• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا اور پاکستانی تعلیمی ادارے ۔۔۔ معاذ بن محمود

کرونا اور پاکستانی تعلیمی ادارے ۔۔۔ معاذ بن محمود

جہاں ایک جانب دنیا بھر میں کرونا ریلیف پیکج کا اعلان کیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب پاکستان میں every crisis is potential opportunity کے نام پر عمل کر کے اپنے ہی لوگوں کی کھال اتارنے کی بھرپور مہم پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ حکومت حاکم کیاپنی نہ بھی ہو، سرکاری و نجی ادارے جہاں کسی قسم کی خلائی مخلوق کا ہاتھ نہیں جم پاتا وہاں بھی حکومت ناکام ٹھہرتی ہے۔ اسیبنیاد پر لوگ سیاستدانوں سے بدظن ہونے لگتے ہیں تو ہم یاد دہانی کرا کرا کر تھک جاتے ہیں کہ آخر انہیں لایا کون تھا۔

پاکستان میں کرونا اس قدر ہانیکارک ثابت نہیں ہوا جس قدر اس کے نام پر ہونے والی لوٹ مار۔ اس وقت تعلیمی ادارے کروناکے نام پر پیسہ بٹورنے کی مہم پر ہیں۔ چونکہ پوچھنے والا کوئی ہے نہیں لہذا میں اور آپ نقار خانے میں طوطی کا کردار ہی ادا کر سکتےہیں۔

تعلیمی اداروں کی نقب زنی کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ کلاسز کے اوقات کو صبح اور شام میں تقسیم کر دینے کے بعد صبح والی کلاسز کاحجم کر کے شام والی کلاسز میں انرولمنٹ بڑھا دی گئی ہے۔ شاید ارباب اختیار کے نزدیک کرونا دن کی نسبت شام میں زیادہ پھلتاہو گا۔ چلو یہ دلیل بھی زبردستی منوا ہی لیتے مگر آن لائن کلاسز میں کرونا پھیلتا ہے تو آخر کیسے؟ یاد رہے، شام کی کلاسز کی فیس صبحکی نسبت زیادہ ہے۔

پھر سے سنیے۔ آن لائن کلاسز ہیں۔ دن میں کم شام میں زیادہ سیٹیں اور شام کی سیٹوں کی فیس زیادہ۔ ہے کوئی پوچھنے والا؟؟؟

میڈیکل کلاسز کے داخلے مکمل نہیں ہوئے۔ نان میڈیکل پر ایپلائی سب نے کیا ہوا ہے۔ اب ہونا یہ ہے کہ میڈیکل میں داخلہ ملنےپر یہ تمام سیٹس خالی رہیں گی اور انہیں شام میں منتقل کر کے زیادہ فیس بٹوری جائے گی۔ اس ضمن میں ایک مثال زرعی یونیورسٹیفیصل آباد ہے جہاں دن کی فیس ۳۸۰۰۰ جبکہ شام میں وہی کلاسز ۹۰۰۰۰ روپے سمسٹر کے حساب سے وصول کی جا رہی ہیں۔طلباء پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ شام کی کلاسز میں داخلہ لیں کہ صبح میں ممکن نہیں۔ بندہ پوچھے آن لائن کلاسز میں تو کرسیاں بھی نہیںچاہئے ہیں فیس بڑھانے کی تک کیا ہے؟ اگر سمسٹر فیس آن لائن کلاسز کے لیے بھی کم سے کم بھی اسی تا نوے ہزار روپیہ ہے توعام آدمی کرے تو کیا؟

بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کا معاملہ یہ ہے کہ طلباء سے لیب، میڈیکل، لائبریری اور متفرقات کی مد میں تمام چارجز ملا کر ۸۰۰۰۰جرمانہ ہر طالب علم پر عائد کیا جا رہا ہے۔ بحریہ کے باقی کیمپس بھی اسی فی سٹرکچر پر پیسہ بٹورنے میں گامزن ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی لوٹ مار اللہ کے فضل سے خوب جاری ہے۔ ریگولر فیس ۸۰۰۰۰ جبکہ ہاسٹل فی جو کم از کم۵۰۰۰۰ ہے وہ اس کے علاوہ۔ بھئی آپ سیدھا سیدھا کہہ کیوں نہیں دیتے کہ غریب کے بچے پر تعلیم حاصل کرنے پہ پابندی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

سرکاری ہو یا نجی قریب تمام جامعات ہی اس حرام کاری پر عمل پیرا ہیں۔ آواز اٹھانے والا کوئی ہے نہیں۔ تمام احباب سےگزارش ہے کہ اس معاملے پر آواز اٹھائیں ورنہ ہماری آپ کی آنے والی نسلیں ایک جاہل پاکستان میں رہنے پر مجبور رہیں گی۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کرونا اور پاکستانی تعلیمی ادارے ۔۔۔ معاذ بن محمود

Leave a Reply