سوچتی ہوں گلزار کو الہام ضرورہوتا ہے جو وہ آنے والے وقت کی چاپ سُن لیتا ہے۔آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا گہرہ سبزہ، سُرخ،بسنتی،نیلے،پیلے پھول اور گھاس پر بیٹھا دلفریب پروں والا اجنبی سا پرندہ جسے کہیں بچپن میں دیکھتے تھے۔اندر کہیں ہوک اٹھی تھی۔آنکھیں گیلی ہوئی تھیں۔ خوشی اور دکھ دونوں کیفیات کی بیک وقت زد میں تھی۔میرے خوبصورت پرندے واپسی کا کتنا بڑا تاوان لیا ہے تم نے؟آسمان انسانوں سے ہوائیں اور فضا ئیں شوروغل سے خالی ہیں۔زندگی منجمند ہے۔کہیں اگر منظر میں حسن ہے تو وہیں خوف اور یاس کا زہر بھی گھلا ہوا ہے۔ اندر کے ہر مو،ہرمسام سے صدائے احتجاج ہے۔میں گھر میں نہیں بیٹھ سکتی ہوں۔منیرہ شمیم کی شئیر کی ہوئی گلزار کی نظم نے گویا کلیجہ مٹھی میں جکڑ لیا ہے۔
سب کومعلوم ہے باہر کی ہوا قاتل ہے۔۔
یونہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے
زندگی ایک نعمت ہے اِسے سنبھال کے رکھ
قبرستانوں کو سجانے کی ضرورت کیا ہے
دل کے بہلانے کو گھر میں وجہ کافی ہے
یونہی گلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے
نظم کے آخری شعروں کو پڑھتے ہوئے جی چاہا تھا کہ گلزار سے اتنا ضرور کہوں گلزار جب گلیوں میں بھٹکنے کے چسکے اور لتیں لگ جائیں تو گھر میں ٹکنا مشکل ہوتا ہے۔مشقت کے گودے سے بھری ہڈیوں کو آرام کی لطافت راس نہیں آتی۔بیچاریاں چٹخنے لگتی ہیں۔
پھر دیر تک سوچیں تھیں۔ لاؤنج سے آتی ایک اور گھائل کرنے والی آوازنے اداسی بڑھا دی تھی۔
شہر خالی،جادہ خالی، کوچہ خالی،خانہ خالی
جام خالی،سفرہ خالی،ساغر و پیمانہ خالی
چلواللہ کا شکر ہے گھر خالی نہیں۔ہاں محمود شام کی حمدیہ نے رُلا دیا ہے۔
درس گاہوں پر ہیں غالب و حشتیں ویرانیاں
بند ہیں رحمت کے در ہم کھٹکھٹا سکتے نہیں
سچی بات ہے ہمیں تو اِس نیو ورلڈ آرڈر کے قصابوں نے گذشتہ دہائیوں سے جس خوف اور عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔اس نے ہی ہمارا ناس مارا ہوا تھا۔ اب بیچ میں اِس کمبخت مارے کرونا ورلڈ آرڈر کی کمی رہ گئی تھی کہ یہ بھی اپنا لُچ تلنے آ گیا۔ اب بندہ پوچھتا ہے کہ کیا یہ بھی اِن قصابوں کی کوئی سازش ہے۔ویسے تو سپر پاور کے بڑے گماشتے بذات خود اعتراف کرتے ہیں کہ جب وہ کوئی کام کرتے ہیں تو اس کے ہونے کا جواز پیدا کرلیتے ہیں۔اور جب دنیا اُن کے الفاظ کی بھول بھلیوں میں اُلجھ رہی ہوتی ہے۔ان کی ترجیحات کا رخ بدل جاتا ہے۔وہ یعنی (امریکی)تاریخ کے اداکار ہیں اور لوگ (یعنی دنیا)صرف یہ جاننے میں ہی لگی رہتی ہے کہ ہم کر کیا رہے ہیں۔ یا پھر کائنات کی سب سے بڑی سپر پاور اپنے بلونگڑوں بچو نگڑوں کو تھوڑا سا جھٹکا دے رہی ہے کہ پھٹے پڑ رہے تھے۔ فلسطین،عراق،شام، افغانستان میں ان کے عزائم نے کیا کیا نہ ستم ڈھائے۔
شام کا وہ عظیم انقلابی شاعر جس کی نظم ”میں دہشت گردی کا حامی ہوں۔“I am with terrorism۔بے اختیار یاد آگئی ہے۔
جب تک نیو ورلڈ آرڈر
امریکہ اور اسرائیل کے درمیان منقسم رہتا ہے
یہ میرے بچوں کا خون کرتا رہے گا
ان کے ٹکڑے کتوں کے آگے ڈالتا رہے گا
جب تک یہ نئی دنیا قصاب کی گرفت میں ہے
میں دہشت گردی کا حامی ہوں اور رہوں گا
ابھی تو شاعر نائن الیون کی تباہ کاریاں دیکھنے سے پہلے ہی رُخصت ہوگیا تھا۔فلسطینیوں کے انتفادوں نے ہی اُس کے تن من میں آگ لگارکھی تھی جس کے اظہار کی انقلابی گونج مشرق وسطیٰ کیا پوری دنیا میں بلند ہوئی تھی۔امریکہ کے ایونوں میں کھلبلی مچی تھی۔
جیتا ہوتا تو نائن الیون پر جانے کتنے بین لکھ لکھ مارتا کہ بغداد کےہسپتالوں کے مناظر نے مجھ جیسی کا حشر نشر کردیا تھا۔ انسانیت بستروں پر لیٹی بلک رہی تھی۔جی چاہتا تھا امریکہ کو کچا چبا جاؤں۔ آگ لگادوں۔کمزور کی اوقات کیا اس کے غُصے کی حقیقت کیا۔سارا رولا طاقتوں کی سپر میسی کا۔ایک دوسرے پر الزام تراشیاں۔دو تجارتی حریف۔حال کی سُپر پاور اور مستقبل کی بظاہر جگہ لیتی طاقت۔کِس کِس کی منصوبہ بندی، پہل کہاں سے ہوئی؟کِس نے کس کو نشانہ بنایا؟حقائق تو کھل جائینگے تھوڑا وقت لگے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ طاقت کے اِس کھیل میں اپنے لوگوں کو مروانا بھی تو پروگرام کا حصّہ ہی ہوتا ہے۔
یہ تو ہوئیں دل اور دنیا کی باتیں۔اب کچھ گھر کی باتیں بھی سُن لیں۔
کرونا کی برکتیں صبح تو دس بجے سے پہلے نہیں ہوتی ہے۔ ہماری کچن میڈ مسرت بھی گھر والوں کے ساتھ ہی سوتی اور اٹھتی ہے۔کچن میں گئی۔برتنوں کا کھلارا سنک اور سلیبوں پر حسب معمول بکھرا پڑا تھا۔گھر کے بچے رات بھر تو مستیاں کرتے رہتے ہیں۔میرا بھی اِن دنوں اس کی مدد کرنے کا معمول بنا ہوا ہے کہ سب کچھ دھو دھلا کر برتن ڈبے ٹھکانوں پر سیٹ کردیتی ہوں۔چلو بیچاری خوش ہوجاتی ہے۔گیارہ بجے کچن کا چکر لگا۔ مسرت نہیں تھی۔دل دھڑکا۔خدایا خیر ہو۔کیونکہ ذمہ دار لڑکی ہے۔اس کے کمرے کی طرف بھاگی۔ گورے چٹے گلابی چہرے کو نڈھال دیکھ کر تو جیسے پاؤں تلے سے زمین ہی سرک گئی۔گھبرائے لہجے میں پوچھا۔کیا ہوا ہے؟وہ ذرا پیریڈز ہوگئے ہیں۔
”اف شکر پروردگار تیرا“سکون و طمانیت کی لہر سارے سریرمیں دوڑ گئی۔ممتا سے لہجہ بوجھل ہوگیا۔آرام کرو۔یہ مسئلہ تو اس کے ساتھ تھا۔ شکر الحمداللہ کرتی کچن میں آئی۔بہو بھی آچکی تھی۔ اُسے بتایا۔ٹرے میں اس کے لیے انڈا چائے سجارہی تھی کہ میاں جی خیر سے وارد ہوئے۔بیوی بہو دونوں کو کام کرتے دیکھ کر بولے۔
”مسرت کہاں ہے؟“
”اس کی طبیعت ذرا ٹھیک نہیں۔“
اب سوالوں کی لام ڈور شروع ہوگئی۔ بخار ہے کیا؟گلا تو خراب نہیں۔ چھینکیں تو نہیں آرہی ہیں۔ڈاکٹر عمر کو فون کرو۔سوال پر سوال۔ اف میرے نتھنوں میں خارش ہونے لگی تھی۔ جھلّا کر میں نے کہا۔
”کمرے میں جاکر بیٹھیں۔فکر کی کوئی بات نہیں۔“
کیسی اوندھی عورت ہو۔کِس مزے سے کہہ رہی ہو فکر کی بات نہیں۔ چھوٹے بچے ہمہ وقت اس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔
اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے چلائی۔
بڈھے ہوگئے ہوپر عقل نہیں آئی۔اُسے پیریڈز ہوگئے ہیں۔درد ہوتا ہے۔
اوہو اچھا۔
کان لپیٹ کر کھسکنے میں ہی عافیت جانی تھی۔
ابھی گھنٹہ ہی گزرا ہوگا۔چھوٹا بیٹا باہر سے آیا۔کچن میں ماں اور بیوی کو دیکھ کر بولا۔مسرت کدھر ہے؟
ایک تو اس کا سنگھ(گلا)اتنا بڑا ہے کہ عام لہجے میں بات بھی کرے تو لگتا ہے جیسے لڑرہا ہے۔یوں بھی بیوی کچن میں ہو اُسے اُچھل پیڑ ے (بے چینی)لگ جاتے ہیں۔شکر ہے کہ لڑکی بڑی بیبی ہے۔وہی باپ جیسے سوالوں کا سلسلہ۔ وہی خدشات۔
غصّے سے مجھے پھر چلّانا پڑا تھا۔اُلّو کے پٹھے ڈنگر ہو تم۔ تین بچوں کے باپ ہو۔کرونا تمہارے اعصاب پر سوار ہوگیاہے۔مت ماری گئی ہے۔خرابی طبیعت کا کوئی دوسرا امکان تمہارے بھیجے میں ہی نہیں آرہا ہے۔دفع ہوجاؤ۔پیریڈز ہوگئے ہیں اُسے۔یا اللہ یہ ہماری مسرت کے پیریڈز تو آج گھر کا اہم ٹاک شو بن گیا ہے۔
مجھے اپنا وقت یاد آیا تھا۔ اماں ابّا یاد آئے تھے۔مسرت جیسا ہی حال ہوتا تھا۔ ابّا لیٹے دیکھ کر تشویش سے اماں سے کہتے یہ کیوں لیٹی ہوئی ہے۔اماں کہتیں اس کے پیٹ میں درد ہے۔اچھا تو میں اسے ڈاکٹر کے پا س لے جاتا ہوں۔ امّاں اپنے ماتھے پر دو ہتڑ سا مارتیں اور کہتیں۔
اللہ ایس سودائی دا کی کران(اس احمق کا کیا کروں)یہ مرد لوگ اتنے گاؤدی کیوں ہوتے ہیں۔یا پھر کرونا کے سوا ہمیں کچھ اور سوجھ ہی نہیں رہا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں