دین ہمارا اوڑھنا بچھونا ہونا چاہیے تھا۔ ہماری طرز زندگی مثالی اور باقیوں کے لیے نمونہ ہونی چاہیے تھی لیکن ہم نے اس مقدس کتاب کو طاق پر رکھ دیا جو ہماری رہنمائی کرتی،ہمیں زندگی گزارنے کا صحیح ڈھنگ اور طریقہ سکھاتی۔ ہم مذہب اور مذہبی روایات سے کنارہ کش ہو گئے ہیں۔جس پیڑ کی جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں وہ تیز آندھی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ہماری جڑیں کمزور ہو گئی ہیں اس لیے ہمیں کوئی بھی بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیتا ہے۔ہمارا اللہ پہ بھروسہ اور یقین اتنا ناپختہ ہے کہ ہم نے اب اور طریقے اختیار کئے ہیں۔اب ہمارا دستور نرالا ہے اور آئین نیا۔
خدا کو ماننے والے اب پیروں ،فقیروں ، سحر سازوں اور جادوگروں پر ایمان لے آئے ہیں۔ان کی کہی ہوئی ہر بات کو مقدم مانا جاتا ہے۔ ہم ان کی باتیں صرف مان نہیں لیتے بلکہ انہیں گھول کر پی لیتے ہیں۔اب ہمارا یقین تبدیل ہو گیا ہے۔ہمیں بھروسہ تھا کہ دکھ سکھ ،پریشانی ،بیماری سب اللہ کی طرف سے آزمائشیں ہیں لیکن اب یہ تصور بدل گیا ہے۔ پہلے زندگی کا اختیار اللہ تک تھا کہ وہ جب چاہیے بندے کو موت سے نوازے جب چاہیے زندگی دے۔اب یہ پیروں ،جادوگروں اور سحر ساز تک رہ گیا ہے کہ وہ کس کو زندگی دیں ، کس کو موت اور کس کو بیماریوں ، ذہنی الجھنوں ، گھریلو جھگڑوں اور فتنوں میں مبتلا رکھیں۔
ہمارے معاشرے میں جن برائیوں نے سر اٹھا کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کی ہے ان میں جادو کرنا اور دوسروں کے لیے سحر کا جال بچھانا ایک بدنما داغ بنتا جا رہا ہے۔اس برائی میں ہر گھر مبتلا نظر آتا ہے۔لوگ اپنی محنت اور اللہ پر بھروسہ کم ہی کرتے ہیں لیکن سحر کار اور جادوگر کی دی ہوئی جنتر منتر کو سر آنکھوں پہ اس یقین سے لگاتے ہیں کہ مشکل کشائی اسی سے ہوگی۔لوگوں کا کام تو نہیں نکلتا ہاں البتہ سحر کار کا کاروبار زوروں سے چلتا ہے۔اب تو حالات یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ کسی کو نزلہ ،زکام ہوجائے وہ بھی سحرکار کے دوازے پہ ماتھ رگڑنے جاتا ہے۔ سحر کار کے جنتر منتر سے بھلے ہی بیماریاں رفع نہ ہوں ،ہاں لوگوں کے سحر اور جادو پہ یقین اور بھروسے سےاس بیماری کا نام و نشان تک نہیں رہتا جس کی بابت وہاں ماتھا ٹیکنے گئے تھے۔
جادو اور سحرکاری شیطانوں کی عبادت ہے۔جادو گر تب تک جادو نہیں کر سکتا ہے جب تک وہ ان شیطانوں کی عبادت نہ کرے اور ان کی خدمت نہ کر لے۔تب جاکے کہیں وہ اس لائق ہوتا ہے کہ دوسروں کی الجھن کا سبب بن سکے اور وقتی طور پر کسی کا مداوا کر سکے۔یہ ثقیل عادت بن چکی ہے جو عورتوں میں تشویش ناک حد تک زیادہ پائی جاتی ہے۔ویسے بھی دوسروں کی ترقی اور خوشحالی کو دیکھ کر کچھ لوگ جل بھن جاتے ہیں اور سحر کاروں کے پاس چکر لگانا شروع کرتے ہیں۔اپنی قبر کو جہنم نما بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔دوسروں کو تکلیف اور اذیت میں مبتلا رکھ کر جانے کس ذہانت کے لوگ خوش ہوتے ہیں۔ ہمیں تو مذہب لوگوں سے پیار کرنا سکھاتا ہے ۔ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا سبق دیتا ہے۔ہم دوسروں کے لیے پریشانیوں اور مشکلات کا سبب بن کر کیسے سو سکتے ہیں۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک کبوتر کی ویڈیو کی تشہیر بڑے زوروں پر تھی۔کبوتر کے منہ میں تعویز رکھا گیا تھا اور اس کی چونچ دھاگے سے کس کر باندھ دی گئی تھی۔تعویز کا مدعا کسی کی جان لینا تھا۔ہم اتنے بد دماغ ہو گئے ہیں کہ بے زبان پرندے تک کو اپنی حیوانیت سے ایذا دینے سے گریز نہیں کرتے۔ کسی سے انسان اتنی دشمنی اور نفرت کیسے کر سکتا ہے کہ وہ آدمی سے گر کر شیطان بنا کر اس کی جان لینے کی ناجائز تدبیریں کرتا پھرے۔کبھی ہڈیوں پر کلمات لکھ کر زمین میں دفن کیا جاتا ہے تاکہ اس شخص کو دماغی ،جانی ،مالی نقصان ہو جائے تو کبھی بہو گھر والوں سے الگ اور علیحدہ گھر بسانے کے لیے کھانے میں ، چائے میں ،سبزی میں گویا ہر شئے میں دم کیا ہوا پانی یا نمک ڈال کر باقی گھر والوں کو اپنے تحت کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے تاکہ وہ اسے الگ چھوڑ دیں۔
ہم اتنے حیوان صفت ہو گئے ہیں کہ قبر کی مٹی کو بھی گھر لانے اور کمروں میں بچھانے سے گریز نہیں کرتے۔کسی کے ناخن اور بال قبرستان میں دفن اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ پاگل اور دماغی مریض بن جائے۔ یہ کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں بھی اس مٹی میں دفن ہونا ہے اور چھوٹے سے چھوٹے گناہ کا حساب دینا ہے۔خدا کے بعد اگر کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو وہ شوہر ہے۔جس کو مجازی خدا کہا جاتا ہے۔بیوی اپنے اسی مجازی خدا کو اپنے ماں باپ سے دور اور اپنے ماتحت کرنے کے لیے سحر کرتی ہے۔اس پر ٹونے ٹوٹکے آزماتی ہے۔پیار محبت سے رہنے کے بجائے زبردستی کے رشتے میں خوش رہنا چاہتی ہے۔رشتہ کوئی بھی ہو خلوص، محبت، ہمدردی ایک دوسرے سے الفت اور دلی لگاؤ سے مضبوط ہوتا ہے نہ کہ جنتر منتر اور دم درود سے۔اس ذہانت سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔
آج کل ہر شخص مسائل اور الجھنوں کا شکار ہے۔ پریشانی میں مبتلا شخص کو دلاسہ دے کر کوئی یہ بولے کہ تم پریشان ہو وہ یقین کر لیتا ہے کیونکہ وہ واقعی پریشان ہوتا ہے۔ جنتر منتر اور کاروبار کرنے والے کا آدھا کام تو ہوگیا اور اس شخص مذکور کے دل میں بات بیٹھ گئی کہ پیر بابا نے بھی کہہ دیا کہ میں پریشان ہوں۔مجھ پر جادو ٹونا کیا گیا ہے۔ میرے دشمن ہیں۔آج کل ہر کوئی ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔کسی کو صحت کے حوالے سے خدشات ہیں تو کوئی گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے تنگ،کسی کو روزگار کی دقت کا سامنا ہے تو کوئی کسی اور سبب سے پریشان ہے۔
ایسے میں ہم ان پریشانیوں کو رفع کرنے کے لیے چھلانگ لگاتے ہیں اور کسی پیر ،سحر ساز کے در پر کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ ہماری پریشانیوں کا سدباب ہو سکے۔ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہماری پریشانیوں میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔بزرگ اور ٹھگ میں فرق ہے۔اگر ہم کسی بزرگ ولی خدا کے در پر جاتے ہیں تو ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی سنور جاتی ہے ۔ہم کارباری سحرسازوں اور جادو ٹونا کرنے والے کے پاس جاتے ہیں جو ہماری دنیاوی پریشانیوں میں اضافہ اور آخرت کو تباہ و برباد کرنے کا سامان تیار کرتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے عقائد کو درست کریں۔معاشرے میں برق رفتاری سے پھلتی اس برائی کا خاتمہ کریں۔اس برائی کو جڑ سے رفع کرنے کے لیے مذہب اسلام پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ہمارے معاشرے کے علم پرور اور آگاہ لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہیں کہ وہ آگے آکر اپنا کردار نبھائیں تاکہ معاشرہ اس برائی کی دلدل سے نکل سکے۔اگر ہمیں اس پر کامل یقین ہوجائے کہ ہمیں مرنا ہے اور ہر چھوٹے اور بڑے عمل کا حساب دینا ہے تو آدمی وحشی جانور بن کر نہیں بلکہ ایک پاک انسان بن کر زندگی گزار لے گا اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔
Facebook Comments