• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نیا سعودی عرب اور نیا پاکستان- نیک خواہشات اور ممکنہ خدشات۔۔نذر حافی

نیا سعودی عرب اور نیا پاکستان- نیک خواہشات اور ممکنہ خدشات۔۔نذر حافی

شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی ایک اہم شخصیت ہیں۔ آپ 31 اگست 1985ء کو  ریاض میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ہاں پیدا ہوئے۔ اس وقت آپ سعودی عرب کے ولی عہد، نائب صدر وزراء كابينہ، وزیر دفاع، سياسی اور سکیورٹی امور کونسل کے صدر اور سعودی اقتصادی اور ترقياتی امور کی کونسل کے بھی صدر ہیں۔ آپ کا ویژن 2030ء پرانے سعودی عرب کی جگہ نئے سعودی عرب کے جنم کی ایک  بڑی کوشش ہے۔ آپ کے نزدیک گذشتہ زمانے میں سعودی عرب نے وہابیوں اور تیل پر سرمایہ کاری کی، جو کہ اب سودمند نہیں۔ چنانچہ شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں سعودی عرب کے اندر وہابی دین کی سرکاری حیثیت بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا  ہے۔ [1][2] [3] اس سے پہلے انہوں نے میڈیا پر یہ بھی کہا تھا کہ وہابی امریکہ اور یورپ کی ضرورت تھے۔ وہابیوں کو افغانستان میں لڑوانے کیلئے ان پر ہم نے سرمایہ کاری کی تھی۔[4] [5][6] وہابیوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ وہ سعودی عرب میں سیکولرزم اور آزاد خیالات کی ترویج و اشاعت کیلئے بھرپور انداز میں سرگرمِ عمل ہیں۔ اپنے اہداف تک پہنچنے کیلئے انہوں نے امریکہ و مغرب کے تقاضوں کے مطابق ہی اسرائیل سے تعلقات کی بحالی اور ملک میں جوئے، شراب نیز ڈانس کلبز وغیرہ کو بھی ایک عام سی بات بنا دیا ہے۔

ان کے نئے ویژن میں سرمایہ کاری کے تقریباً تیرہ بڑے پروگرام شامل ہیں۔ اگر ان منصوبوں پر عمل ہو جائے تو سعودی عرب پرانی وہابیت اور تیل کی تجارت سے بے نیاز ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اب سعودی عرب کو وہابیت اور تیل کی تجارت کے نئے ماڈلز درکار ہیں اور ان پر سرمایہ کاری کیلئے متعدد فنڈز بھی مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے بوئنگ، فیس بک، سٹی گروپ، ڈزنی، بینک آف امریکہ اور بی بی کمپنی کو باہم مربوط کرنے کیلئے تین سو ارب ڈالر سے زائد اثاثوں پر مشتمل ایک پبلک انویسٹمنٹ فنڈ بھی قائم کیا ہے، یہ فنڈ دنیا کے بڑے ریاستی انویسٹمنٹ فنڈز میں سے ایک ہے۔

دمِ تحریر نئے پاکستان کے حکمران نئے سعودی عرب میں سرکاری دورے پر ہیں۔ پاکستانی وفد میں آرمی چیف،  وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد، گورنر سندھ عمران اسماعیل، گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان، سینیٹر فیصل جاوید خان اور صوبائی وزیر علیم خان، معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل اور وزیرِاعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی سمیت متعدد شخصیات شامل ہیں۔

سعودی عرب کے نئے ویژن کے مطابق پاکستان کو پچاس کروڑ ڈالر دینے کے مختلف معاہدے کئے گئے ہیں۔ یہ معاہدے ثقافتی، تجارتی اور سکیورٹی کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ویژن 2030ء کے تحت سعودی عرب کو ایک کروڑ ورکروں کی ضرورت ہے، جن میں سے زیادہ تر پاکستان سے لئے جائیں گے۔ محتاط حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے پاس تو ویژن 2030ء موجود ہے، لیکن پاکستان کے پاس محض  گدائی اور اطاعت کے علاوہ کوئی اور ویژن نہیں۔ اس لئے چند نئے اور ممکنہ سنگین خطرات نے پاکستان کو گھیر لیا ہے۔ ان ممکنہ بھیانک خطرات میں سے چند ایک کا ذکر ہم کئے دیتے ہیں:

۱۔ ہندوستان اور اسرائیل کے سعودی عرب سے گہرے تعلقات ہیں۔ جس طرح سعودی عرب نے فلسطین کو اسرائیل کی گود میں ڈال دیا ہے، اسی طرح پاکستان بھی کشمیر کے ساتھ غیر محسوس انداز میں یہی کرے گا۔
۲۔ اس کے بعد افغانستان اور پاکستان میں فرقہ واریت، دہشت گردی، خودکُش دھماکوں، شدت پسندی  اور ٹارگٹ کلنگ کو عروج پر پہنچا کر لوگوں کو دین سے بیزار اور سیکولر و آزاد خیالی کی طرف مائل کیا جائے گا۔ دین کے نام پر ایسی کارروائیاں کی جائیں گی کہ جن سے دینی قوتیں اور دینی طبقات بدنام ہو کر دیوار کے ساتھ لگ جائیں گے۔
۳۔ ماضی میں جہاد افغانستان کی طرح اب پھر پاکستان اپنے لوگوں اور فوج کو یمن اور دیگر مناطق میں سعودی و امریکی و یورپی مفادات کی جنگ کیلئے بھیجے گا۔ یوں ملک ایک مرتبہ پھر دوسروں کی جنگوں کا ایندھن بنے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۴۔ امریکی و یورپی اقتصاد کیلئے سی پیک ایک بڑا خطرہ ہے۔ چنانچہ ہماری تجوریاں بھرنے کے بعد سی پیک پر برائے نام کام ہوگا۔ ایران گیس لائن کی طرح سی پیک کے پروجیکٹ کو اتنا محدود کر دیا جائے گا کہ چین کی اس سے دلچسپی ختم ہو جائے گی۔
۵۔ ملک میں آزاد خیالی، فحاشی اور عریانی کے ایک نئے دور کے آغاز کے ساتھ ساتھ مزاحمتی آوازوں کو پہلے سے کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ دبایا جائے گا، یوں مسنگ پرسنز کی تعداد اور ٹارگٹ کلنگ میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہ ہو، تاہم ہمارے موجودہ وزیراعظم صاحب بھی کسی زمانے میں یہ کہا کرتے تھے کہ جب آپ دوسروں سے پیسے لیتے ہیں تو وہ آپ کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ اس سے آپ کی عزت نفس چلی جاتی ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہم اپنے عزیز ہم وطنوں کو یہ پیغام دے کر اپنا کالم ختم کر رہے ہیں کہ خواہشات ہمیشہ نیک ہونی چاہیئے اور خدشات سے بھی نظریں نہیں چرانی چاہیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] https://b2n.ir/n01231
[2] https://b2n.ir/p74597
[3] https://b2n.ir/s76186
[4] https://urdu.geo.tv/latest/182109-
[5] https://www.nawaiwaqt.com.pk/30-Mar-2018/795328
[6] https://dailypakistan.com.pk/31-Mar-2018/756884

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply