کشمیر ۔ استصوابِ رائے (28)۔۔وہاراامباکر

جب ہری سنگھ نے الحاق کیا تو اس کو تسلیم کرتے ساتھ ساتھ ہی انڈیا کی لیڈرشپ نے استصوابِ رائے کی بات شروع کر دی۔ اس کا آئیڈیا یہ تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام ووٹ دے کر فیصلہ کریں کہ وہ انڈیا کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ یہ تجویز گورنر جنرل ماوٗنٹ بیٹن اور انڈین وزیرِاعظم نہرو، دونوں کی طرف سے آئی۔ اقوامِ متحدہ میں قرارداد منظور ہوئی جس میں استصوابِ رائے کروانے کا ذکر کیا گیا۔
(اگرچہ شیخ عبداللہ نے خودمختار جموں و کشمیر کی بات کی تھی، لیکن استصوابِ رائے کے آئیڈیا میں ایسی کسی تیسری آپشن کی کوئی تجویز نہیں تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان نے تحریکِ آزادی کے اہم ترین لیڈر جلد ہی کھو دئے۔ محمد علی جناح کا انتقال گیارہ ستمبر 1948 کو ہوا۔ لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ یہ دونوں لیڈر انڈیا سے اچھے تعلقات کے خواہاں بھی تھے، ملک بھر میں ان کا احترام کیا جاتا تھا، عملیت پسند بھی تھے، کشمیر کے مسئلے کا حل بھی چاہتے تھے اور جراتمندانہ اقدام لینے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔ کمسن پاکستان کے لئے یہ بڑا نقصان تھا۔ سیاست کے میدان میں پاکستان میں کوئی اور قدآور شخصیت موجود نہیں رہی جو موثر بھی ہو اور غیرمتنازعہ بھی۔ پاکستانی سیاست بڑی حد تک صوبائیت پرستی میں الجھی رہی اور غیرموثر رہی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان دو بڑے لیڈروں کے چلے جانے کے بعد بڑے فیصلے پاکستان کے اس وقت کے واحد منظم اور اہل ادارے کے پاس آ گئے جو پاکستان آرمی تھی۔ اس نے کئی طرح کے مسائل کو جنم دیا۔ یہاں تک کہ آزادی کے صرف گیارہ سال کے بعد پاکستان میں آرمی نے باقاعدہ طور پر طویل مدت کے لئے اقتدار سنبھال لیا۔
جواہرلال نہرو 27 مئی 1964 کو اپنی وفات تک وزیرِ اعظم رہے۔ کشمیر کے نکتہ نظر سے ان کی وفات ایک برے وقت پر ہوئی۔ نہرو نے بڑی مدت بعد اس معاملے پر جرات دکھائی تھی کہ بامعنی طریقے سے اسے حل کیا جا سکے۔ شیخ عبداللہ کو آزاد کشمیر اور پاکستان کے دورے پر بھیجا گیا تھا۔ نہرو کی وفات کے وقت شیخ عبداللہ پاکستان میں ہی تھے۔ یہ دورہ ادھورا رہ گیا۔ ان کے صرف سولہ ماہ بعد کشمیر کے معاملے پر دوسری پاکستان انڈیا جنگ شروع ہو چکی تھی۔
انڈیا میں بڑی حد تک سیاسی استحکام رہا۔ جس سال انڈیا میں تیسرے وزیرِاعظم نے اقتدار چھوڑا، اسی سال پاکستان میں بہت سے وزرائے اعظم کے آنے جانے کے بعد اور مشرقی حصہ الگ ہو جانے کے بعد تیسری مرتبہ مارشل لاء لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقوامِ متحدہ میں انڈیا کوشش کرتا رہا کہ پاکستان کی مذمت کی جائے کہ اس نے انڈیا کے علاقے پر مسلح جارحیت کر کے عالمی امن کو خطرے میں ڈالا۔ “انڈیا پاکستان کوئسچن” پر قرارداد یکم جنوری 1948 کو پیش کی گئی۔ اس پر 1965 تک مختلف وقتوں میں بات کی جاتی رہی جس کے بعد سے یہ معاملہ اقوامِ متحدہ میں زیرِ بحث نہیں آیا۔ انڈیا کی طرف سے پاکستان کی مذمت کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ اقوامِ متحدہ سیکورٹی کونسل نے “یونائیٹڈ نیشز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان” تشکیل دیا جس نے اکیس اپریل 1948 کو رپورٹ دی کہ “کمیشن کو اطمینان ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ جمہوری طریقے سے آزاد اور غیرجانبدار استصوابِ رائے سے طے کر لیا جائے گا”۔
پاکستان اور انڈیا نے بین الاقوامی قانونی، سفارتی اور پراپیگنڈا کے محاذ پر کوششیں شروع کر دیں۔ یہ سفارتی جنگیں دنیا بھر میں لڑی گئیں۔ کون استصوابِ رائے نہیں کراونا چاہتا (انڈیا)، کون استصوابِ رائے کے لئے طے شدہ اقدامات لینے سے انکاری ہے (پاکستان)۔ کون اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے روگردانی کر رہا ہے (دونوں)۔ دہرے معیار کا طریقہ اس خطے کے معاملات میں عام رہا ہے۔ دوسری کی غلطی کی نشاندہی، اپنے غیرلچکدار موقف کا ہر قیمت پر دفاع ۔۔۔ یہ کشمیر پر ہونے والی الفاظ کی جنگ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ایک دلچسپ سوال ہے کہ کیا استصوابِ رائے ہو جانا کشمیر کے مسئلے کو طے کر دیتا؟ اس کے ساتھ تین بڑے چیلنج تھے۔ پہلا تو یہ کہ تمام سرکاری آفیشل غیرجانبداری سے کام کرتے تا کہ نتائج ہر ایک کے لئے قابلِ اعتبار اور قابلِ قبول ہوتے۔ پاکستان اور انڈیا میں ہونے والی انتخابات کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ آسان نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ انڈیا، پاکستان اور ریاستِ جموں و کشمیر کے شہریوں کو اس بات کو مکمل طور پر قبول کرنا تھا کہ نتیجہ جو بھی ہو، تمام ریاست مکمل طور پر ایک ملک کے ساتھ چلی جائے گی۔ اور دونوں صورتوں میں یہ مشکل ہوتا۔ تیسرا یہ بغیر خون خرابے کے، ان نتائج کا عملی اطلاق کروائے جانا تھا۔ ہارنے والے کی طرف سے مسلح عوامی مزاحمت اور احتجاج کا ہونا بہت زیادہ ممکن تھا۔ جموں کا پاکستان میں آنا یا گلگت کا انڈیا کا حصہ بن جانا مقامی آبادی کے لئے ناقابلِ قبول ہوتا۔ اس کے بعد اس علاقے کے لوگوں کی قومی شناخت کے طور پر یکجائی کے مسائل شروع ہوتے۔
ان میں سے پہلا چیلنج حل ہونا پھر بھی آسان تھا۔ دوسرا اور تیسرا زیادہ بڑے چیلنج تھے کیونکہ آزادی کے بعد یہ بہت جذباتی معاملہ بن گیا تھا۔
یکم جنوری 1949 کو پہلی پاکستان انڈیا جنگ میں جنگ بندی ہوئی۔ جنگ عسکری طور پر بے نتیجہ رہی تھی۔ انڈیا نے ابتدائی مشکلات کے بعد لداخ کے علاقوں میں کچھ برتری حاصل کر لی تھی۔ گلگت بلتستان کے ناردرن سکاوٗٹس نے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر زوجی لا پاس کو حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ستمبر 1948 کو ناردرن سکاوٹس نے جموں کشمیر فوج سے سکردو کا علاقہ حاصل کیا تھا۔ انہیں امید تھی کہ لداخ تک قبضہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن زوجی لا پر اس فورس کی پیشقدمی انڈیا نے روک دی۔ 15 نومبر کو انڈیا نے دراس اور 25 نومبر کو کارگل حاصل کر لیا۔ اس سے سرینگر کارگل لیہہ روڈ انڈیا کے پاس آ گئی۔
جموں کشمیر کے جنوب میں بھی صورتحال بے نتیجہ تھی۔ دونوں اطراف اوڑی کے اہم شہر سے آگے نہیں بڑھ سکی تھیں۔ اس سے جنوب میں پروپاکستان فورسز پونچھ شہر کا محاصرہ کر کے اسے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ جبکہ انڈین فورسز کو پونچھ شہر کے مغرب میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
اگلا اہم مرحلہ جولائی 1949 میں ہونے والا کراچی معاہدہ تھا۔ اس میں پاکستان اور انڈیا کے ملٹری کے نمائندوں نے جنگ بندی کی لائن پر اتفاق کر لیا۔ اس لکیر نے جغرافیائی اور ملٹری طور پر ریاست کی تقسیم کر دی۔ ایک حصہ انڈین انتظامیہ کے تحت آیا، دوسرا پاکستانی انتظامیہ کے۔ انڈیا کے پاس جموں آیا جس میں پونچھ کی جاگیر اور میرپور ضلع شامل نہیں تھے۔ کشمیر کی وادی آئی جس میں مظفر آباد تحصیل نہیں تھی۔ لداخ آیا جس میں سکردو تحصیل نہیں تھی۔ پاکستان میں آزاد جموں و کشمیر آیا (جس میں پونچھ جاگیر، میرپور اور مظفر آباد تھے)۔ شمالی علاقہ جات آئے جس میں گلگت ایجنسی، گلگت لیزڈ ایریا اور سکردو تھے۔ اس وقت طے ہونے والے علاقے آج بھی ویسے ہیں۔ دونوں اطراف میں ملٹری کی بھاری تعداد موجود ہے۔ شملہ معاہدے کے بعد یہ لکیر لائن آف کنٹرول قرار پائی۔ اس میں چند ایک معمولی ردو بدل تھے۔ اس کے نو نقشے تیار کئے گے تھے جس پر پاکستان اور انڈیا کے ملٹری کے نمائندوں نے دستخط کئے تھے۔ اس لائن آف کنٹرول نے ریاست کے دو حصے کر دئے۔
جنگ بندی ہو جانے کے بعد اگلے برسوں میں اس علاقے کے لوگوں کی توقع رہی کہ استصوابِ رائے جلد ہی ہو گا۔ کسی طرح سے یہ جھگڑا نمٹ جائے گا اور زندگی نارمل پر آ جائے گی۔ یہ توقع ٹھیک نہیں تھی۔
سب سے پہلی رکاوٹ تو یہ تھی کہ یہ ریاست برٹش انڈیا کا حصہ نہیں تھی۔ یہاں جمہوری نظام نہیں تھا۔ ووٹنگ فہرستیں نہیں تھیں۔ الیکشن منعقد کروانے کے لئے الیکٹورل نظام تھا ہی نہیں۔ پاکستان اور انڈیا کو اس علاقے سے دور دیگر سنجیدہ مسائل کا سامنا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے نمائندے آتے رہے۔ اس کو منعقد کروانے کی کوششیں کرتے رہے۔ مسائل کو حل کرنے کے لئے دونوں ممالک کے ساتھ بات چیت کرتے رہے۔ کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ برسوں تک کوششوں کے باجود ناکام واپس جاتے رہے۔
اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق پاکستان کو جموں و کشمیر سے اپنی تمام فوج نکالنی تھی۔ ایسے تمام لوگوں کو نکالنے پر مجبور کرنا تھا جن کا تعلق اس ریاست سے نہ ہو۔ اور پھر انڈیا کو اجازت دینا تھی کہ وہ امن و امان کے قیام کے لئے خالی کردہ علاقوں میں اپنی تھوڑی فوج تعینات کرے۔ الحاق کے بعد قانونی طور پر یہ علاقہ عبوری مدت کے لئے انڈیا کا حصہ تھا اس لئے پہلے اسی کے زیرِانتظام جانا تھا۔ ایک بار یہ ہو جانے کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصواب کے لئے بندوبست کرنا تھا۔ پاکستان کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔
اقوامِ متحدہ کمیشن کو ایک اور خدشہ تھا کہ اگر انڈین فوج نے گلگت کا علاقہ سنبھال لیا تو یہاں پر انڈیا کے خلاف جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ مقامی آبادی اس فوج کے خلاف گوریلا کارروائیاں کر سکتی ہے اور علاقے کا امن و امان خطرے میں پڑ جائے گا۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کے کمیشن کو خدشہ تھا کہ “آزاد آرمی” کے پینتیس ہزار لڑاکا جنہوں نے آزاد کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑی تھی، ان کا ردِ عمل کیا رہے گا۔ ایک اور مسئلہ آزاد کشمیر حکومت کی قانونی پوزیشن کا تھا۔ انڈیا کی نظر میں یہ غیرقانونی سیٹ اپ تھا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اس کو پہلے تحلیل کئے جانا تھا۔ آخر میں، پاکستان کا ایک خدشہ یہ تھا کہ اگر انڈیا کی فوج ایک بار پروپاکستان علاقے میں آ کر سیٹل ہو گئی تو پھر کبھی واپس نہیں جائے گی، خواہ ریفرنڈم کا فیصلہ انڈیا کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
دوسری طرف، اگرچہ انڈیا نے خود استصوابِ رائے کی تجویز پیش کی تھی لیکن جلد ہی اس کا ارادہ اس بارے میں بدل گیا۔ دہلی کا خیال تھا کہ استصوابِ رائے میں فیصلہ اس کے حق میں نہیں ہو گا۔ انڈیا واضح طور پر آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں غیرمقبول تھا۔ جموں اور لداخ میں انڈیا کو سپورٹ ملتی۔ اہم اور فیصلہ کن علاقہ وادی کشمیر تھی۔ بارہمولہ میں قبائلی حملہ آوروں نے پاکستان کے خلاف منفی جذبات پیدا کئے تھے لیکن یہ جلد ماند پڑ گئے کیونکہ انڈین آرمی کا رویہ مقامی آبادی کے ساتھ برا تھا۔ (اس کی وجہ مقامی آبادی کی وفاداری پر شک کا ہونا تھا)۔ جولائی 1949 میں انڈین اسمبلی کے ایک ممبر نے سردار پٹیل کو کہا تھا، “یہ پاگل پن ہے جو آپ کشمیر میں کروانے لگے ہیں۔ یہ سوچنا دیوانے کا خواب ہو گا کہ انڈیا استصوابِ رائے جیت سکتا ہے”۔
اگرچہ ہمارے پاس کوئی طریقہ نہیں جس کی بنیاد پر کہہ سکیں کہ پاکستان اور انڈیا کی مقبولیت اصل میں کتنی تھی۔ شیخ عبداللہ وادی کشمیری مسلمانوں میں پاپولر تھے اور ان کے سپورٹرز میں سے ایک تعداد انڈیا کو ووٹ دیتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کشمیری مسلمان استصوابِ رائے میں انڈیا کو ووٹ دیتے۔ لیکن دوسری طرف، اگر یہ منعقد ہو جاتا تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انڈین فورسز کی موجودگی میں ایسے کسی بھی ووٹ کو انڈیا کے حق میں “اثرانداز” کئے جانا کا امکان رہتا۔
لیکن بہرحال، چونکہ یہ منعقد کبھی ہوا ہی نہیں، اس لئے یہ تمام قیاس آرائیاں “گر یوں ہوتا تو کیا ہوتا” سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply