جلال الدین اکبر سلطنت مغلیہ کا تیسرا فرمانروا۔۔مہرساجدشاد

جلال الدین اکبر اپنے والد نصیرالدین ہمایوں کی وفات کے بعد 14 فروری 1556 کو صرف تیرہ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا اس کا پھوپھا بیرم خان اس کا سرپرست مقرر ہوا۔ اکبر 15 اکتوبر 1542 کو حمیدہ بانو کے ہاں عمر کوٹ سندھ میں پیدا ہوا، حمیدہ بانو سے عشق اور شادی ایک الگ تفصیلی داستان ہے، ہمایوں نے عمر کوٹ کے راجہ کیساتھ ملکر سندھ میں بعض علاقوں پر قبضہ کی ناکام کوشش کے بعد قندھار جانے کا فیصلہ کیا، کوئٹہ کے نزدیک مستونگ میں اس کے بھائی مرزاعسکری نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی تو وہ خود ایران بھاگ گیا، شیرخوار اکبر کو اسکا چچا اپنے ساتھ قندھار لے گیا جہاں اسکی ابتدائی پرورش ہوئی، 1545ء کے بعد جب ہمایوں نے قندھار اور کابل پر قبضہ کیا تو اکبر اسے واپس مل گیا۔

اکبر کادھیان  پڑھائی پر بالکل نہیں تھا وہ اَن پڑھ رہا حروف تہجی بھی نہ سیکھ سکا، لیکن بادشاہ بننے کے بعد اس نے دوسروں سے بہت کتابیں پڑھوا کر سنیں اور تاریخ، فلسفہ، سیاسیات اور مذہب کی بہت معلومات حاصل کر لیں۔ ہمایوں نے 1555ء میں اسے پنجاب کا گورنر نامزد کیا اور اس کی ولی عہدی کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ اکبر کی مشکلات تخت نشینی کیساتھ ہی شروع ہو گئیں، بیرم خان نے اپنی من مانیاں شروع کر دیں لیکن وہ جلد ہی مکہ کے سفر کے دوران قتل ہو گیا۔ حاکم لاہور ابوالمعالی نے بغاوت کر دی، پکڑا گیا لیکن فرار ہو کر فوج جمع کی اور کشمیر پر حملہ کر دیا۔ راجپوت بھی ازسرنو میدان میں آ گئے، میواڑ، مروربندی، بیکانیر، جودھ پور، اور نتھبور کے قلعے راجپوتوں کی قوت کا مرکز بن گئے۔ رانا درگاوتی انکی تنظیم سازی کر رہی تھی۔ کشمیر اور سندھ کے حکمران باغی ہو چکے تھے۔ کوہ ہمالیہ کی ریاستیں پہلے ہی آزاد تھیں، گجرات، دکن اور جیانگر کی ریاستیں بھی خلاف تھیں، اکبر کا اس سے دو سال چھوٹا کمسن سوتیلا بھائی جو کابل اور قندھار کا گورنر تھا وہ بھی ہندوستان کی حکومت کا خواہشمند تھا۔ ایرانی اور چغتائی امراء بھی پیچھے نہ رہے۔

یہاں سے آگے پچاس سال کی جدوجہد ہے، جلال الدین اکبر نے بلاشبہ بڑی فتوحات سے سلطنت کو وسیع اور مضبوط بنایا، دوسری طرف اپنی عظیم انتظامی اصلاحات، عقلمندانہ حکمت عملیوں، اور شاندار تعمیری کارناموں سے سلطنت مغلیہ کو عظمت بخشی اور سنہری باب کا آغاز کیا۔ جلال الدین اکبر نے 1571ء میں کابل , 1586ء میں کشمیر، 1591ء میں سندھ، 1595ء میں بلوچستان اور قندھار جبکہ 1600ء میں احمد نگر پر قبضہ کر لیا اس نے سلطنت کو بہتر انتظامات کیلئے 14 صوبوں میں تقسیم کیا۔ راجہ ٹوڈرمل جو چونیاں کا ایک بہت بڑا ماہر حسابیات تھا اس کے ذریعے تمام ملک کے علاقوں کی پیمائش کروائی، یہ بعد میں لاہور کا گورنر بنا اور 1589ء میں وفات پا کر لاہور ہی میں دفن ہوا۔

اُدھر رانا سانگا کے بیٹے رانا بکرم جیت سے میواڑ کی حکومت چھن گئی اور اسکے بھتیجے رانا بن بیر نے حکومت سنبھالتے ہی اس نے اپنے چچا رانا سانگا کی اولاد کو ختم کرنے کیلئے شیر خوار اودھے سنگھ کو مارنا چاہا لیکن ایک خادمہ پنادیوی نے اپنے بچے کو شاہی پنگھوڑے میں لٹا کر اودھے سنگھ کو اپنے کمرے میں رکھ لیا یوں اپنے بچے کے قربانی دے کر اسے بچایا۔ تیرہ سال کی عمر میں رانا اودھے منظر عام پر آیا تو امراء نے رانا بن بیر کو قتل کر کے اسے چیتوڑ کے تخت پر بیٹھایا لیکن یہ بھی نالائق حکمران ثابت ہوا۔ جلال الدین اکبر نے چیتوڑ کا محاصرہ کیا تو اودھے سنگھ کی ایک بہادر فن حرب کی ماہر خادمہ نے قلعے کا دروازہ کھول کر اپنے دوسرے سرداروں کے ہمراہ اکبری سپاہ پر حملہ کر دیا، اکبر اس شدید لڑائی میں بمشکل بچا اور وہ محاصرہ ختم کر کے واپس جانے پر مجبور ہو گیا۔ رانا اودھے سنگھ نے خادمہ کی بہادری سے متاثر ہو کر اس سے شادی کر لی لیکن درباری امراء نے اسے قتل کروا دیا اور یوں اندرونی سازشیں شروع ہو گئیں۔ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکبر نے اپنے ایک مفرور دشمن کو حوالے نہ کرنے کا بہانہ پا کر ایک بار پھر 1567ء میں میواڑ پر حملہ کر دیا، مردوں کیساتھ عورتوں نے بھی زرہ پہن کر دستوں کی کمان سنبھالی، محاصرہ لمبا ہو گیا اور سپاہیوں کی تعداد کم ہو گئی تو “رسم جوہر” کے تحت ہزاروں عورتیں عزت و ناموس کی خاطر آگ میں کود گئیں، بہادر راجپوتوں نے کیسری لباس پہن کر قلعے کے دروازے کھولے اور پھر کشت و خون کے دریا بہائے گئے تیس ہزار سے زائد آدمی قتل ہوئے، رانا اودھے سنگھ فرار ہو کر کومل پیر کے پہاڑی علاقے میں چلا گیا اور وہاں ایک شہر”اودھے پور” بسایا اور یہیں فوت ہوا۔ اودھے سنگھ کے کئی بیٹے تھے لیکن رانا پرتاب کو امراء نے تخت نشین کر دیا، اس نے اپنے سرداروں اور فوجیوں سے قسم لی کہ جب تک میواڑ اور چتوڑ فتح نہ ہوں چارپائی پر سونا، برتن میں کھانا ، اور داڑھی منڈوانا حرام ہے، رانا پرتاب نے سلطنت اکبری کا پچیس سال مقابلہ کیا اس کا اعلان تھا کہ جو راجپوت شہنشاہ اکبر کی اطاعت کرے گا وہ ہمارا دشمن ہے اس خاندان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ عمر کے آخری حصے میں اس نے بھنیر در، کاکردن، سلومبر، منڈل گڈھ سمیت بتیس قلعے فتح کئے۔ رانا پرتاب سنگھ اور جلال الدین اکبر کے درمیان ہندو مت اور اسلام کی جنگ نہیں تھی یہ مغل سلطنت اور ریاست میواڑ کی جنگ تھی اسی لئے رانا پرتاب کا ایک سپہ سالار حاکم خان سوری اور اکبر کی فوج کا سپہ سالار مان سنگھ تھا۔

رانا پرتاب کے علاوہ بہت سے راجپوت اکبر نے اپنے ساتھ ملائے اور انہیں بہت بڑے عہدے اور زمہ داریاں دیں وہ انکی وفاداری اور بہادری کا معترف تھا۔
رانا بہاری مل حاکم جے پور سے اکبر کی اہم ملاقات حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے مزار پر جاتے ہوئے کی اور اتحاد کیساتھ اسکی بیٹی جس کا نام مریم زمانی رکھا اس سے شادی کر کے رشتہ داری بھی کر لی۔اس اتحاد سے سلطنت مغلیہ کو رانا مان سنگھ اور بعد میں چار پشتوں تک عظیم جرنیل اور دانش مند وزراء میسر آئے۔ اکبر نے ہندو مذہب کی سرپرستی کی خود تلک لگایا اور محل میں مندر تعمیر کروایا انکی رسومات کو منایا گائے کے ذبح پر پابندی لگائی، لیکن ساتھ ہی بری رسومات رسم ستّی اور بچپن کی شادی کا ممنوع قرار دیا ،بیوگان کی دوبارہ شادی کی اجازت دی۔

جلال الدین اکبر کا محدود مذہبی علم رکاوٹ بنا اور وہ شریعت کی تشریحات اور فروعی اختلافات میں مسلمان علماء کے اختلافات سے تنگ آ کر 1579ء میں درباری علماء کے دستخطوں سے ایک فتویٰ “اعلان معصومیت” جاری کروایا اور اسلام کی تاویل و تشریح اور مذہبی امور کے فیصلے کے غیر معمولی اختیارات حاصل کر لئے۔ جن لوگوں نے اس اقدام کی مخالفت کی انہیں پھانسی پر لٹکوا دیا گیا۔ 1581ء میں شہنشاہ اکبر نے اپنا حلقہ ادارت “توحید الہی “ کے نام سے قائم کیا، اسکے تحت پہلا عقیدہ خدا ایک ہے، دوسرا عقیدہ شہنشاہ اکبر اس دنیا میں خدا کا نائب ہے دین میں دوسری حیثیت عقیدہ رسالت کو ختم کر دیا گیا۔ اس دین الہی کے اہم احکامات یہ تھے، بیعت کیلئے ماتھے پر تلک لگا کر اتوار کی دوپہر کو پگڑی ہاتھ میں پکڑے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہونا اور اس سے پگڑی بندھوانا اور اللہ اکبر والا تمغہ پانا، سلام کا طریقہ اللہ اکبر کہنا اور جواب میں جلا جلہ کہنا، زندگی کے دوران ہی اپنی رسم چالیسواں ادا کرنا دعوت کرنا، یوم ولادت دھوم دھام سے منانا، مردے کے دفن کیلئے پہلے اس کے گلے میں کچا اناج اور پتھر باندھ کر اسے دریا میں ڈالنا تاکہ اسکے گناہ دھل جائیں لاش پھول جانے پر اسے جلانا یا دفن کرنا، لیکن اس طرح کہ سر مشرق اور پاؤں مغرب کی طرف ہوں عام حالات میں بھی اسی طرح نیند کیلئے سویا جائے، گوشت خوری ممنوع تھی، نابالغ بوڑھی اور بانجھ عورت مجامعت کیلئے ناجائز تھیں، شادی کی کم از کم عمر لڑکے کی سولہ سال اور لڑکی کی چودہ سال قرار پائی، منگنی کیلئے بھی بارہ سال کم از کم عمر تھی، آذان اور باجماعت نماز پر پابندی تھی سجدہ صرف بادشاہ کیلئے تھا، روزہ پر پابندی، حج غیر ضروری اور عیدین کی نمازیں ختم کر دی گئیں مساجد کے دروازوں پر ہندو چوکیدار متعین کر دئیے ان کو مقفل کر دیا یا اصطبل بنا دیا، عید کی بجائے جشن نوروز کو سرکاری تہوار قرار دیا گیا۔ محمد اور احمد ناموں پر پابندی عائد کر دی خود بھی اپنے نام سے اسم محمد خارج کر دیا۔
ہندو مورخین اکبر کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے اقدامات کو ہندو مسلم اتحاد کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ لیکن صرف چند ہزار افراد ہی اپنی مجبوریوں اور لالچ کے باعث اس دین الہی کا حصہ بنے، حتی کہ رانا مان سنگھ نے بھی اسے قبول نہ کیا اور کہ “ میں بادشاہ کا وفادار ملازم ہوں اگر وہ چاہے تو میں اس پر جان قربان کرنے کو تیار ہوں، اگر وہ حکم دے تو میں ہندو مت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کو تیار ہوں لیکن میرے نزدیک اس ملک میں مذاہب دو ہی ہیں ایک ہندو مت اور ایک اسلام بادشاہ کا حلقہ ادارت کوئی مذہب نہیں”۔
خواجہ باقی باللہ بیرنگ نقشبندی نے اس مذہبی پالیسی کو بدلنے کیلئے شاہی دربار میں اپنا اثر رسوخ پیدا کرنا شروع کر دیا اور بہت جلد شیخ فرید، قلیچ خان گورنر لاہور، عبدالرحیم خانخاناں سپہ سالار اعظم دکن انکے معتقد ہو گئے، مجدد الف ثانی نے اپنے مرشد کے کام کو جاری رکھا اور جہانگیر کے دربار سے بھی غیر مذہبی تمام اثرات زائل کئے انکی محنت تھی کہ بعد میں اورنگزیب عالمگیر نے بھرے دربار میں اکبر پر تبصرہ کیا تھا کہ “جد مااکفر بود” میرا دادا سب سے بڑا کافر تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہنشاہ جلال الدین اکبر نہائیت بہادر جرنیل تھا، اس کا کہنا تھا کہ اگر سلطنت میں توسیع کی کوشش نہ کی جائے تو دشمن قبضہ کرنے کے منصوبے بنانے لگتا ہے، بچپن کے ان پڑھ اکبر کو علم سے رغبت ہوئی تو اس نے فیضی سے مدد لی، پچیس ہزار سے زائد کتب پر مشتمل لائبریری قائم کی۔ اکبر شعراء اور ادیبوں کا قدردان تھا، موسیقی سے اسے خاص لگاو تھا فن تعمیر سے بھی اسے خاص دلچسپی تھی، سنگ سرخ اور راجپوت فن کے گہرے اثرات اکبری عہد کی تعمیرات اور عمارات میں نظر آتے ہیں۔ شہر لاہور کے تیرہ دروازے، ہمایوں کا مقبرہ، قلعہ آگرہ الہ آباد کا چالیس ستونوں والا محل قابل ذکر ہیں۔ عمر کے آخری سال نہایت ناخوشگوار تھے، اسکی والدہ کی وفات، شہزادہ دانیال کی موت، ابوالفضل کے قتل، اور شہزادہ سلیم (جہانگیر) کے باغیانہ رویہ نے اسکی زندگی کے آخری ایام پریشان کن بنا دئیے، شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر بیمار ہو کر اکتوبر 1605ء میں وفات پا گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply