قصّہ شہر بدر کا(14)-شکور پٹھان

بحرین کی زندگی میں اب کچھ یکسانیت سی آگئی تھی۔ دن بھر سونے کی کوشش کرنا، شام کو فلم دیکھنا، چھٹی کے دن دوستوں کے گھروں کا چکر لگانا یا یوسف کے ساتھ کہیں باہر نکل جانا یا پھر چچا کے گھر کی دعوتوں میں ان کا ہاتھ بٹانا، کبھی کبھار پاکستان کلب کی تقریبات میں شرکت کرنا۔
دوستوں کے اب دوتین گروہ ہوگئے تھے۔ چچا کے ذریعے ہونیوالی دوستیاں   ، یوسف وغیرہ، یو بی ایل کے دوست لیاقت ، اشرف، عثمان وغیرہ، ہلٹن کے دوست جن میں ہندوستانی بھی شامل تھے۔
پھر ایک دن میں جاوید کے ساتھ اس کے ہوٹل چلاگیا۔ یہیں ہلٹن کا ایک ساتھی نذر عباس بھی رہتا تھا۔جاوید سنٹرل ہوٹل میں رہتا تھا جس میں ہوٹل نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہ ایک بہت پرانا ہوٹل تھا جس میں صرف کمرے، یا یوں کہیے چھوٹی چھوٹی کھولیاں تھیں۔ ہوٹل میں استقبالیہ، ریستوران، کافی شاپ وغیرہ نہیں تھے۔ کمروں میں رہنے والوں کی تعداد پر بھی شاید کوئی پابندی نہیں تھی۔ دس ضرب دس فٹ کے کمرے میں کم ازکم تین چار لوگ رہتے تھے۔ یہاں دو ” بنک بیڈ” یعنی دومنزلہ پلنگ تھے جس پر چار لوگ سوتے تھے ۔ اگر آپ نے ہانگ کانگ کے پنجرے والے گھر ( Cage Houses) دیکھے ہوں تو کم و بیش وہی نقشہ تھا۔

سنٹرل ہوٹل چھڑے لونڈوں کی جنت تھا۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک چھٹا ہوا کردار نظر آتا۔ جاوید کے کمرے میں یوں لگا اپنے ناظم آباد کے کسی دوست کی بیٹھک میں آگیا ہوں۔ سارے اپنے کرانچی والے ہی تھے۔ پتہ نہیں اس کمرے میں کون کون رہتا تھا لیکن جب میں وہاں گیا تو کوئی سات آٹھ لڑکوں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ نذر عباس بھی وہیں تھا۔ جاوید نے اور دوستوں سے ملوایا۔
ان میں سے ایک تو “دانش زوبی” تھے جو مشہور مصور آذر زوبی کے بیٹے تھے۔ دوسرے بشیر میانداد تھے، اپنے جاوید میانداد کے بھائی۔ جاوید ابھی حال ہی میں پاکستان ٹیم میں شامل ہوا تھا اور آتے ہی بقول شخصے “ تباہی مچادی تھی”۔ بشیر میرے ابا کو بھی جانتا تھا۔ دراصل اس کے ( یعنی جاوید میانداد کے) والد میرے ابا کے دوست تھے۔ ابا ایم ایم بخشی صاحب کے ہاں کام کرتے تھے جو کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر یا نائب صدر تھے اور ابا کی ملاقات عیسی جعفر، پروفیسر سراج السلام بخاری، ستار بھگت اور میانداد صاحبان وغیرہ سے رہتی تھی۔

یہاں کچھ حضرات بئیر سے شغل فرما رہے تھے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ لیں گے ؟ میرے منع کرنے پر فرمایا “ ہاں اس کے کچھ فائدے بھی ہیں اور کچھ نقصانات بھی ہیں”۔
“ اس کے فائدے بھی ہوتے ہیں ؟ “ میں نے دیہاتیوں کی طرح سوال کیا۔
“ ہاں، یہاں کی گرمی میں اس سے ٹھنڈک رہتی ہے”۔ مجھے بتایا گیا۔
ویسے یہ گرمی کے دن نہیں تھے لیکن کمرے کا ماحول خاصا گرم تھا۔ اس لئے نہیں کہ اس چھوٹی سی کوٹھڑی میں اتنے سارے لوگ تھے بلکہ یہ کمرے کے درودیوار تھے جن سے “ بھاپ “ نکل رہی تھی۔ یہ بھاپ سیمنٹ کی نہیں ان تصویروں کی تھی جنہوں نے سیمنٹ کی دیوار کو ڈھانپ رکھا تھا۔ چاروں جانب “ پلے بوائے” اور “ پینٹ ہاؤس” کے درمیانی صفحات اور “ پن اپ” چسپاں تھے۔ کوئی ثقہ شخص تو یہاں نظریں اٹھا سکتا یا نہیں لیکن مجھ جیسا نادیدہ اور ندیدہ بھی نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔۔اور یہ صرف اس کمرے کا حال نہیں تھا تقریباً ہر کمرے میں یہی صورتحال تھی اور میں یہ اس لئے نہیں کہہ رہا کہ میں نے دوسرے کمرے بھی دیکھے تھے بلکہ اکثر کمروں کے باہری دروازے پر بھی فوٹوگرافی کے یہ شاہکار دعوت نظارہ دیتے تھے۔

اس “ صرف بالغان کے لیے” والے ماحول میں پہلی بار احساس ہوا کہ اب مجھے بھی بڑا ہوجانا چاہیے گواس میں اب بھی بہت سی رکاوٹیں تھیں۔ یہ سب لڑکے گھروں سے دور، خاندانی ماحول سے آزاد تھے۔ انہوں نے ان سب چیزوں میں اپنی دلبستگی کا سامان ڈھونڈ لیا تھا۔ مجھے ایسی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ میں ایک بھرے پرے گھر میں چچا، چچی اور بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔لیکن اب مجھے یہ احساس بھی ہونے لگا کہ اب میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہوں۔ چچا اور چچی مجھے چھوٹے بھائی کی طرح عزیز رکھتے تھے لیکن میں اب ان پر مزید بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔ ویسے بھی ایک کیڑا میرے دماغ میں ایک زمانے سے کلبلا رہا تھا۔ یہ وہی کیڑا تھا جو کبھی پطرس بخاری کے دماغ میں بھی کلبلایا تھا یعنی ہوسٹل میں رہنے کی تمنا۔ پطرس کے لئے رشتے کے ماموں تلاش کئے گئے تھے۔ میرے لئے چچا موجود تھے۔

کراچی ٹی ٹی سی میں تربیت کے دوران یہ موقع تھا کہ میں ہوسٹل میں رہتا لیکن ٹی ٹی سی والے پہلی ترجیح کراچی سے باہر کے طلباء کو دیتے تھے، دوسرے میرے گھر والے اس کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ بہرحال میں نے پطرس مرحوم کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی کوئی تحریک نہیں چلائی تھی۔ بس یہ کیا کہ کچھ دن بعد ٹی ٹی سی کو ہی چھوڑ دیا۔ اس کی تفصیلات شاید میں پہلے کہیں بتا چکا ہوں۔
یہاں بحرین میں یو بی ایل اور ہلٹن کے لڑکوں کو بنک اور ہوٹل کی رہائش میں دیکھ کر اب یہ خواہش جڑ پکڑنے لگی کہ میں بھی لڑکوں کے ساتھ رہوں۔ ہلٹن والے بھی بڑی اچھی آراستہ و پیراستہ ( فرنشڈ) رہائش دیتے تھے۔ لیکن پھر تنخواہ میں رہائش الاؤنس نہیں ملتا تھا اور وہاں تنخواہ سے غرض نشاط کس کو تھی ؟ بس اپنا کمرہ چاہیے تھا جہاں میں اپنی مرضی سے اور آزاد زندگی گذار سکوں۔
ہلٹن کے پرسنل ڈپارٹمنٹ کو اپنی ضرورت بتائی تو کہا گیا کہ فی الحال کوئی نئی رہائشگاہ نہیں ہے۔ چند ماہ بعد کوئی نئی عمارت کرائے پرلی جائے گی تو معلوم کرنا۔ اب چند ماہ انتظار کون کرے۔ کچھ دوست تھے جو اپنے خرچ پر یعنی کرائے پر رہتے تھے۔ ان سے بات کی اور وہاں منتقل ہونے کا ارادہ کرلیا۔

چچا اور چچی حیران و پریشان میری شکل دیکھ رہے تھے کہ یہ مجھے اچانک کیا سوجھی ؟۔ میں نے پطرس کی طرح دوچار کہانیاں سنائیں جنہیں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن چچا مجھ پر کسی قسم کا جبر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کہنے لگے “ تیری مرضی، کب جانا ہے ؟”۔
“ شام کو واپس آجانا، یا چاہے تو کل آجانا”
“حورہ” کے علاقے میں ایک مکان کے سامنے مجھے اور میرا سامان ( جو ایک سوٹ کیس پر مشتمل تھا) اتار کر چچا نے مجھ سے کہا۔ انہیں یقین تھا کہ میں ایک دو دن میں ہی واپس آجاؤں گا۔
میں “ بیچلرز” کے ساتھ آ تو گیا تھا، لیکن کچھ خاص مزہ نہیں آیا۔ یہ لڑکے میرے مزاج کے نہیں تھے۔ یا یوں کہیے کہ میں اس طرح رہنے کا عادی نہیں تھا۔ لیکن اب چچا کے ہاں واپس بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جیسے تیسے کچھ دن وہاں گذارے اور ہلٹن والوں پر مزید زور دینا شروع کیا۔

آخر ایک دن ہلٹن کے پرسنل مینیجر کو اپنا دکھڑا سنایا۔ ہلٹن کے عقب میں ہی اسٹاف کوارٹرز کی “ ڈورمیٹری” تھی۔ کچھ اسٹاف یہاں بھی رہتا تھا۔ یہ زیادہ تر نچلے درجے کا اسٹاف یعنی ویٹر ز اور روم بوائز وغیرہ تھے۔ ایک ریکریشن روم میں ایک بیڈ پڑا ہوا تھا۔ مینیجر صاحب نے کہا کہ میں چاہوں تو فی الحال وہاں رہ سکتا ہوں۔ سوچا چلو یہ بھی کرکے دیکھتے ہیں۔

یہ ڈورمٹری لکڑی یعنی prefab کی بنی ہوئی تھی۔ فرش بھی لکڑی کا تھا۔ لوگوں کے چلنے کی آواز پورے کوریڈور میں گونجتی تھی۔ مجھے رات کو ڈیوٹی کرناتھی۔ اس شور میں نیند آنا محال تھا۔ ساتھ ہی آتے جاتے کوئی بھی ریکریشن روم کھول کر جھانکتا اور دیکھتا کہ کون سو رہا ہے۔ مجھے جاگتا دیکھ کر سوال ہوتا کہ میں یہاں کیوں کر ہوں۔

دو ڈھائی بجے تک یہ صورتحال دیکھ کر میں اٹھا اور “ اوال “ سنیما کی راہ لی۔ وہاں نہ جانے کون سی فلم لگی تھی ۔ میں نے ائرکنڈیشنڈ سنیما کی آرام دہ سیٹوں پر بیٹھ کرآنکھ بند کرلی اور سنیما ہال کے شور کے باوجود سو گیا۔ شو ختم ہونے پر کسی نے مجھے اٹھایا اور میں آنکھیں ملتا ہوا باہر آگیا۔
نیند تو نہیں ملی لیکن مجھے اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کے لئے ایک کہانی مل گئی۔
“ کل مجھے سنیما میں سونا پڑا” میں نے پرسنل مینیجر واربرٹن کو بتایا تو وہ خوب ہنسا۔
“ اچھا میں دیکھتا ہوں ۔ تم کل آنا”
اگلے دن اس نے بتایا کہ ایک نئی چار منزلہ عمارت لی گئی  ہے لیکن اس میں فی الحال فرنیچر اور سازوسامان مکمل نہیں ہے۔ تم چاہو تو جاکر دیکھ سکتے ہو۔
اندھا کیا چاہے۔ میں دوڑا دوڑا واربرٹن کے بتائے ہوئے پتہ پر پہنچا۔ یہ ایک نئی نکور بلڈنگ تھی جس میں اب تک کوئی نہیں آیا تھا۔ ہر فلور پر دو فلیٹ تھے سوائے پہلی منزل کے۔ یہ عمارت کے مالک کے اپنے فلیٹ تھے اور اس منزل پر صرف ایک ہی بڑا سا فلیٹ تھا جس میں وہ خود رہنے والا تھا۔ یعنی بقیہ چھ فلیٹ ہلٹن کے تھے۔

یہاں سامان کسی ترتیب سے نہیں تھا۔ کسی کمرے میں پلنگ تھے تو الماری نہیں تھی۔ یہ سب کچھ تھا تو کچن میں فریج یا کوکنگ رینج اور گیس سلنڈر نہیں تھا۔ سارے فلیٹ کھلے ہوئے تھے۔ میں نے نیچے سے اوپر سارے کمروں کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ تقریباً ساری چیزیں موجود ہیں لیکن بکھری ہوئی ہیں۔

اس خالی چار منزلہ عمارت کی پہلی منزل یعنی گراؤنڈ فلور پر میں واحد رہائشی تھا۔ اگلے دن میری چھٹی تھی۔ آدھی رات کو آنکھ کھلی تو سوچا کہ اگر ہوٹل والوں سے درخواست کروں تو نجانے کب تک یہ سب کچھ ملے۔ وہ تو سامان یہاں چھوڑ کرچلے گئے ہیں۔ بہتر ہے اپنا سامان آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔

میرے کمرے میں بیڈ اور الماری موجود تھے ۔ یہ سارا نیا سامان تھا۔ برابر والے فلیٹ میں ایک خوبصورت سا chest of drawers موجود تھا۔ میں گھسیٹ کر اسے بھی اپنے کمرے میں لے آیا۔ کچن میں کوکنگ رینج تھا لیکن فریج اور سلنڈر نہیں تھے۔ یہ سب تیسری منزل کے دو فلیٹوں پر موجود تھا۔ فریج چھوٹا سا تھا۔ میں کسی نہ کسی طرح گھسیٹ کر اور سیڑھیوں سے اتار کراپنے فلیٹ تک لے آیا غرض میں نے گھر گر ہستی کا سامان مکمل کرلیا۔ کچھ دن بعد دیگر اسٹاف بھی آنے لگا۔ وہ پرسنل ڈپارٹمنٹ میں اپنی ضرورتیں بتاتے۔ کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی انتظار کرتا رہ جاتا۔ اکثر کو جو کچھ مل گیا وہ اسی پر گذارہ کرتے۔ میں اپنے خرچ پر بھی بہت ساری چیزیں لے آیا جن میں ایک ٹی وی، ایک آرام کرسی ( beach chair) اور رعایتی سیل میں بکنے والا ایک ریکارڈ پلئیر بھی شامل تھے۔ ایک چھوٹی سی کتابوں کی الماری ( بک شیلف) بھی لے آیا۔

اب میرا کمرہ اس بلڈنگ کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ سارے لڑکے خالی اوقات میں یہیں جمع ہوتے۔ گپ شپ ہوتی، ٹی وی دیکھتے۔چائے سگریٹ کا دور چلتا۔ گراموفون پر گانے سنے جاتے اور اکثر وبیشتر کھانے کی دعوتیں ہوتیں۔ میں اب کچھ کچھ چیزیں بھی پکانے لگا تھا جو اتفاق سے بہت ہی ذائقہ دار بن جاتیں۔ پردیس نے مجھے ایک سگھڑ بی بی بنادیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب یہ ساری رام کہانی بھلا میں آپ کو کیوں سنا رہا ہوں تو دوستو ! عرض یہ ہے کہ میں بحرین کا قصہ نہیں سنانے والا تھا۔ یہ آپ ہی کا اصرار تھا۔ تو اب سنیے اور برداشت کیجیے۔
اگلی باتیں یاد آنے تک اللہ حافظ و ناصر۔
جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply