وائلڈ سیکس۔۔محمد اشفاق

اپنی زندگی کے ابتدائی دس بارہ برس فقط دودھ اور پراٹھوں پہ گزربسر کی۔ سوکھی روٹی اور سالن کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں تھا۔ امی اللہ بخشے پریشان رہتی تھیں۔ کوئٹہ میں تو اپنی بھینسیں تھیں اور ایک کا دودھ ہم بہن بھائیوں کو کفالت کر جاتا تھا۔ پنڈی آئے تو امی نے میرے لئے بکری خرید لی۔
ایسے ہی محلے میں تین چار گھر اور بھی تھے، جنہوں نے بکریاں پال رکھی تھیں۔ شام کو ہم دوست انہیں گھمانے پھرانے نکل پڑتے تھے۔
ایک روز ہم اپنی بکریوں کو واپس لا رہے تھے، جب نچلے محلے میں ایک گھر سے وہ بکرے بر آمد ہوئے۔ یہ اونچے لمبے، وحشی قسم کے راجستھانی بکرے۔ ہماری بکریاں پہلی نظر میں ہی ان پر ایسے فریفتہ ہوئیں، کہ بھاگ بھاگ کر ان کی طرف لپکنے لگیں۔ ہم تین دوست تھے اور چھ سات بکریاں، بڑی مشکل سے مار پیٹ کر انہیں راہِ  راست پر لائے۔ شرمندگی سی بھی ہوئی کہ ہماری “لڑکیاں” ایسی دل پھینک نکلیں ۔

ان میں سے آدھی بکریاں ہماری پڑوسن آپا رشیدہ کی تھیں، اور اتفاق سے وہ یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ اگلے روز مجھے ساتھ لیا اور اس گھر چلی گئیں۔ ظاہری بات ہے بکروں کا رشتہ مانگنے۔ وہ جو کوئی خالہ تھیں، لڑکوں کی اماں ہونے کے ناطے انتہائی کٹھور ثابت ہوئیں۔
بولیں، ” ہم نے بکرے اس کام کیلئے نہیں رکھے۔”
آپا رشیدہ کو تو آگ ہی لگ گئی۔ بولیں، “اس کم ماروں نئیں رکھے، تے آپنے واسطے رکھے نیں”

اس پہ جو جنگ چھڑی، اس میں بکروں، بکریوں کے علاوہ محلے کے کئی شرفاء کی پگڑیاں بھی اچھالی گئیں۔

خیر، ان کیسانوواز کی قربت ہماری بکریوں کے نصیب میں نہ تھی۔ مگر آپا رشیداں یہ تو سمجھ ہی چکی تھیں کہ اب بکریوں کیلئے کچھ کرنا پڑے گا کہ “راتاں آ گئیاں چاننیاں”۔ تو انہوں نے بھینسوں والے چاچا اکرم یعنی جازی کے ابو سے رابطہ کیا اور چاچا اکرم نے اس کالے چرواہے سے، جو ہفتے میں دو روز ریوڑ ہمارے محلے لے کر آتا تھا۔

بے حد دبلا، بے حد کالا اور بےحد کھلا کرتا پہننے والا یہ چرواہا، جب لاٹھی کاندھوں پر رکھ کر اس پہ بازو ٹکاتا تھا، تو ہوبہو کھیتوں میں کھڑا سکئیرکرو لگتا تھا۔ اس کے پہلے دورے میں آپا رشیداں کی تین بکریاں تو سہاگن ہو گئیں، ہماری بکری مگر اباگھن ہی رہی۔ چاچا اکرم بکروں میں بھی حسب نسب دیکھنے کے قائل تھے، ہماری بکری لائق ‘بر’ انہیں نہ مل سکا۔ چرواہے نے اگلے دورے پر پیا ملن کی آس دے کر رخصت لی۔

یہ رنگیں واردات ہماری عدم موجودگی میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ مگر خوش قسمتی سے چرواہے کے اگلے وزٹ پر میں اور جازی بھینسوں والے احاطے میں پائے جاتے تھے۔ چاچا اس سے معاملات طے کر کے اور بکری اس کے سپرد کر کے ہماری طرف آئے اور فرمایا کہ ” چرواہے یوں تو آدھے ولی ہوتے ہیں مگر یہ والا پورا  خراب  بھی ہے۔ اس لئے تم دونوں اس پر کڑی نظر رکھو”

ہمارا کڑی نظر کہیں اور رکھنے کا ارادہ تھا، دل کی کلی کھل اٹھی یہ سن کر۔ بھاگم بھاگ جائے واردات پہنچے۔
میری تو آنکھوں کی ورجینٹی لوز ہونے جا رہی تھی، جازی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہی واز سک آف واچنگ مجاں دا سیکس، تو بکریاں دا سیکس ول ہوپ فلی، پروو ٹو بی اے ریسپائٹ فار ہز سور آئیز۔

ان نیک تمناؤں کے ساتھ ہم، خالی پلاٹ کی بنیاد پر جو زمین سے کافی اونچی تھی، ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔پلاٹ کے عقب میں جو نشیبی سا گھاس کا قطعہ تھا۔ چرواہا وہاں بزم یا رزم سجائے بیٹھا تھا۔

بکرا قدرے معمر دکھائی دینے کے باوجود سجتا تھا ہماری بکری کے ساتھ۔ اونچا، لمبا، چتکبرا، بڑے بڑے لٹکے ہوئے کان۔ چہرے پہ سنجیدگی، ٹھوڑی پہ موجود ننھی سی داڑھی، جس میں اضافے کا سبب تھی۔ اور سرد، بے مہر آنکھیں۔ مطلب، وہ کیسانوواز والا سواگ تو نہیں تھا، مگر ٹھیک تھا۔

چرواہا ہمیں معمول سے زیادہ چوکنا اور مسرور دکھائی دیا۔ بکرے کو اس نے تقریباً زبردستی، بکری کی طرف مائل کیا اور خود چوکڑی مار کر، لاٹھی افقی زاویے پہ سامنے رکھ کر، چوکس ہو کر بیٹھ گیا۔ عموماً ہم اسے قبرستان یا میدان میں چت پڑا دیکھتے تھے۔

تو ناظرین شو شروع ہوا۔ بٹ ان فورچونیٹلی، کم بخت بکرا، دانشور نکلا۔

آپ نے دیکھ رکھا ہوگا کہ بکروں کی حرکات جیسی بھی ہوں، ان کے چہرے پر ایک عجیب سی کرختگی آمیز متانت چھائی رہتی ہے۔ غالباً اسی سے امپریس ہو کر قدیم انسانوں نے اسے دیوتا، خدا یا بھگوان وغیرہ مان لیا۔ ورنہ بکرے میں ہر چیز کھانے لائق ہے، پوجا کے قابل کچھ بھی نہیں۔

خیر، ہمارے اس بکرے کی سنجیدگی کو آنے والے نشاط انگیز لمحات کا تصور بھی کم نہ کر پایا، بلکہ ماتھے کی نادیدہ شکنیں بڑھ ہی گئیں۔ چونکہ اس کی حرکات و سکنات میں اشتیاق و طلب بھی نمایاں تھی، تو اس کی تحلیل نفسی کے بعد، میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ، وہ سیکس کو ایک مقدس فریضہ گردانتا تھا۔ جو اس کے خیال میں انتہائی سنجیدگی، وقار، توجہ اور احتیاط کا متقاضی تھا۔

چنانچہ اس نے ایک بے ہنگم ہنکارا بھرا اور نہایت وقار سے، نپے تلے قدموں کے ساتھ، سلامی کے چبوترے کی جانب رواں ہوا۔
چبوترے کے مقابل پہنچ کر اس نے نتھنے سکیڑے اور ہواؤں سے کوئی سن گن لی۔ پھر کچھ ساعت پراسرار سی نظروں سے منزل مراد کو دیکھتا رہا۔ پھر ایک گہری سانس کے ساتھ جائے وقوعہ کو سونگھا۔ اس کا اوپری ہونٹ نتھنوں پہ جا چڑھا۔ لمبے پیلے دانتوں کو عریاں کر کے، تھوتھنی آسمان کی طرف اٹھا کر، اس نے حلق سے ایک کریہہ آواز نکالی۔ غالباً وہ اپنے خدا سے اگلی کاروائی کا اذن طلب کر رہا تھا۔

جو نہ ملا۔

یا پھر یہ بھڑوا تھا ہی اندر سے خصی۔

بہرحال پلٹ آیا اور دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔

اب ہم تو اسے پارٹ آف دی گیم ہی سمجھ رہے تھے، اور ہماری محویت برقرار تھی۔ مگر اس کے لوٹ آنے پر چرواہے کی گویا کمر ہی ٹوٹ گئی، اور وہ چاروں شانے چت ہو گیا۔

یہیں سے ہمیں بکرے اور چرواہے کے مابین ایک نادیدہ سے، انجان سے تعلق کا احساس ہونے لگا۔ بکرے نے جونہی مراقبہ توڑ کر، سومنات کے مندر پہ ایک اور چڑھائی کا ارادہ باندھا، چرواہا پھر سے چوکنا ہو کر بیٹھ گیا۔ کبڈی ٹیم کے اس کوچ کی طرح، جس نے اپنا بہترین کھلاڑی میدان میں اتارا ہو، اس کی بدن بولی میں جوش اور اضطراب بھر گیا۔

یہ جوش اور اضطراب بکرے میں مگر دکھائی نہ دیا۔ اس کی بدن بولی وہی گارڈ آف آنر وصول کرنے والی رہی۔ بکری نے ازراہ حیاء و دل لگی، اور شاید بکرے کی آتش شوق کو ہوا دینے کی خاطر، ایک ہلکی سی، بے ضرر سی لات جھاڑ دی۔ بکرا اس وقت تھوتھنی اٹھا کر خدا کو دانت گنوانے کے پراسیس میں جا رہا تھا۔ لات اس کی گردن سے چھوئی تو یونہی آسمان کی جانب تکتے ہوئے ایک عجیب کربناک اور دلخراش سی “ببببببب ببباااااااااااااااااااااں ں ں ں” کی آواز نکالی اس   نے، جیسے گلے پہ چھری پھیر دی گئی ہو۔ اور اپنی چلہ گاہ کو لوٹ گیا۔
چرواہے کی پھر کمر ٹوٹ گئی۔

ہم تو بور ہو کر کنکریوں سے کھیلنے لگے۔ گڈریا تیسری اٹیمپٹ پر باقاعدہ ہلہ شیری دینے پہ اتر آیا۔ لاٹھی ہلا ہلا کر، وہ بکرے کو معقول قسم کی گالیوں اور نامعقول قسم کے مشوروں سے نوازنے لگا۔ بدقسمتی سے کوئی حیلہ بھی اسے چت ہونے سے نہ بچا پایا۔

اب وہ بپھر کر لاٹھی سمیت کھڑا ہوگیا۔ اس کے خطاب کو مختصر، نرم، شائستہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ پہلے تو اس نے ایک عجیب و غریب منطق کی رو سے، اپنے بکرے کی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری ہماری بکری کے کندھوں پر، بلکہ کہیں اور ڈال دی۔ پھر زمین پہ لاٹھی مار کر اعلان کیا کہ اس کے پاس ” سیکنڈ آپشن” بھی موجود ہے۔

سیکنڈ آپشن کو ہم نے اردگرد منڈلاتا دیکھ رکھا تھا۔ یہ ہماری بکری کا ہم نسل، مگر قد کاٹھ، عمر، حلیہ اور پرسنیلٹی میں فلسفی بکرے سے کمتر سا بکرا تھا۔ ہمیں اب سمجھ آئی کہ یہ اتنی دیر سے بیگانی شادی میں دیوانہ ہوا کیوں پھر رہا تھا؟

بڑے بکرے کے لچھن صاف بتاتے تھے کہ چھوٹے بیچارے کو اکثر/ہمیشہ ہی سٹینڈ بائی رہنا پڑتا ہوگا۔ اس وقت وہ لٹرلی سٹینڈ بائی ہوا کھڑا تھا۔ بڑے کو پے در پے جام وصل سونگھ کر ہی لڑھکتا دیکھ کر، اس کے جذبات مشتعل اور آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔

بہت سالوں بعد میں نے سوچا کہ شاید چرواہے کا موڈس آپرینڈی ہی یہ تھا۔ وہ کوئی وئیرڈ قسم کا ووئرسٹ تھا جو ایسے مناظر سے ضرورت سے زیادہ حظ اٹھاتا تھا؟ اس لئے جہاں ایک حلالی بکرا کافی ہوتا، وہاں اس نے دو حرامی پال رکھے تھے؟

مگر اس وقت بالخصوص بکروں اور چرواہوں، اور بالعموم دنیا سے متعلق ایسی بدگمانیاں نہیں پال رکھی تھیں۔ آل وی ہیڈ آسکڈ فار واز سم ہارڈ این فاسٹ …..ف….. ایکشن، وچ واز تھینک فلی پرووائیڈڈ بائی دی سیکنڈ آپشن ان دا اینڈ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسے جیسے ہی گرین سگنل ملا، اس نے نو نان سینس مینر میں، روایتی جوش و جذبے اور شہباز سپیڈ کے ساتھ، معاملے کو اس منطقی انجام تک پہنچانا شروع کر دیا، جس کے انتظار میں ہم کب سے بیٹھے جمائیاں لے رہے تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply