اللہ سے مانگنے کا طريقہ۔۔ کبریٰ پوپل

اللہ انسان کی شہ رگ سے زيادہ اس کے قريب ہے اس کا مطلب انسان کے ساتھ ہميشہ موجود ہے اس کی خوشيوں ميں بھی اور غموں ميں بھی ۔خوشی کے وقت تو ہم شکر کو بھلا کر اور اللہ کو چھوڑ کر اپنی خوشی ميں گم ہو حاتے ہیں  ليکن جب غم ميں مبتلا ہوتے ہيں تب ہم الله کے قریب ہو جاتے ہے  یعنی انسان پر غم،تکليف،رنج اور پريشانيوں کا آنا اللہ کے قرب کی نشانی ہے۔اس وقت ہم اللہ کے سامنے روتے ہیں ، گڑگڑاتے ہیں ، اور دعا ہی کے ذريعے سے اس مشکل سے نکلنا چاہتے ہیں  ۔
ليکن ہم دعا کيسے مانگتے ہيں اور کيسے  مانگنی چاہیے؟

فرمان مصطفی ﷺ ، دعا عبادت کا مغز ہے۔۔

ليکن ہم جس طرح سے دعا مانگتے ہيں ،ياد کی ہوئی،  جلدی جلدی احساس سے خالی ،الفاظ کو محض ايک فريضے کے طور پر ادا کر کے اٹھ جاتے ہیں  ۔یعنی وہ وقت جو اللہ ا ور انسان کے تعلق کا خاص وقت ہے عطا اور آمین کا وقت ہوتا ہے، ہم جان چھڑاتے ہیں  ۔اور پھر ہم ہی stress اور Anxiety جیسے امراض کا رونا  روتے  ہیں  اور روحانی بيماری یعنی روح کو اسکی غذا سے محروم کرکے نفسانی خواہشات ميں اس کا حل تلاش کرتے ہيں۔ مختلف دوائيوں سے ساز و مو سیقی  سے لوگوں کو اپنے مسائل بتاکر، اس طرح   ہمارا علاج  تو ہو نہیں  پاتا ہے  اُلٹا  مسئلہ  مزید  بڑھتا چلا جاتا ہے۔

میرے ساتھ ہونے والے اس واقعہ سے جو چند روز سے میرے ساتھ پیش آرہا ہے اس نے مجھے اپنے رب سے مانگنے کا طریقہ سکھایا ہے۔۔یونیورسٹی جاتے ہوئے  روز صبح پُل کی سيڑھيوں پر ایک فقیر بوڑھا بابا بیٹھا ہوتا ہے جو کہ گزرنے والے ہر بچے مرد اور عورت کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اس انداز سے مانگتا ہے کہ  بندہ  بنا کچھ دیے   جا ہی نہیں  پاتا۔ پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو مجھے اس پر بہت افسوس ہوا اور ہمدردی کے باعث پیسے دیدیے ، اب روز گزرتے ہوئے  یہ ہاتھ پھیلاتا ہے، اس بار ميں اسے نظر انداز کرتے ہو ئے  آگے بڑھ گئی، لیکن جس انداز سے اس نے مجھ سے مانگا مجھے مڑ کر اسے پیسے دینے ہی پڑے، اور وہ روز ہی اسی انداز سے مانگتا ہے۔

اس واقعہ سے دو باتيں  سامنے آتی  ہیں ۔ ايک مانگنے والا اور دوسرا دینے والا ,مانگنے والا روز نئی  امید کے ساتھ مانگتا ہے اس انداز سے مانگتا ہے کے دینے والا منع نہیں کر سکتا ،مانگنے والے نے اپنی ظاہری صورت عاجزی ,لا چاری اور فقر کی اپنائی  ہے جو دینے والے کے لئے کشش رکھتی ہے۔۔ہمیں اس فقیر کے جیسے بننا ہے اور دینے والا ہمارا رب ہے کہ  اگر ہم اسکی مخلوق اتنا رحم رکھتے ہے دل میں، کچھ ہمدردی رکھتے ہیں ، بھلے اسکے پیچھے کچھ بھی مقصد ہو، تو خالق کیسا رحیم اور مہربان ہوگا ،وہ رب جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے جو خود کہتا ہے مانگو مجھ سے ،جو نہ مانگنے پر ناراض ہوتا ہے ،وہ ہماری دعاؤں کو کیوں نہیں سنے گا ؟۔۔اس پر کُن کیوں نہیں کہے گا ؟اسکے در سے کبھی کوئی نہ امید نہیں لوٹا، کمزوری ہمارے ایمان میں ہے ہمارا دل توکل سے خالی ہے اور دعا کی قبولیت کے لئے توکل بہت ضروری ہے،کوتاہی تو ہمارے مانگنے میں ہے کہ  مانگتے وقت آنکھوں میں آنسو  نہیں ،دل میں تڑپ موجود نہیں، عاجزی کی کیفیت نہیں۔۔انسانوں سے مانگتے ہوئے  جذبات آڑے  آتے ہیں ، طعنے ملتے ہیں ، شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ جبکہ اللّہ اپنے گنہگار بندے کا بھی خود آگے بڑھ کر استقبال کرتا ہے، اپنے کریم اور رحیم رب سے بچوں کی طرح رو کر مانگو ،فقیر کی طرح عاجز ہو کر مانگو، ان حیوانات کی طرح توکل کرو جو روز رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں ، لیکن خالی پیٹ واپس نہیں لوٹتے۔۔تم اشرف المخلوقات ہوکر اتنے نامید ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہے دعا یاد مگر حرفِ  دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اللہ سے مانگنے کا طريقہ۔۔ کبریٰ پوپل

Leave a Reply