کشش ثقل کی طلسماتی لہریں۔محمد شاہزیب صدیقی

حاصل شدہ معلومات کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری کائنات بھی اصولوں کی قید سے آزاد نہیں، پوری کائنات ایک نظام کے ماتحت کام کررہی ہے اسی خاطر بہت سے سائنسی انکشافات جو کہ آج سےسو سال پہلے ٹیکنالوجی کی کمی کے باوجود محض اعداد و شمار کی بنا پر کیے گئے ، آج جدید سائنس ان پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہے ، لیکن اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اُس وقت لوگ سائنسدانوں کے اُن دعوؤں پر ہنستے تھے ۔ اسی وجہ سے جب البرٹ آئن سٹائن نے اپنا مشہورِ زمانہ عمومی نظریہ اضافت اور خصوصی نظریہ اضافت مکمل کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا تو دنیا میں چند افراد ہی تھے جو اِس کے اِس نظریے کو صحیح طرح سمجھ پائے جبکہ دیگر نے اس کو اہمیت نہ دی۔ اسی خاطر جب البرٹ آئن سٹائن کی چارلی چپلن سے مُلاقات ہوئی تو انہوں نے چارلی چپلن سے کہا :”میں آپ کے فن کا اس لئے قائل ہوں کہ آپ کے ایک حرف بھی نہ کہنے کے باوجود پوری دنیا سمجھ جاتی ہے کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں”جس کے جواب میں چارلی چپلن نے کہا :”آپ کی بات ٹھیک ہے مگر اس معاملے میں آپ مجھ سے زیادہ بہترہیں کیونکہ پوری دنیا آپ کی بات کو نہیں سمجھ پاتی لیکن اس کے باوجود آپ کے کہے کا اعتراف کرتی ہے “۔

آج بھی فلکیات کے چاہنے والے کائنات کے ان سربستہ رازوں کی کھوج میں ہمہ وقت مصروف ہیں جن کا انکشاف سو سال پہلے سائنسدان کرچکے ہیں، کشش ثقل کی لہریں (Gravitational waves)انہی رازوں کی ایک کڑی ہے ۔20ویں صدی میں نظریہ اضافت نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ۔ اس نے کائنات کے structureکو سمجھنے میں مدد فراہم کی ، ہمیں معلوم ہوا کہ کائنات دراصل ٹائم اور سپیس کے بنے ہوئے جالوں پر مشتمل ہے ، اور یہ زمان و مکاں کی چادر انتہائی لچکدار ہے، کشش ثقل کا وجود بھی اسی زمان و مکاں کی چادر میں پڑنے والے گڑھوں کے باعث ہے، اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ فرض کریں ایک چادر کو چاروں کونوں سے باندھ دیا جائے اس چادر کو ہم زمان و مکاں کی چادر مان لیتے ہیں اس میں اگر کوئی وزنی پتھر یا لوہے کی گیند کو پھینکا جائے گا تو یہ لوہے کی گیند/وزنی پتھر اس چادر میں دباؤ پیدا کرے گا اور ایک گڑھا بنا دے گا، جب یہی لوہے کی گیند/وزنی پتھر حرکت کرے گا تو اس چادر میں vibration پیدا کرے گا جو پوری چادر میں محسوس کی جائیں گی،

بالکل اسی طرح سورج ، چاند، زمین اور دیگر اجسام کائنات کی ٹائم سپیس کی چادر میں گڑھے بنا دیتے ہیں، جو جسم جتنے زیادہ ماس کا حامل ہوگا اس کا گڑھابھی اتنا گہرا ہوگااور زیادہ دُور تک اس کے اثرات ہوں گے، زمین سورج کے پیدا کردہ گڑھے میں گھوم رہی ہے ، جبکہ چاند زمین کے پیداکردہ گڑھے میں چکر کاٹ رہا ہے، اسی طرح جب کوئی چیز ٹائم سپیس کی اس چادر میں حرکت کرتی ہے تو زمان و مکاں کی چادر میں تھرتھراہٹ محسوس ہوتی ہے اور لہریں پیدا ہوتی ہیں، ان لہروں کا ذکر سب سے پہلے ہنری پوئن کئیر نے 1906ء میں کیا ، اس کے بعد آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافت میں اس کا ذکر کیا ،چونکہ ان لہروں کی دریافت انتہائی مشکل کام تھا جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ ایسی کسی لہرکا وجود نہیں اور آئن سٹائن سے غلطی ہوگئی ہے ، لیکن پھر 20ویں صدی کے وسط میں آئن سٹائن کے اِس نظریے پر تحقیق کے بعد سائنسدان نتیجے پر پہنچے کہ کششِ ثقل کی لہروں میں توانائی موجود ہوتی ہے جس کے باعث یہ معلوم ہوا کہ ان کو دریافت کیاجاسکتاہے، لیکن اس بارے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو دریافت کیسے کیا جائے ۔ ان کی کھوج لگانے سے قبل ہمیں یہ تحقیق کرنی ہوگی کہ یہ دِکھتی کیسی ہیں؟

فرض کیجئے کہ آپ ایک بلند و بالا عمارت پر کھڑے کسی حسین شہر کا نظارہ کررہے ہیں لیکن اچانک سے پل بھر کے لئے آپ کو یوں لگا جیسے پورے کا پورا شہر زمین سے اٹھ کر عمارت کے برابر اونچا ہوگیا ہے ،اسی سے اگلے لمحے سُکڑ کر چھوٹے سے قصبے جتنا ہوگیا ہے اور اس کے فوراً بعد سب کچھ اپنی اصل حالت میں واپس آگیا ہے تو یقیناً آپ اسے نظر کا دھوکا سمجھیں گے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک کشش ثقل کی آوارہ لہر کہیں دُور سے آتی ہوئی پل بھر میں اس شہر کی زمان و مکاں کی چادر میں سلوٹیں ڈالتی گزر گئی جس کے باعث آپ کو یہ “جادُوئی منظر “دیکھنے کو ملا۔ کششِ ثقل کی لہریں زمان و مکاں میں طوفان برپا کرتی آگےبڑھتی رہتی ہیں ،ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوتی ہے۔ ان کی شدت سفر کرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے ، ان کی شدت کا دارو مدار کسی بھی شے کے ماس پر ہوتا ہے، سورج سے لاکھوں گنا بڑے ستارے کے حرکت کرنے سے بڑی لہریں پیدا ہوتی ہیں

جبکہ چھوٹی اشیاء کی حرکت سے انتہائی چھوٹی ناقابلِ مشاہدہ لہریں پیداہوتیں ہیں، کشش ثقل کی یہ لہریں ہر وقت کائنات میں ہر حرکت کرتی شے سے پیدا ہورہی ہے مگر ان کی شدت اس حد تک کم ہوتی ہے کہ اس کا دیدارکرنا ناممکن ہوتاہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی میلے میں آپ موجود ہوں تو وہاں پر موجود آوازوں کی وجہ سے آپ معلوم نہیں کرپائیں گے کہ کونسی آواز کہاں سے آرہی ہے لیکن اگر اُسی وقت کوئی شخص اونچی آواز میں لاؤڈ سپیکر پر بولے گا تو آواز کی شدت زیادہ ہونے کے باعث سب کو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ فلاں جگہ سے یہ آواز آرہی ہے ۔ بالکل اسی طرح کشش ثقل کی لہریں ہمہ وقت کائنات میں موجود رہتی ہیں مگر جب کوئی 2 انتہائی بڑے ستارے آپس میں ٹکراتے ہیں تب ان لہروں کو حساس آلات کی مدد سے نوٹ کیا جا سکتا ہے ۔

زمان و مکاں کی چادر ہرسو کائنات میں پھیلی ہوئی ہے جو کہ کشش ثقل کی لہروں کی اصل وجہ ہیں ، سائنسدانوں کو ایک لمبے عرصے تک اسی قسم کے چیلنج سامنا رہا ہے کہ ان لہروں کو دریافت کیسے کیا جائے؟آج سے 47 سال پہلے سائنسدانوں نے 2 نیوٹران ستاروں کے ماس کا حساب لگایا جو ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے اور ٹکرانے لگے تھے تو معلوم ہوا کہ ان کے ماس میں کمی زیادہ ہورہی ہے جبکہ ان کے اندر سے نکلنے والی توانائی اس کے مقابلے میں کم ہے جس کا مطلب تھا کہ بقیہ ماس یہ ستارے کسی “ان دیکھی توانائی “کی صورت میں ضائع کررہے ہیں ، جب آئن سٹائن کا نظریہ اضافت استعمال کر کے حساب کتاب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ ستارے اپنا بقیہ ماس دراصل کشش ثقل کی لہریں بنانے میں صرف کررہے ہیں، یہ پہلا واقعہ تھا جب سائنسدانوں کو کشش ثقل کی کوئی نشانی ملی ۔

آگے کئی عشروں تک یہ لہریں سائنسدانوں کے لئے ایک معمہ بنی رہیں، پھر 1998 ء میں اِن لہروں کی تلاش کے لئے لائیگو ڈیٹیکٹر کی تعمیر کی گئی ، اس لیبارٹری میں 2 پائپ L Shape میں تعمیر کیے گئے، دونوں پائپس میں لیزر شعاعیں چھوڑی جاتی تھیں جو کہ سامنے لگے شیشے سے ٹکرا کر واپس اس مقام پر ملتی تھیں جہاں دونوں پائپس      ملتے، اس مقام پر دونوں پائپس کی لیزر شعاعیں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی تھیں، مقصد یہ تھا کہ اگر کشش ثقل کی لہروں کے باعث زمان و مکاں کی چادر میں سلوٹیں پڑیں گی تو پائپ کی لمبائی زیادہ ہوجانے اور شیشے کے پھیلاؤ کے باعث یہ شعاعیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے پیچھے لگے detectors پر پڑجائیں گیں اور معلوم ہوجائے گا کہ کوئی کششِ ثقل کی لہر “کھیلتے کودتے”یہاں سے گزری ہے،

اس مقصد کے لئے اِن شیشوں کو انتہائی کم درجہ حرارت پر رکھا گیا تا کہ یہ شیشے کسی اور وجہ سے اپنی جگہ سے تھوڑے سے بھی ہِل نہ سکیں، بالکل اسی طرح کی ایک اور لیبارٹری اس سے 2 ہزار کلومیٹر دور تعمیر کی گئی تا کہ اگر کوئی کشش ثقل کی لہر گزرے تو دونوں لیبارٹریوں سے ملنے والے اعداد و شمار کا موازنہ کرکے ان کے مصدقہ ہونے کا اندازہ لگایا جاسکے(یہ دونوں لیبارٹریز امریکہ  میں واقع ہیں)، 2002ء میں ان لیبارٹریز نے اپنا کام شروع کردیا مگر 2012ء تک انتھک محنت کے باوجود کچھ حاصل نہ ہوپایا، جس کی وجہ سے 2012ء کے بعد ان کو upgrade کرنے کے لئے بند کردیا گیا یہ پراجیکٹ سوچ سے بھی زیادہ مہنگا ثابت ہوا 18 ممالک اس پراجیکٹ کا حصہ بنے ، ستمبر 2015ء میں ان کو اپ گریڈ کرکے اس کا افتتاح کیا گیا ، اپ گریڈ ہونے کے فوراً بعد 14 ستمبر 2015ء کی رات کو دونوں لیبارٹریز نے ایک سیکنڈ سے بھی انتہائی کم وقت میں کشش ثقل کی لہروں کو پہلی بار دریافت کرلیا!۔

جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ہمارے سورج سے 29 اور 36 گنا بڑے دو بلیک ہولز کی ٹکر ہوئی جس کے بعد جو نیا بلیک ہول وجود میں آیا وہ ہمارے سورج سے 62 گنا بڑا تھا، یعنی سورج سے 3 گنا زیادہ ماس ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اس تباہ کن ٹکراؤ کی وجہ سے کشش ثقل کی لہروں میں تبدیل ہوکر کائنات میں پھیل گیا۔ اس کا باقاعدہ اعلان 11 فروری 2016ء کو کیا گیا ، اس اعلان کے ساتھ ہی سائنس کی دنیا میں ہنگامہ برپا ہوگیا، سائنس کے چاہنے والے ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغامات دینے پہنچ گئے ، آئن سٹائن کی سو سال پہلے کی گئی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔اس کو سائنس کی دنیا میں انتہائی بڑی دریافتوں میں سے ایک دریافت قرار دیا گیا۔

لائیگو کے Executive Director ڈیوڈ رِٹز نے اس موقع پر کیا خوب کہا کہ”پہلی بار کائنات ہم سے ہم کلام ہوئی ہے”۔بعد ازاں دسمبر 2015ء میں دوبارہ کشش ثقل کی لہریں دریافت کی گئیں، اب کی بار ڈیڑھ ارب نوری سال دور سورج سے 14 اور 8 گنا بڑے بلیک ہولز کی ٹکر سے 21 گنا بڑابلیک ہول وجود میں آیا۔ اس ٹکر میں ایک سورج جتنا مادہ ایک سیکنڈ سے بھی کم مدت میں کشش ثقل کی لہر بن کر کائنات میں پھیل گیا۔ یہ واقعہ ڈیڑھ ارب  سال پہلے وقوع پذیر ہوا اور اس کی لہریں اب ہم تک پہنچیں۔بعد ازاں جنوری 2017ء اور اگست 2017ء میں دوبارہ لائیگو نے کششِ ثقل کی لہریں دریافت کیں۔ لائیگو کے ساتھ اب وِرگو نامی لیبارٹری نے بھی کام کا آغاز کردیا ہے جوکہ اٹلی میں واقع ہے ۔

آنے والے کچھ سالوں میں چین اور جاپان بھی ایسے ہی منصوبوں کو مکمل کرنے والا ہے ، اس کے علاوہ بھارت نے بھی ایسی لیبارٹری کی تعمیر کا اعلان کردیا ہے ،یورپ اور امریکہ  نے ایسی لیبارٹریز  خلاء میں بنانے کااعلان بھی کررکھا ہےجن کی مدد سے کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ آج سے چند سال پہلے تک ہم صرف Electro-magnetical wavesسے واقف تھے مگر ہم اب Gravitational waves کے نام سےلہر کی ایک اور قسم سے واقف ہوچکے ہیں۔ ذرا سوچئے آج سے سو سال پہلے جب ہم برقی مقناطیسی لہروں سے واقف ہوئے تو ان کے استعمال سے دنیا کو کتنا بدل کر رکھ دیا۔ ہماری کششِ ثقل کی لہروں سے “سلام دعا” ابھی بالکل نئی ہے، ان پر تحقیق اور استعمال سے آنے والے سو سال کتنے مختلف ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ فی الحال لگانا محال ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان لہروں کی دریافت کے ساتھ علم الفلکیات کے ایک نئے دور  “ثقلی فلکیات” (Gravitational Astronomy)کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔  سوال اٹھتا ہے کہ کشش ثقل زمان و مکاں کا حصہ ہے،  تو کیا ان لہروں کو قابو کرنے سے زمان و مکاں پر قابو پایا جاسکتا ہے ؟ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ یہ ثقلی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں تو ان کو استعمال کرتے ہوئے روشنی کی رفتار سے سفر ممکن بنایا جاسکتا ہے ؟ان لہروں کی دریافت کے فوراً بعد بہت سے “معصوم سوالات ” ہمارے ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہے ہیں جن کے متعلق سائنس فی الحال خاموش ہے ، کشش ثقل کی لہریں بلاشبہ کائناتی سفر میں روشنی کی کرن کی طرح نمودار ہوئی ہیں جس کا پیچھا دور حاضر کے سائنسدان ایک نئی صبح کی امید میں کررہے ہیں لیکن یہ تو فقط شروعات ہیں ابھی منزل کوسوں دُور ہے، اِتنی دُور کہ فی الحال اس کو گرفت میں لاتے ہماری سوچ بھی تھک جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”کشش ثقل کی طلسماتی لہریں۔محمد شاہزیب صدیقی

  1. بہت اعلی…اردو میں ایسی معلومات کی ترویج کر کے آپ بہت بڑی خدمت سرانجام دے رہے ہیں. ان شاءالله مستقبل میں اردو زبان جب سائنسی علوم کی آبیاری کے قابل ہو گی تو آپ کا نام بانیوں میں ہو گا جنہوں نے اردو کے لئے سائنس کے دروازے کھولے. جزاک اللہ

Leave a Reply