سعودی عرب کی قدیم مساجد کا تعارف ( دوسرا حصّہ )۔۔منصور ندیم

مسجد جریر البحالی
مسجد محمد سلیمان

اسی سال ماہ جنوری سنہء ۲۰۲۱ میں سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں تاریخی مساجد تزئین و آرائش کر کے بحالی کا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے عزم کے تحت ضلع مکہ کی دو مساجد کو ثقافتی ورثے کے طور پر بحال کر کے انہیں نمازوں کے لیے آباد کیا گیا ہے، کا منصوبہ ہے۔ بحال کی گئی ان مساجد میں مکہ ضلع کے شہر طائف کی قدیم مسجد جریر البجالی اور مسجد سلیمان شامل ہیں۔ ان مساجد کی ضروری مرمت اور تزئین کی گئی جو تقریباً  ۴۰ سے ۶۰ برسوں کے بعد نمازیوں کے لیے دوبارہ کھولی گئی ہیں۔ اور ان کی تاریخی شناخت اور وقار کو دوبارہ بحال کیا گیا ہے۔

 مسجد جریر البجالی :

یہ طائف کی قدیم ترین اور تاریخی اہمیت کی حامل مسجد کا نام ہی مشہور صحابی حضرت جریر بن عبداللہ البجالی کے نام پر ہے، کیونکہ یہ صحابی رسول ﷺ حضرت جریر بن عبداللہ البجالی کے عہد میں تعمیر کی گئی تھی، طائف چونکہ ضلع مکہ مکرمہ کی کمشنری میں آتا ہے تو اسے مکہ ضلع کی قدیم ترین اور مشہور تاریخی مساجد میں سے ایک کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ مسجد پتھروں سے بنی ہوئی ہے،اس کا رقبہ ۳۵۰ مربع میٹر پر محیط ہے اور اس کی تعمیر میں مخصوص لکڑی کے شہتیروں کے ساتھ کنکریٹ کی چھت ڈالی گئی ہے، تاریخی اعتبار سے اپنے عہد میں یہ مسجد عدالت کی حیثیت بھی رکھتی تھی، اس مسجد میں وفود سے ملاقاتوں کے علاوہ مقامی معمولی تنازعات کا حل اور ان کے فیصلوں کے علاوہ نکاح کے پروگرام بھی ہوتے تھے، اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات کا بھی اپنے عہد میں مرکز تھی۔

 مسجد محمد سلیمان :

طائف میں موجود جو دوسری مسجد بحالکیگئی ہے یہ بھی قریب ۵ سے ۶ دہائیوں سے غیر آباد تھی جسے دوبارہ تزئین و آرائش کی گئی ہے ، مسجد سلیمان کا رقبہ ۳۹۰ مربع میٹر پر ہے، اس مسجد کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺطائف میں قبیلہ بنو سعد میں اپنے ماموں سے ملنے کے لیے یہاں دوبارہ تشریف لائے تھے تب رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھ آنے والے مصاحبین کو اس مقام پر رکنے کا حکم دیا اور فرمایا تھاکہ


“یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے قیام کیا تھا۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی نسبت سے اس مسجد کا نام “مسجد سلیمان” ہے . یہ مسجد بھی ماضی میں اس خطے میں مذہبی تعلیمات کی سرگرمیوں کا مرکز رہی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply