بوہر کی کامیابی (67)۔۔وہاراامباکر

بوہر کی تھیوری واضح طور پر محض ایک ابتدا تھی۔ اس میں تضادات تھے۔ مثلاً، ایک طرف وہ “ممکنہ مداروں” کو ساکن حالت کہتے ہیں کیونکہ الیکٹران اس طرح behave کر رہے ہیں کہ وہ حرکت نہیں کر رہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ کئی جگہ پر الیکٹران کو “حرکت کی حالت” میں لکھتے ہیں۔ جیسے وہ نیوکلئیس کے گرد مدار میں ہوں تاوقتیکہ وہ کسی کم توانائی کے مدار پر یا زیادہ توانائی کے مدار پر چھلانگ نہیں لگا لیتے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بوہر بیک وقت دو متضاد تصورات کو استعمال کر رہے تھے۔ لٹریچر میں کہا جاتا ہے کہ استعاروں کو آپس میں مکس نہ کیا جائے لیکن فزکس میں ہم جانتے ہیں کہ اگر ایک استعارہ مکمل طور پر درست نہ ہو تو یہ عام ہے کہ اس میں دوسرا (احتیاط سے) ساتھ ملا لیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ تھیوریٹیکل فزکس کے بڑے ناموں کا خاصہ رہا ہے۔

بوہر نے ایٹم کا نیا ماڈل بنا لیا جس میں کچھ نئے کوانٹم آئیڈیا تھے۔ بوہر کے ایٹم پر ابتدائی ردِعمل ملا جلا رہا۔ میونخ یونیورسٹی کے آرنلڈ سمرفیلڈ نے ان کے کام کو سائنس کا بڑا سنگِ میل کہا اور خود ان خیالات پر کام شروع کر دیا کہ اس کا ریلیٹیویٹی سے کیا تعلق ہے۔ آئن سٹائن نے کہا کہ “بوہر کا کام تاریخ کی عظیم ترین دریافتوں میں سے ہے”۔ اور پھر خاص طور پر، ان کے اس پر کئے گئے تبصرے کا ایک حصہ بہت دلچسپ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ بوہر کا ایٹم اپنے وقت کا کتنا بڑا انقلابی خیال تھا۔

آئن سٹائن میں یہ فکری جرات تھی کہ وہ روشنی کے کوانٹا کی پیشگوئی کریں۔ یہ خیال پیش کریں کہ سپیس، ٹائم اور گریویٹی ایک دوسرے میں گندھے ہوئے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا ہیں کہ ان کو بھی اس قسم کے خیال سوجھے تھے لیکن یہ مین سٹریم فزکس سے اس قدر زیادہ دور تھے کہ ان میں یہ ہمت نہیں پڑی کہ ان پر مزید سوچ بچار اور محنت کرتے یا انہیں پبلش کرنے کا تصور بھی کرتے۔

ہمیں کئی اور تبصرے نظر آتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ اس کو پبلش کرنے کے لئے اتنی جرات کیوں درکار تھی۔ یونیورسٹی آف گوٹنگن سے ایک ری ایکشن آیا، “یہ سب کچھ ذہنی کچرا ہے۔ ہم اس کو فزکس نہیں کہہ سکتے۔ یہ فراڈ ہے۔ یہ کام سوڈوسائنس کی واضح مثال ہے”۔ سپیکٹروسکوپی کے ایک ماہر سائنسدان کی طرف سے، “یہ افسوسناک ہے کہ ہم علم کے میدان کو کسی نوجوان کی ذہنی جگالی کے بعد کی گئی قے سے آلودہ کر رہے ہیں۔ اتنی بڑی جہالت اور وہ بھی فزکس کے نام پر؟؟” برٹش فزکس کے بڑے نام لارڈ ریلے نے تبصرہ کیا، “میں اس بات کو ماننے سے انکار کرتا ہوں کہ نیچر اس طریقے سے behave کر سکتی ہے۔ یہ ٹھیک نہیں”۔ اور بعد میں اضافہ کرتے ہیں کہ “لیکن میری عمر کے شخص (ان کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی) کو نئے خیالات کے بارے میں تبصرے میں محتاط ہونا چاہیے”۔ ایک اور برطانوی فزسٹ آرتھر ایڈنگٹن نے، جو اس سے پہلے پلانک اور آئن سٹائن کی فزکس کو “جرمن خبطیوں کی ایجاد” کہہ کر مسترد کر چکے تھے، اس پر بھی ویسا ہی ردِ عمل دیا۔ “کوئی اس لڑکے کو سمجھائے کہ سائنس ایسے نہیں ہوتی”۔

رتھرفورڈ نے بھی منفی ردِ عمل دیا۔ ان کو جو چیز تنگ کر رہی تھی وہ یہ کہ ان کے ساتھی نے کوئی مکینزم نہیں بتایا تھا کہ الیکٹران ویسی چھلانگ کیوں لگاتے ہیں جو بوہر تجویز کر رہے تھے۔ اگر الیکٹران ایک مدار سے دوسرے میں چھلانگ لگا رہا ہے تو یہ عمل ہو کیسے رہا ہے؟ اس چھلانگ کی وجہ کیا ہے؟ طریقہ کیا ہے اور اس دوران الیکٹران راستہ کیا اختیار کرتا ہے؟

رتھرفورڈ کے اعتراضات وزنی تھے۔ یہ اس معاملے کی اصل جڑ تھے۔ اور ایسا کوئی مکینزم کبھی بھی نہیں ملنا تھا۔ اور جب کوانٹم تھیوری میچور ہو کر جنرل تھیوری آف نیچر بنی تو یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے سوالات کا کوئی جواب ہی نہیں اور ان کی ماڈرن سائنس میں کوئی جگہ نہیں۔ “یہ بس ایسے ہی ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فزکس کی دنیا کو بوہر، پلانک اور آئن سٹائن کے خیالات کے ٹھیک ہونے پر قائل کرنے میں 1913 سے 1923 کے درمیان کا عرصہ لگا۔

بوہر کی تھیوری کا ہائیڈروجن سے بھاری عناصر پر اطلاق کر کے بوہر اور دوسروں کو پتا لگا کہ عناصر کو ایٹمی وزن کے بجائے ایٹمی نمبر سے اگر ترتیب دیا جائے تو یہ کیمسٹری کے پیرئیوڈک ٹیبل کی کچھ غلطیاں دور کر دیتا ہے۔ ایٹامک وزن میں پروٹون اور نیوٹرون دونوں شامل ہوتے ہیں جبکہ ایٹامک نمبر میں صرف پروٹون۔ اگرچہ عام طور پر جتنے پروٹون زیادہ ہوں، اتنے ہی نیوٹرون بھی لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اور اس وجہ سے دونوں ترتیبوں میں معمولی فرق رہ جاتے ہیں۔ بوہر کی تھیوری دکھاتی تھی کہ پیریوڈک ٹیبک کی ترتیب کا ٹھیک پیرامیٹر ایٹمی نمبر ہے کیونکہ اس سے طے ہوتا ہے کہ کسی عنصر میں الیکٹران کتنے ہیں اور نتیجے میں اس کی کیمیکل خاصیت کیا ہے۔ مینڈیلیو کے پچاس سال سے زیادہ پرانے ٹیبل کی وضاحت اب سائنس سے کی جا سکتی تھی کہ یہ پیرئیوڈک ٹیبل آخر کام کیوں کرتا تھا۔

کوانٹم خیالات جب جنرل سٹرکچر میں تبدیل ہوئے تو انہوں نے نیوٹن کے قوانین کی جگہ لے لی۔ اب فزکس کے سائنسدان مساوات لکھ سکتے تھے جن سے اصول طور پر تمام ایٹموں کا behavior سمجھا جا سکتا تھا۔ اگرچہ زیادہ تر کیسز میں ان کی کیلکولیشن کے لئے سپرکمپیوٹر کی ایجاد کا انتظار کئے جانا تھا۔ لیکن بوہر کے ایٹامک نمبر کے خیالات کی اہمیت کو ٹیسٹ کرنے کے لئے سپرکمپیوٹر کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ جس طرح مینڈالیو نے کیا تھا، بوہر نے بھی ان عناصر کی پیشگوئی بھی پہلے سے کر دی جو ابھی دریافت نہیں ہوئے تھے۔

اس سے کچھ ہی عرصے کے بعد ایک عنصر 1923 میں دریافت ہوا جو ہیفنیم تھا۔ ایٹامک وزن کے نہیں، بلکہ ایٹامک نمبر کی بنیاد پر اس کی خاصیتوں کی درست پیشگوئی کی جا سکتی تھی۔ اس کے بعد کسی فزسٹ یا کیمسٹ کو شک نہیں رہ گیا کہ بوہر کی تھیوریاں درست تھیں۔

اس سے کچھ دہائیوں کے بعد بوہر خود بھی پیرئیوڈک ٹیبل کا حصہ بن گئے۔ عنصر 107 کی دریافت 1997 میں ہوئی اور اس کا نام بوہریم رکھا گیا۔ اور اسی سال ان کے کبھی استاد اور کبھی نقاد کا نام بھی پیرئیوڈک ٹیبل پر آ گیا جب عنصر 104 رتھرفورڈیم کہلایا گیا۔

بوہر کے خیالات درست تھے لیکن اگلا بڑا سوال یہ تھا کہ آخر یہ خیالات درست کیوں تھے؟ فزکس کو اب کوانٹم تھیوری کی تلاش تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply