ رہی ہے۔ وزارت کی ویب سائٹ اور اس کی جاری سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو یہ وزارت، وزارتِ حج لگتی ہے۔ وزارت میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کوئی کمپلینٹ مانیٹرنگ سسٹم نہیں ہے۔ وزارتِ مذہبی امور دینی معاملات کا ذمہ دار ہونے کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی کی بھی نگہبان ہے۔ وزارتِ مذہبی امور کے سردار محمد یوسف کے نزدیک زیارت، حج و عمرہ کی ادائیگی، اذان کے اوقات مقرر کرنا اور سال میں ایک آدھ بار کچھ معتدل لوگوں کو بلاکر سیمینار یا کانفرنس کرا دینا ہی اس وزارت کا کام ہے تو یہ سراسر زیادتی ہے۔ 196691969ء سے اس قدر ضخیم وزارت مذہبی امور اگر صدقِ دل سے کوشش کرتی تو شاید یہ پاکستان آج امن کا گہوارہ ہوتا۔ بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے جس پر عمل درآمد کے لیے ہر قسم کے خوف، تعصب کی عینک اور اندونی و بیرونی دباؤ کو پس پشت ڈال کر ہی قانون کا سر فخر سے بلند ہوسکتا ہے۔ ووٹوں اور حلقہ جاتی سیاست سے ہٹ ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے بننے والے ادارے نیشنل ایکشن پلان، نیشنل کائونٹر ٹیرارزم اتھارٹی اور وزارتِ مذہبی امور بشمول مدرسہ بورڈ، چاروں مسالک کے مدارس کے بورڈز اور قادیانیوں کے مبلغین سمیت ہر ادارے کو فعال بنانے اور ملک سے فتنہ فساد اور دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو نرمی یا سختی سے نمٹنا ہوگا۔
اگر ملک میں عدالتی نظام فعال کردیا جائے اور تمام ادارے عدلیہ کے ماتحت اور جواب دہ ہو کر کام شروع کر دیں تو وہ دن دور نہیں کہ نہ کوئی حملہ آور پیدا ہو گا، نہ دہشت گردی ہوگی، نہ ہی کوئی انتہا پسندی کی تعلیم دے گا اور نہ کوئی نفرت اور دشمنی کا بیج بو سکے گا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply