چند سال پہلے تک کپاس کے کھیت میں اترتی سفیدی ہر طرف خوشیوں کا پیغام لے کر آتی تھی۔ خصوصاً کسانوں اور کپاس کی چنائی کرنے والی مزدور خواتین کے گھر۔ زیادہ تر دیہاتوں میں شادیاں کوئی فصل اٹھانے کے بعد کی جاتی ہیں ۔ فصل کسان کی کل کائنات ہوتی ہے۔ فصل کے ساتھ کسان اور اس کے گھر والوں کی ساری امیدیں جڑی ہوتی ہیں۔
کپاس چننے والی عورت کو پنجابی میں چوگی کہتے ہیں۔ کپاس کی چنائی کے موسم میں اِن چوگیوں کے ہر گاؤں میں دو سے تین گروپ بنا کرتے تھے۔ اتنی زیادہ خواتین ہونے کے باوجود کپاس کی چنائی بڑی مشکل سے وقت پر مکمل ہوتی تھی۔ مزدور خواتین کے لیے یہ موسم کسی تہوار سے کم نہیں ہوتا تھا۔ جیسے تہواروں پر ہر کوئی خوشی سے نہال ہوتا ہے ویسے ہی یہ خواتین خوشی سے سرشار سویرے سویرے اپنی آنکھوں میں چھوٹی چھوٹی امیدوں کی خوشیاں سجاۓ کھیتوں کی جانب جاتیں ۔ کسی کو گھر کا راشن لینا ہوتا تھا تو کسی کو بچوں کے لیے کپڑے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ سال بھر چنائی کے موسم کا انتظار کرتیں ۔ چنائی کے وقت بھی کھیت میں گہماگہمی رہتی۔ عورتیں بچھڑی سہیلیوں کی طرح ایک دوسرے کو اپنے دکھ سکھ سنا رہی ہوتیں اور کھانے کے وقت ایک دوسرے ساتھ اپنا کھانا سانجھا کرتیں ۔
ہماری والدہ بھی صبح سویرے ہمیں سکول کے لیے تیار کرکے کپاس کی چنائی کے لیے جایا کرتی تھیں ۔ وہ اپنے لیے ایک چھوٹے سے کپڑے میں(جسے پنجابی میں پونا کہتے ہیں ) کھانا باندھ کر لےجاتی تھیں ۔ کپاس کی چنائی کے موسم میں جس دن ہمیں سکول سے چھٹی ہوتی تھی وہ ہمارے لیے عید سےکم نہیں ہوتا تھا۔ اُس دن ہم سب بہن بھائی امی کے ساتھ کپاس چننے جاتے تھے۔ امی ایک چادر کی جھولی بناتی تھیں اور ہم سب بھی ان کی نقل میں ویسے جھولی بناتے۔ اور لگ جاتے کپاس چننے۔ لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود ہم دو سے تین کلو سے زیادہ نہ چن پاتے۔ ہمارے اترے چہرے دیکھ کر والدہ اپنی ڈھیری سے تھوڑی تھوڑی کپاس ہماری ڈھیری میں ڈال دیتیں اور اس کے عوض جو چند سکے ملتے اس سے ہماری عید ہوجاتی۔
کپاس اور اس سے جڑی صنعت کو پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ کسی دور میں کپاس پاکستان کی زراعت کے ماتھے کا جھومر تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم کپاس کی پیداوار میں بھارت سے بھی آگے تھے۔ اور آج ہم اس کی بربادی پر نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ زراعت کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے اس زوال کی جو وجوہات مجھے سمجھ میں آتی ہیں انہیں اس تحریر میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگر کسان سے کپاس کی بربادی کا سبب پوچھا جائے تو وہ سب سے زیادہ ناقص بیج، ناقص زرعی ادویات اور کم ریٹ کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ یہ بڑے اہم نکات ہیں لیکن ہم ان کے ساتھ جڑے دوسرے محرکات کو نظرانداز نہیں کرسکتے جیسے ماحولیاتی تبدیلی، ریسرچ اداروں کو فنڈز فراہم نہ کرنا، فیلڈ مینجمنٹ میں بہتری کی ضرورت، زرعی ادویات اور کھادوں کا بے جا استعمال, کراپ زونگ کے حوالے سے پالیسیوں کا فقدان، کپاس کے علاقوں میں گنے کی کاشت کو فروغ دینا، ہاؤسنگ کالونیوں کی وجہ سے دن بدن گھٹتی زرعی اراضی اور اہم زرعی اصلاحات سے کسانوں کی بے خبری۔
سب سے پہلے بیج کے معیار پر روشنی ڈالتے ہیں اس سے کچھ دوسرے اہم نکات بھی سمجھ میں آجائیں گے۔ ناقص بیج کی ساری کی ساری ذمہ داری ریسرچ اداروں، سیڈ کمپنیوں اور اس کو ریگولیٹ کرنے والے اداروں پر آتی ہے۔ کیا ریسرچ ادارے معیاری بیج پیدا کرنے میں ناکام ہورہے ہیں؟ تو جواب ملتا ہے ادارے کے پاس مناسب وسائل نہیں ہیں۔ ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کپاس کی فصل پر تحقیق کے لیے ایک ٹیکس ادا کرتی ہے۔ لیکن پچھلے چھ سال سے ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن یہ ٹیکس دبا کر بیٹھی ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے ریسرچ اداروں کے ملازمین ہر دوسرے دن تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ اور اس ساری صورتحال میں حکومت اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ محدود وسائل کے باوجود ریسرچ اداروں نے کچھ اچھی اقسام دی ہیں لیکن کسان تک اس کا ثمر بہت کم پہنچ رہا ہے۔ سیڈ مافیا الف درجے کی ورائٹی کا کہہ کر ے درجے کی ورائٹی دے جاتے ہیں۔ ریسرچ اداروں میں ہمارے ہاں کی دیسی اقسام پر ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دیسی اقسام یہاں کے ماحول سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اگر اس کے ریشے کے سائز پر کام کیا گیا ہوتا تو شاید آج یہ بحران دیکھنے کو ملتا۔
ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ جو پاکستان کو منہ کھولے کب سے گھور رہا تھا اب نگلنےلگ گیا ہے۔ اور ہماری طرف سے اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے ہیں اور اب بھی حالات ویسے ہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھ کر کراپ مینجمنٹ کے اصولوں کو دوبارہ سے دیکھنا چاہیے تھا اور نئے اصول بنانے چاہیے تھے۔ اگر بناۓ گئے ہیں تو عام کسان تک نہیں پہنچا سکے جو ابھی بھی فصل کو پرانے طریقے سے کاشت کررہا ہے۔ کپاس کے علاقوں میں ہوا میں نمی کا تناسب بڑھا لیکن ہمارا پودے سے پودے کا فاصلہ آج بھی وہی ہے۔ کچھ کسر زرعی ادویات اور کھادوں والے نکال دیتے ہیں۔ دو نمبر تو جو ملتی ہیں وہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن کچھ بھائی اپنی سیلز بڑھانے کی چکر میں کسان کو غلط مشورے دے جاتے ہیں۔ بے جا اسپرے اور کھادوں کے بے دریغ استعمال سے پودا سٹریس سے ہی نہیں باہر آتا اور زمینی پانی کو آلودہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ زرعی ادویات کے بے دریغ استعمال سے اب نقصان دہ کیڑوں میں بھی مزاحمت آگئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال فصل کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
کپاس کے علاقوں میں چینی کے کارخانے لگانے کی منطق کی آج تک سمجھ نہیں آئی اور ان کارخانوں کو کامیاب کرنے کے لیے کچھ عرصے تک کپاس کا ریٹ بہت کم رکھا گیا۔ جب کسان کی لاگت ہی پوری نہ ہورہی ہو تو اس نے خود بخود فصل کو چھوڑنا ہی ہے۔ کھاد، ڈیزل، زرعی ادویات، مزدوری اور بجلی کا ریٹ دن بدن بڑھتا رہتا ہے لیکن فصل کا ریٹ دھکوں کے ساتھ بڑھتا ہے۔ رہی سہی کسر امپورٹ ایکسپورٹ کی پالیسیاں بنانے والے نکال دیتے ہیں۔ بعض اوقات باہر سے مال ضرورت سے زیادہ منگوا لیتے ہیں اور جس سے ملک میں اپنی فصل کا ریٹ گر جاتا ہے اور جو فصل باہر سے مہنگی منگوائی جاتی ہے اپنے کسان سے کوڑیوں کے دام لی جاتی ہے۔ کم قیمت بھی کسان کو مجبور کررہی ہے کپاس کی جگہ دوسری فصلیں لگانے میں۔
ضرورت اس امر کی ہے ہنگامی بنیادوں پر کپاس کی فصل کو بچانے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے۔ ریسرچ اداروں کے فنڈز جاری کرواۓ جاۓ۔ فصلوں کی مارکیٹ کے لحاظ سے بہتر پالیسیاں مرتب کی جائے تاکہ کسانوں کو فصلوں کے نرخوں بارے میں جو ابہام رہتا ہے وہ ختم ہو۔ زرعی اور معاشی ماہرین کی رائے کی روشنی میں نئے سرے سے پالیسیاں بنائی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر ان پر عملدرآمد کروایا جاۓ۔ اس کے علاوہ بہترین ریشے کے حصول کے لیے متبادل فصلوں پر بھی ریسرچ کروانی چاہیے اگر وہ اس ماحول میں بہتر کارکردگی دکھاتی ہے تو جن علاقوں میں کپاس کی فصل ناکام ہوگئی ہے ادھر ہم دوسری متبادل فصلیں لگواسکتے ہیں تاکہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر اس دوڑ سے باہر نہ ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں