دلّی میں دو سال فرنچ پڑھنے کے بعد جب مجھے اِس زبان سے مزید قربت ہوئی، تب میرے اندر ایک جنون پیدا ہوگیا کہ ہر پل اِسی زبان کو بولتا رہوں۔ دراصل اگر زبان نہ بولی جائے تو مطلب یہ نکلتا ہے کہ اُس پر عبور حاصل نہیں ہے۔ اِس تھیوری کا علم مجھے کئی سالوں کے بعد ہوا جب میں نے فرنچ ہی میں ماسٹرز کیا۔
فرنچ سیکھنے کے لئے ذاتی عمل میں مَیں نے کوئی کسرنہ چھوڑی تھی- جنون کا یہ عالم تھا کہ روز آٹھ سے دس گھنٹے میں جم کر مُشقّت کرتا تھا۔ دوستوں اور احباب نے ٹوکا بھی کہ“اتنی محنت سے توآئی اے ایس نِکل جائیگا۔ کہاں زبان کے پیچھے پڑے ہو؟”
مگر مجھے شاہی نوکر بننے کا شوق نہ تھا بلکہ ایک نئی زبان، نیا ادب اور نئی دُنیا کو معائنہ کرنے اور دورہ کرنے کی تَمنّا تھی- دراصل میں نے بچپن ہی میں شاہی افسروں کو لالو پرساد یادو کے سامنے پنکھا جھلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اوپر سے کچھ اَکڑ میرے خون میں بھی تھی۔ میں نے خود سے کہا کہ یہ تو مجھ سے نہ ہو پائے گا۔ خیر آئی اے ایس کی تیاری نہ کرنے کا بہانہ بھی اچھا تھا۔ اوپر سے خاندانی مسلمان ہونے کے ناطے بقول معروف مصنف احمد علی کے کچھ کاہلیت کا بھی شکار تھا۔
فرنچ کا بھوت جب سوار ہوا تو والدین بھی پریشان تھے۔ انہیں سمجھ میں نہ آیا کہ میرا دماغ کیسے ٹھیک کریں۔ والدہ کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر بنوں جب کہ والد نے کبھی کسی پروفیشن پر زور نہیں دیا لیکن فرنچ کے خلاف تھے۔ انہوں نے مجھے ایک بار سختی سے کہا کہ اگر فرنچ میں وقت برباد کروگے تو تمہارا وظیفہ بند ہو جائیگا۔ رشتہ داروں کو بھی سمجھ میں نہ آیا۔ وہ ہنس پڑتے۔ کسی نے بھی مجھے سنجیدگی سے نہ لیا۔ جب یہ سلسلہ کچھ سالوں تک چلتا رہا اور میں اپنی من مانی کرتا رہا تب والدین نے مجبوراً مجھ پر بھروسہ کیا۔ انہوں نے سوچا کہ شاید فرنچ ہی میں میں کچھ تیر مار لوں۔
فرنچ کی طرف میں مائل اِس لئے بھی ہوا تھا کیونکہ اس بیرونی زبان کو دلّی میں سیکھنا آسان تھا۔ آج سے بیس سال قبل فرنچ سیکھنے کا دلّی میں ایک زبردست کریز تھا اور میرے خیال سے وہی کریز آج بھی موجود ہے۔ لیکن کمی تھی تو ماحول کی۔ ایسے ماحول کی جہاں لوگ فرنچ بولتے ہوں۔ ہندوستان ہی میں کوئی ایسی جگہ مل جائے تو پھر کیا بات تھی۔
دلّی کے دیسی فرنچ سَرکَل میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر فرینچ بولنے میں روانی چاہیے تو پونڈی چیری میں قیام ضروری ہے۔ چونکہ پونڈی چیری میں پہلے فرنچ آئے تھے اور بعد میں انگریز، فرانسیسیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں مستقل طور پر مقیم تھی۔ قیاس تھا کہ اُن کی آبادی تقریباً دس ہزار کے قریب ہوگی۔ جب پونڈی چیری1962میں فرانسیسی حکومت سے آزاد ہوا، تب وہاں یہ پیشکش کی گئی کہ جو لوگ فرنچ شہریت چاہتے ہیں، اُن کے لئے یہ آخری موقع ہے۔ لہٰذا لوکل آبادی میں سے ایک چھوٹا سا حصّہ فرنچ بن گیا جسے“فرنچ پونڈی”کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُن کی مادری زبان تو تمل ہے لیکن فرنچ سکول میں جانے سے اُن کی مہارت فرنچ پر زیادہ تھی اور تمل پر کم۔ یہ بھی قصّہ مشہور تھا کہ پونڈی چیری کے رکشہ والے بھی فرّاٹے سے فرنچ بولتے ہیں۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ شراب کے نشے میں ٹُل ہونے پر وہ فرنچ کے کچھ الفاظ بُدبُداتے یا زیادہ نشے کے عالم میں ژند بافی میں مُبتلا ہوتے ہیں۔ فرنچ میں اُن کے مُنہ سے وِیاں (آؤ) یا سا وا؟ (ٹھیک ہے؟) کے علاوہ اور کچھ نہ نکلتا تھا۔
پونڈی چیری جانے سے قبل مجھے سب سے زیادہ فکر قیام گاہ کی تھی۔ میں نے اِس سلسلے میں تحقیق کرنا شروع کی ۔ فرنچ کلاس کا ایک ساتھی ہیمَنت جو کہ مغربی دلّی کا باشندہ تھا وہ بھی پونڈی چیری جانے کو تیار ہو گیا۔ اُس نے یہ معلوم کیا کہ وہاں سری اور بِندو آشرم میں ہوسٹل دستیاب ہو سکتے ہیں۔ کرایہ کافی سستا تھا۔ کینٹین کی بھی سہولت تھی۔ لیکن وقت کی سخت پابندی تھی۔ رات میں ۹ بجے سے پہلے ہوسٹل واپس آنا تھا۔ ہیمنت کے ہمراہ میں نے بندو آشرم میں ہوسٹل کے لئے درخواست بھیجی۔ مجھے وہاں جگہ نہیں مل پائی لیکن ہیمنت ایک کمرہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔
Page 1
میری درسگاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ایک کلاس میٹ سلام، مدراس میں مقیم تھا۔ وہاں اُس کی نئی نوکری لگی تھی۔ یہ انکشاف جامعہ کے ہی ایک ساتھی اقبال نے کیا ۔ میں نے فوراً سلام کو اُس کے دفتر کے لینڈ لائن پر فون کیا اور اپنے آنے کا پروگرام بتایا۔ سلام سے میری بس واقفیت تھی، ہم دوست نہیں تھے۔ وہ مجھ سے کم از کم دس سال بڑا ہوگا۔ سر پر بال نہ ہونے کے برابر تھے۔ سیاہ رنگ، بھاری بھرکم بدن، کُرتے کے اندر رئیسانہ توند، اور بے انتہا معصوم شکل کا مالک تھا۔ میری آواز سُنتے ہی وہ مجھے پہچان گیا اور بہت خوشی کے ساتھ اُس نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔
مدراس کے لئے روانہ ہونے سے پہلے اُس نے مجھے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور اِسٹیشن سے کون سی بس لینی ہے اُس کے بارے میں تاکید کی۔ مدراس پہنچ کر جب میں ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل کر بس اسٹینڈ کی طرف گیا تو میرے پرخچّے اُڑ گئے۔
زبان تو مختلف تھی ہی جس کا مجھے سر سے پیر تک کوئی علم نہیں تھا، حتّی کہ بس کے نمبر بھی تمل میں تھے۔ نہ کچھ سمجھ سکتا تھا نہ ہی کچھ بول سکتا تھا۔ مجھے تب یہ بات سمجھ میں آئی کہ سلام مجھے بس کے نمبر کیوں نہیں بتا رہا تھا۔ اُس نے ایک علاقے کا نام بتایا تھا۔ اُسی نام کو میں نے ایک بس کے کنڈیکٹر سے دُہرایا۔ اُس نے ایک بس کی طرف اِشارہ کیا کہ وہ جائے گی۔ میں لپک کر اُس میں آگے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بَس کے اندر مجھے تھوڑا سا خوف محسوس ہوا۔ میرے علاوہ کوئی بھی نارتھ انڈین نہیں تھا۔ بیشتر لوگوں کی نظریں میرے اوپر جمی ہوئی تھیں۔
سلام کے یہاں میں وقت سے قبل پہنچ گیا تھا۔ اُس نے میرا پُرزور استقبال کیا۔ مجھے ایسے چمٹا یا کہ نہ جانے کتنی گہری دوستی ہو۔ سلام کا فلیٹ ایک دفتر نُما فلیٹ تھا۔ اُس نے اپنے رہنے کا انتظام وہیں کر لیا تھا۔ ایک پرائیویٹ کمپنی میں وہ سیلس میں مدراس کا ہیڈ تھا۔ دفتر بہت معمولی تھا اور فلیٹ بھی۔ کمپنی بالکل نئی معلوم ہوتی تھی۔ سلام سے میں پوچھ بھی نہیں سکا کہ وہ کس چیز کی فروخت کرتا ہے۔
سلام نے کونے میں پڑے ہوئے توشَک کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا: ”یہ تمہارا بستر ہے۔ آرام سے چند دنوں تک یہیں رہو۔”
”چند دنوں تک؟ مجھے کل صبح ہی پونڈی چیری جانا ہے”۔ میں نے جواب دیا۔
سلام بڑا حیران ہوا کہ میں ایک دو دِن مدراس میں آرام نہیں کرنا چاہتا۔
اگلے روز پہلے پہر میں بَس لیکر میں پونڈی چیری پہنچ گیا۔ اِس نئے شہر میں کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ بس اڈّے سے اُتر کر میں ایک کشمکش میں تھا کہ کدھر جاؤں اور کس طرح سے کرایہ کا کمرہ ڈھونڈنے کا کام شروع کروں۔ ایک دُعا پڑھی اور چاروں طرف ایک سرسری نگاہ دوڑائی۔
میں نے سوچا کہ ایک رِکشہ لے کر شہر کی جانب جایا جائے۔ رکشے پر بیٹھنے کے بعد میں ہر مکان کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں لُونا موٹر سائیکل پر سوار ایک جوان شخص نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کسی چیز کی تلاش میں ہوں۔ میں نے اُسے کہا کہ رہنے کے لئے ایک کمرے کی تلاش ہے۔ ہماری باتیں انگریزی میں ہو رہی تھیں۔ اُس نے مجھ سے کہا:
’سِٹ بیک‘ (پیچھے بیٹھو)۔
آؤ دیکھا نہ تاؤ، میں خوشی اور حیرانی کے عالم میں اُس کے پیچھے بیٹھ گیا۔
وہ مجھے ایک مُحلّے میں لے گیا۔ گَلیاں کافی چوڑی تھیں۔ ایک غیر معمولی سنّاٹا سا لَگ رہا تھا۔ لونا ڈرائیور نے بتایا کہ دراصل یہ لَنچ کا ٹائم ہے اور لوگ قیلولہ میں مصروف ہیں۔ ہم دونوں نے نکّڑ پر چائے پی۔ تقریباً آدھے گھنٹے انتظار کے بعد جب مالک مکان آیا تو مجھ سے اُس نے صرف یہ پوچھا کہ پونڈی چیری میں کیوں رہنا چاہتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ فرنچ سیکھنے آیا ہوں۔ اُس نے مجھے ایک کمرہ دکھایا اور بات پکّی ہوگئی۔ مجھے حیرت بھی ہوئی کہ حسبِ معمول دِلّی کے مکان مالکوں کی طرح نہ ہی میرا نام پوچھا اور نہ ہی ذات پات۔
میں شام کی بَس لے کر واپس مدراس لوٹ گیا۔ سلام کھانے پر میرا انتظار کر رہا تھا۔
’آؤ کیسا رہا آج کا ٹرِپ؟‘۔ سلام نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا۔
’بس کام ہو گیا‘۔ میں نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
Page 2
’کیا؟‘۔ ’رہنے کی جگہ مِل گئی؟‘۔
’ہاں اور وہ بھی بہت آسانی سے۔ میں نے اُسے پورا واقعہ سنایا۔
رات کے کھانے کے وقت ہم دونوں کے ساتھ تین لڑکے اور تھے جو سلام کے یہاں عارضی طور پر رُکے ہوئے تھے۔ سلام نے اُن لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں مجھ سے کہا:
’آپ نے تو ایک ہی دن میں اپنے رہنے کا انتظام کر لیا، اور یہ لوگ تین مہینے سے ڈھونڈ رہے ہیں لیکن ابھی تک کُچھ پَلّے نہیں پڑا‘۔
میں نے خاموشی سے دِل ہی میں خدا کا شُکر ادا کیا کہ اگر مجھے کچھ ہفتوں تک کرایہ کا کمرہ نہ ملتا تب شاید مجھے بھی یہی طعنہ سُننے کا شَرف حاصل ہوجاتا۔
صُبح میں جب جاگ کر اُٹھا تو دیکھا کہ سلام فجر کی نماز پڑھ رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ واقعی میں یہ خدا کی کتنی بڑی نعمت تھی کہ یہ بندہ جِس کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میں نے نہ ہی ایک کپ چائے پی اور نہ ہی سِگریٹ کا کَش لگایا وہ میرے لئے اتنی بڑی رحمت بنا۔ ہلکے پھُلکے ناشتے کے بعد میں نے اُسے الوداع کہا اور بَس لیکر پونڈی چیری کی طرف روانہ ہو گیا۔
پونڈی چیری میں اپنے نئے کرائے کے کمرے میں پہلا دن گزارا۔ شام کے وقت سمندر کی ساحل پر چہل قدمی کرنے اکیلے گیا۔ پورا شہر انجان تھا لیکن اجنبیت کی کیفیت زبان اور ثقافت مختلف ہونے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی تھیں۔
الیانس فرانسیز میں اگلے روز صبح داخلے کے لئے پہنچا۔ میرا ایک چھوٹا سا فرنچ زبان کا امتحان لیا گیا۔ ایک پیراگراف پڑھنے کو کہا گیا اور اُس کا مفہوم سمجھانے کو کہا گیا۔ امتحان میں نے بخوبی پاس کیا۔ ہماری کلاس کچھ دنوں میں شروع ہوگئی۔ فرنچ کا پروفیسر ایک فرنچ ہی تھا۔ زبان اگر نیٹِو اِسپیکر سے سیکھی جائے تو زبان سیکھنے کا لُطف دُگنا ہو جاتا ہے۔ یہ سہولت مجھے دلّی میں نہیں ملی تھی۔
تیسرے روز میں الیانس فرانسیز کی لائبریری میں گیا جو پہلے منزل پر تھی۔ لائبریری کے سامنے ایک بہت بڑا برآمدہ تھا۔ وہاں سے آس پاس کے گھر اور پورا روڈ صاف نظر آتا تھا۔ لائبریری میں میں نے کچھ لوگوں کو پڑھائی کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ مجھے نارتھ انڈیا کے لگ رہے تھے۔ اُن میں سے ایک شخص نے مجھے مُسکراتے ہوئے دیکھا۔ اُس نے اپنا تعارف یوگی کے نام سے کروایا۔ لمبا قد، موٹا بدن مگر جسے موٹا نہ کہا جائے، سانولا رنگ، بھرے بھرے گالوں میں ننھے گڑھوں کا بسیرا، گھنے بال اور چوڑی پیشانی کا وہ مالک تھا۔
مجھ سے پوچھا ’نئے ہو؟‘۔
’کَل ہی داخلہ لیا ہے پانچویں سمیسٹر میں‘۔ میں نے چہک کر جواب دیا۔
’بیاں وینیو آ پوندی‘۔ (پونڈی چیری میں خوش آمدید)۔ یوگی نے مسکرا کر جواب دیا۔
’میخسی‘ (شکریہ)۔
یوگی سے میرا رشتہ ایک تناؤ کا تھا۔ پورے الیانس فرانسیز میں یہ مشہور تھا کہ یوگی کو فرنچ پر عبور حاصل ہے۔ اُس کے جیسا فرنچ بولنے والا ہم طلباء میں کوئی نہیں تھا۔ وہ کسی بات کا جواب نارمل انداز میں نہیں دیتا تھا بلکہ اُس کا مقصد یہ تھا کہ طوالت میں مہارت دِکھائے۔ ہر تین جُملے میں وہ فرنچ کی ایک کہاوت ٹھونس دیتا۔ سُننے والے عَش عَش کرتے۔ ہماری فرنچ بولنے کی گاڑی وہیں ٹیں ٹیں پھُس ہو جاتی۔ میں بھی پریشان تھا کہ یہ تو مجھ سے بھی زیادہ تُرّم خان نکل گیا۔
ایک دفعہ ہمارے فرانسیسی ادارے میں ایک تقریب ہوئی۔ بہت سارے لوگوں کا ہجوم تھا جو سبھی کے سبھی فرانکوفون، یعنی فرنچ بولنے والے تھے۔
جاری ہے
Facebook Comments