غریب ترین کہاں جائیں؟۔۔ آصف محمود

امیر ترینوں کے لیے تو سب راستے کھلے ہیں ، سوال یہ ہے کہ غریب ترین کہاں جائیں؟ جہانگیر ترین کے بعد علی ترین کا سامنے آجانا کوئی انہونی نہیں جس پر حیرت ، دکھ اور صدمے کا اظہار کیا جائے۔ البتہ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے بیچ علی ترین کو ٹکٹ دیے جانے پر جو بحث چل پڑی ہے وہ ایک بہت بڑے فکری سانحے کی خبر دے رہی ہے اور اس پر دکھ بھی ہوتا ہے ، حیرت اور افسوس بھی ۔ برسوں پہلے کہیں پڑھا تھا کہ ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے ۔ اس بحث کا متن اور اسلوب بتا رہا ہے کہ لکھنے والے نے غلط نہیں لکھاتھا ۔

ہر رہنما کے حصے میں آنے والے بے وقوفوں میں ایک مسلسل کشمکش جاری ہے۔ ہر قائد کے حصے کا بے وقوف اپنے قائد محترم کی ہر حرکت کا دفاع کرتا پایا جاتا ہے اور دوسروں کے عیوب پر ان کی بھد اڑاتا رہتا ہے۔ جہانگیر ترین کی نا اہلی کے بعد ان کے صاحبزادے کے انتخاب کے بعدپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پر طعنوں اور کوسنوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے کہ کہاں گئی وہ تحریک انصاف جو صاف چلی تھی اور شفاف چلی تھی ۔ طنز و تشنیع میں ڈوبے لہجے سوال پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے تو کہا تھا ہم موروثی سیاست کے قائل نہیں پھر یہ کیا ہوا کہ جہانگیرترین کے بعد آپ کی آنکھوں میں ان کے صاحبزادے کے علاوہ کوئی جچا ہی نہیں ۔ آپ سیاسی میدان میں کسی کی کارکردگی دیکھ کر ٹکٹ دیتے ہیں یا جہاز کی رفتار اور تجوری کا حجم دیکھ کر؟

ا س کے جواب میں نونہالان انقلاب بھی سوالات سے مسلح ہو کر میدان میں اتر چکے ہیں ۔ یہ پوچھ رہے ہیں کہ علی ترین کے ٹکٹ پر اعتراض کرنے والو ذرا یہ تو بتاؤ بلاول زرداری کس میرٹ پر آپ کی پارٹی کا چیئر مین بن بیٹھا؟ اور یہ پھپھو جان کس حیثیت سے بھٹو کی پارٹی کی مادر ملت بن بیٹھی ہیں ۔ ذرا یہ بتائیے کہ سیاسی جماعتوں میں قیادت کبھی وصیت کی بنیاد پر بھی تقسیم ہوئی ہے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جن کا تجربہ بلاول کی عمر سے زیادہ ہے وہ بھی ان کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں؟ خدا لگتی کہیے بلاول اگر بے نظیر کے صاحبزادے نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ کیا اس طرح راج کرے گی خلق خدا ؟

نونہالان انقلاب نے چونکہ کسی کو بخشا نہیں اس لیے انہیں یہ جنگ دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہی ہے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے طعنوں کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ سی ای سی میں سارا خاندان شامل کر کے، وڈے بھا جی کے بعد نکے بھا جی کو وزیر اعظم بنانے کا امکانی فیصلہ کرکے اور اہم عہدے خاندان کے لوگوں میں بانٹ کر آپ کس جمہوریت اور کس نظریے کی بات کر رہے ہیں؟ سچ سچ بتائیے حمزہ شہباز اگر شریف خاندان کے چشم و چراغ نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ اور مریم نواز صاحبہ اگر نواز شریف کی صاحبزادی نہ ہوتیں تو کیا ہوتیں ؟

یعنی ہر قائد کے حصے میں آنے والا بے وقوف تجزیے کی کسوٹی پر صرف دوسروں کو پرکھ رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی اپنی جماعتوں میں ان سب کی حیثیت وہی ہے جو لفظ ’ خواب‘ کے ہجوں میں ’ وا مادولے‘ کی ہوتی ہے۔ پرائی شادی میں عبد اللہ دیوانے کی عملی شکل دیکھنی  ہو تو سوشل میڈیا پر ہر قائد کے حصے کے بے وقوفوں کو دیکھ لیجیے۔ ٹائیگر ہو، جیالا ہو یا متوالا ، ان سب کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ جلسوں کو رونق بخشیں، بغلیں بجائیں، تالیاں پیٹیں، ایک دوسرے پر لعن طعن کریں، اپنے اپنے آقاؤں کی خاطر تعلق خاطر تک کو پامال کر دیں۔ اس سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں کیونکہ قائد محترم خوب جانتے ہیں اپنے حصے کے بے وقوفوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا ہے۔

یہ ساری زندگی اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ یہ لٹو کی طرح گھوم گھوم کر پارلیمان کے فضائل بیان کریں گے لیکن یہ ساری زندگی پارلیمان کا حصہ نہیں بن سکتے۔ یہ اپنی اپنی جگہ پر جتنا بھی ٹیلنٹ کیوں نہ رکھتے ہوں یہ اسمبلیوں اور ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ خوفناک مونچھوں اور کڑکڑاتے لباس والے نیم خواندہ اور جاہل انہیں روند کر اسمبلیوں تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ کسی کو یہ نہیں معلو م کس کے نام کے ساتھ ’ رحمتہ اللہ علیہ ‘ آتا ہے اور کس کے ساتھ ’ علیہ السلام‘ تو کوئی سورہ اخلاص تک نہیں پڑھ سکتا، اسمبلی کارروائی میں ان کی دلچسپی واجبی سے بھی کم ہوتی ہے اور آئے روز کورم ٹوٹتا رہتا ہے، متوسط طبقہ کسی بھی سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ہمارے ہاں اشرافیہ کے باہمی شیطانی بندوبست کے ذریعے اس طبقے کو پارلیمان سے دور کر دیا ہے اور اسے اس واردات کا احساس تک نہیں۔ ایک خاص طبقہ ہے جو اسمبلی تک پہنچتا ہے۔ اسے آپ حکمران خاندان کہہ سکتے ہیں۔ حالات کے مطابق یہ خاندان پارٹیاں اور اپنے حصے کے بے وقوف بدلتا رہتا ہے ۔ اسی کا نام جمہوریت ہے ۔

متوسط طبقے کی حرکتیں دیکھ کر گاہے افسوس ہوتا ہے اور کبھی ہنسی آتی ہے۔ ہر دوسرا آدمی آپ کو سیاسی امور کا ماہر نظر آئے گا۔ شادی ہو یا کسی کی تدفین ، یہ ماہرین جہاں اکٹھے ہوں گے ان کا موضوع سیاست ہو گا۔ کوئی بلاول کے مستقبل کے لیے پریشان ہو گا تو کسی کو یہ فکر لاحق ہو گی کہ مریم نواز کا سیاسی مستقبل کیا ہے۔ نماز جنازہ سے فارغ ہو کر یہ ماہرین کرام جوتے بعد میں پہنیں گے پہلے آپ سے پوچھیں گے ’’ اور سنائیں بھائی صاحب نواز شریف کا کیا بنے گا؟‘‘۔آج تک کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ان کا اور ان کے بچوں کا کیا بنے گا ۔ بیوی کا زیور بیچ کر ماں کا علاج کروانے والے سے ملنے ہسپتال جائیے وہ چھوٹتے ہی پوچھے گا کلثوم نواز کی صحت کیسی ہے وہ کب واپس آ رہی ہیں۔ کان ترس گئے ہیں کہ کبھی کسی مجلس میں اس موضوع پر بات ہوتے سنوں کہ ہمارا کیا بنے گا، ہمارے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم کب ملے گی، ہمیں پینے کا صاف پانی کب ملے گا، ہمیں خالص دودھ کب ملے گا ، ہمیں علاج معالجے کی سہولیات کب ملیں گی ۔

سوال اب یہ ہے کیا پاکستانی سیاست میں غریب اور متوسط طبقے کے کرنے کا کام یہی رہ گیا ہے کہ ان کا ’ کپتان خان دے جلسے اچ نچنے‘ کو جی کرے تو ناچتا رہے، اپنے گھر کے بوسیدہ کواڑوں کے ساتھ سسکتے انسانی وجودوں سے بے نیاز ہو کر صرف یہ نعرہ مستانہ بلند کرتا رہے کہ ’’ بھٹو زندہ ہے‘‘یا پھر تخت لاہور کے قوالوں کے ساتھ جھوم جھوم گاتا رہے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ لیکن خود کبھی کسی ایوان کا رکن بننے کا خواب دیکھنے کی ہمت بھی نہ کر سکے ۔

کیا فرماتے ہیں اپنے اپنے قائد محترم کے حصے کے بے وقوف، بیچ اس مسئلے میں؟

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply