خلائی دور کی سازشیں۔۔عزیز علی داد

کرونا ویکسینیشن کے اثرات کے متعلق لوگوں سے پتہ چلا کہ اس کے ذریعے بل گیٹس ایک چِپ لگا کر ہمارے ڈی این اے سے کچھ چرانا چاہتا ہے۔ اس لئے میں نے پہلے پہل تو ویکسین لگوانے سے مکمل اجتناب برتا، مگر اپنے ہمسایہ ملک انڈیا میں کرونا کے ہاتھوں مچی تباہی دیکھ کر جان جانے  کا خوف لاحق ہوگیا ،تو بل گیٹس کے  تمام تر سازشی ہتھکنڈوں سے آگاہی ہونے کے باوجود مجبوری میں ویکسینیشن کروالی ۔ اور تب ہی سے مجھے عجیب و غریب تجربات و کیفیات نے گھیرا ہوا ہے۔ ان کیفیات اور تجربات نے کرونا سے متعلق نہ صرف عوام کے شکوک و شبہات کو سچ ثابت کر دیا ہے بلکہ بل گیٹس کے مشکوک ارادوں کے متعلق میرے خدشات کو بھی صحیح ثابت کیا ہے۔ لہٰذا یہ تحریر کرونا کے وبا کے دنوں میں ذہنی وبا سے متاثرہ ایک شخص کی کہانی ہے۔

تو ہوا یوں کہ کرونا کی ویکسینیشن کرانے کے چوبیس گھنٹے بعد (غالباً چِپ نے کام کرنا شروع کر دیا تھا)، مرحلہ وار مجھ پر متفرق کیفیتیں گزریں۔ پہلے مرحلے میں میرے اندر مدہم اور مبہم آوازیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ دھیرے دھیرے یہ آوازیں واضح طور پر سنائی دینے لگیں۔ پھر ایک رات جب میں گہری نیند میں ڈوبا ہوا تھا، مجھے یوں محسوس ہونا شروع ہوا جیسے میرے دماغ کے اندر کوئی زبردستی گھسنے کی کوشش کررہا ہو۔ اس بات کا اندازہ اس طرح ہوا کہ ایک حسین و جمیل خاتون میرے ذہن کا پاس ورڈ میرے دماغ کی  سکرین پر لکھ رہی تھی۔ چونکہ میرا ہاٹ میل کا پاس ورڈ مائکرو سافٹ والوں کے پاس پہلے سے موجود تھا اسی لئے انھوں نے آسانی سے میرے دماغ کے اندر تک رسائی حاصل کی۔ یوں میں اس سارے عمل کے دوران فقط ایک ناظر کی حیثیت سے اپنے ساتھ ہونے والے تجربات کو بے بسی سے دیکھتا رہا۔ اب تو اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا تھا کہ یہ سب اس سازشی ویکسین کے اثرات کی وجہ سے ہورہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ ویکسین آپ کے جسم کو اپاہج کر کے، دل اور دماغ کو بل گیٹس کے حوالےکردیتا ہے۔

نیم خوابی کے عالم میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی خاتون میرے دماغ میں موجود مختلف فائلوں کو الٹ پلٹ کر کچھ ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔ دورانِ تلاشی  اسے سب سے بڑی اور اہم ترین فائل مل جاتی ہے جس میں میری آنکھوں کی اب تک کی کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ موجود تھی۔ جس کے مطابق میری آنکھوں نے جو کام اب تک سب سے زیادہ کیا، وہ تھا پورن فلمیں دیکھنا! اور اس کے بعد دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں پر بری نظر رکھنے کے علاوہ ہر طرح کی بدنظری میں ملوث رہنا۔اور یہی ریکارڈ اس فائل میں درج تھا۔ آنکھوں کی فائل کا غور سے جائزہ لینے کے بعد حسینہ کے چہرے پر بے چینی نظر آئی۔ لیکن وہ دماغ کے باقی حصوں کو کھنگالتی رہی اور پھر مختلف خانوں میں رکھی فرقہ واریت، فتوٰی بازی، تنگ نظری، منافقت، رشوت، پدر شاہی نخوت و غیرت، کم علمی و جہالت سے لبریز جذباتیت اور دکھاوے کی تما م تر عبادات کی فائلیں ڈھونڈ نکالیں۔ مجھے حیرت اس بات  پر تھی کہ اتنی اہم معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود خاتون مطمئن کیوں نہیں تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ میرے اندر ایک خاص چیز یا فائل کی تلاش میں آئی تھی۔ آخر کار تھک ہار کر اس نے سرچ کے آپشن میں عقل ٹائپ کیا تو جواب آیا کہ “ہم معذرت خواہ ہیں۔ ان کے سسٹم میں مطلوبہ سہولت میسر نہیں ہے۔” خاتون نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے دوبارہ جمالیات کا لفظ ٹائپ کیا تو جواباً گالیاں، بلوے، کچرا، حسد اور عورت بیزاری سے بھر پور معلومات کی بھرمار نظر آئی۔ خاتون نے کچھ غیر یقینی کی سی کیفیت میں گھِر کر آخری کوشش کے طور پر لفظ ذات ٹائپ کر کے کچھ اگلوانا چاہا تو سامنے خوف، نفرت، بداعتمادی، تحقیق سے عاری خدشات اور بل گیٹس کے کرونا ویکسین، دیگر سائنسی ایجادات اور فلسفیانہ افکار کے خلاف سازشی تھیوریز کی ایک نہ ختم ہونے والی لسٹ کھل گئی جس کے بعد خاتون کی موہوم ہوتی امیدوں نے گویا دم ہی توڑ دیا تھا۔ اس  کے بعد موصوفہ نے ہار ماننے والے انداز میں ایک فائل الگ کر کے اسے ای میل میں نتھی کرکے بل گیٹس کو بھیج دیا۔

اگلی صبح جب میں جاگا تو میرا ذہن اتنا تھکا اور گرم ہوا تھا جیسے کوئی کمپیوٹر مسلسل کئی دنوں تک کام کرتے رہنے سے گرم ہوجاتا ہے۔ سارا دن میں سخت بخار میں تپتا رہا۔ ڈاکٹر کے پاس پہنچا تو اس نے انکشاف کیا کہ یہ کرونا   ویکسین کے اثرات ہیں، جو بخار کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر نے جلد شفایاب ہونے کی خوش خبری بھی سنا دی۔ دو دن بعد کہیں جا کے  بخار اُترا، تو رات کا واقعہ اپنی جزئیات سمیت یادداشت کے ورق پر جگمگایا۔ چونکہ میں نے خود بھی کمپیوٹر سائنس میں ڈگری لے رکھی ہے، اس لئے مجھے کسی بھی سسٹم کو ہیک کرنے میں   زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ چنانچہ میں نے تھوڑی محنت و مشقت سے مائکرو سافٹ کا ڈیٹا ہیک کر کے اپنے اندر سے بھیجی گئی ای میل تلاش کی تو پتہ چلا کہ ویکسین لگوانے والے ہر پاکستانی کی تفصیلی رپورٹ ایک فائل کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں یہ ذکر لازمی کرتا چلوں کہ اس سسٹم کو بل گیٹس نے ناسا کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ خیر یہاں تمام پاکستانیوں کی مشترکہ رپورٹس “فائل پاکستان” کے نام سے موجود تھی۔ مجھے فائل کا متن جاننے میں   زیادہ دلچسپی تھی، اسی لیے میں نے اپنی اور پاکستان سے متعلق رپورٹ پڑھی تو معلوم ہوا کہ انجانے میں سہی پر میں پاکستانیوں کے خلاف رچائی گئی ایک بہت بڑی سازش کو بےنقاب کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ جس حسینہ نے رات  کے اندھیرے میں میرے اور باقی پاکستانیوں کے خوابِ غفلت میں ڈوبے ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دماغوں میں گھس کر فائلیں چوری کی تھیں، وہی نسل پسندی اور اسلام دشمنی سے کام لیتے ہوئے بل گیٹس کو رپورٹ کر چکی تھی ،کہ پاکستانی مسلمانوں کے دماغی نظام میں  ایسا کچھ بھی نہیں جو عقل و فہم اور ادراک کے دائرے میں آتا ہو۔ مزید برآں ان کے احساسات جمالیات و پیار و محبت جیسے نرمی و نفاست سے گندھے جذبوں سے خالی ہیں۔ اس متعصب رپورٹ کو اہمیت دیتے ہوئے  ناسا کا کہنا تھا کہ انہیں بھی ایسے پاکستانی دماغوں کی تلاش تھی جو مریخ میں انسان بسانے کے دوران مختلف مواقع پر ریسرچ میں کام آسکیں۔ ناسا کے سربراہ نے رپورٹ سے متعلق اپنے ریمارکس میں کھلم کھلا نفرت کا اظہار کیا تھا اور یہود و ہنود کے ساتھ مل کر سیارہ مریخ پر پاکستانی مسلمانوں کو بسنے سے پہلے ہی روکنے کی کامیاب سازش ترتیب دی تھی۔ انھوں نے کیا لکھا ہے ذرا خود پڑھیے۔۔

“ایسا لگتاہے پاکستانی ابھی تک پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں اور یہی بے جان پتھر ان کے دل اور دماغ پر حاوی ہیں۔ جس طرح کی ذہنیت پاکستانیوں نے پالی ہوئی ہے اس کے ساتھ مریخ کے سیارے پر زندگی گزارنے کا خواب دیکھنا تو دور کی بات ہے، وہ اسی روئے زمین پر ہی زندگی نہیں گزار سکتے۔ اگر ہم ان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مریخ لے بھی جائیں تو وہاں پہنچ کر یہ لوگ یقیناً حلال آکسیجن کے حصول کی خاطر ہمارے آکسیجن کیمپ میں رہنے سے انکار کردیں گے۔ جس کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے، یہ سب کو معلوم ہے۔ ان کی موجودگی میں مصنوعی ذہانت ( Artificial intelligence) جیسا کہ روبوٹ وغیرہ کے شرعی و غیر شرعی طریقہ استعمال پر فتوے لگیں گے۔جب یہ لوگ زمین پر ہوتے ہیں تو زمین کا اکلوتا چاند انہیں ایک نظر نہیں آتا بلکہ ایک جگہ  پہ چار چار نظر آتے ہیں۔ جب مریخ پہ ہونگے تو نیا ہنگامہ برپا کردینگے کیونکہ مریخ سیارے کے دو چاند ہیں جن کا نام پھوبوس اور ڈیئموس۔ مریخ پر پاکستانی مسلمان اصرار کر یں گے  کہ انھیں ایک چاند چاہیے۔چونکہ دو چاند بدعت ہیں ، اس لئے وہ ایک چاند کو ایٹمی میزائیل سے اڑانے کا مطالبہ کرینگے۔

اور تو اور مریخ کے سیارے پر بیٹھ کر زمین کے چاند کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھنے کے لئے رویت ہلال کمیٹیاں بنانے کی ضد کریں گے۔ انسانیت کی بھلائی کے لئے بہتر یہی ہے کہ 2040 میں مریخ سیارے پر ممکنہ آبادکاری کے منصوبے سے پاکستانی مسلمانوں کو خارج کیا جائے۔”

اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ ان اسلام و پاکستان دشمن سازشوں میں یہود و نصاریٰ اور قادیانیوں کا ہاتھ تھا۔ لیکن ایک چیز ایسی تھی جس نے مجھے چونکا دیا۔ اس رپورٹ میں پاکستانی مسلمانوں کی مریخ میں آباد کاری کی اہلیت ایک سرٹیفکیٹ سے مشروط رکھی گئی ہے۔ جس کے تحت خواہشمند مردو زن کو ایک معروف سائنسی ادارے سے اپنی ذہنی صحت مندی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔ پیارے پاکستانیو! کیا آپ کو پتہ ہے وہ ادارہ کون سا ہے اور کس نے بنایا ہے؟ اس ادارے کا نام ہے۔
The Abdus Salam International Center for Theoretical Physics (ICTP)۔
یہ ادارہ اٹلی کے شہر ٹرسٹیز میں ہے۔ اس کافر ادارے کی بنیاد قادیانی کافر ڈاکٹر عبدالسلام نے رکھی ہے۔ اب آپ خود دیکھیے کہ پاکستانیوں کی ذہنی صحت مندی کی گواہی کوئی جید مولوی، مفتی اور مدرسہ نہیں بلکہ قادیانیوں کا قائم کردہ ایک ادارہ  د ے گا۔ اب یہ تو پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ سراسر  زیادتی ہے۔ انہیں ایسی سازش اور مریخ پر امریکیوں کو جانے سے روکنے کے لئے سڑکوں پر نکل کرگھیراؤ اورجلاؤ کرنا چاہیے۔ اپنی  املاک کو خود اپنے ہاتھوں سے نقصان پہنچانا چاہیے۔ کیونکہ ابھی کچھ روز قبل ہی تو ہم نے سڑکوں پر رکشوں اور گاڑیوں کو جلا کر فرانسیسیوں پر اپنی دہشت واضح کر دی ہے۔ یقیناً ان کی حکومت پاکستانی عوام کا سن کر ہی کسی کونے میں دبک جاتی ہوگی۔ اور امریکی بھی تو اس لیے ڈر گئے کہ پاکستانی کہیں مریخ لے جانے والی گاڑی ہی نہ جلا ڈالیں۔ سو میری اس تحقیق کے بعد مجھے پتہ چلا کہ مغرب میں ہمارا مذاق اس لئے اڑایاجاتا ہے کہ ان کا علم ہمارے متعلق کم اور جہالت زیادہ ہے۔

ابن انشا نے تعلیم کے میدان میں جو معرکتہ لآرا کتاب”اردو کی آخری کتاب”لکھی ہے اس میں اہلِ ایمان کا مغرب کے لئے مفصل جواب موجود ہے۔ اس کتاب کو اس لئے بھی انقلابی کہا جاتا ہے کہ علم کی تاریخ میں پہلی بار ایسی کتاب لکھی گئی کہ اس کو پڑھ کر طالب علم استاد اور استاد طالب علم بن جاتا ہے۔ ہم بلاوجہ جان ڈیوی اور پاولو فریری کو ایجوکیشن کے خدا مانتے ہیں۔ اسی کتاب میں ایک مضمون “تاریخ کے چند دور” کے نام سے ہے۔ چونکہ یہ تحریر ١٦ جولائی ١٩٦٩ کو امریکہ کے چاند پر پہنچنے کے بعد لکھی گئی تھی۔ چنانچہ چاند پر لینڈنگ کے چند مہینوں بعد ابن انشا نے ایک گہری تحقیق کے بعد ٩ مارچ ١٩٧٠ کو ثابت کیا کہ ہم بھی خلائی دور میں رہ رہے ہیں۔ اسی تحقیق کے بعد ہی مغرب کی علمی دنیا میں بولتی بند ہوگئی۔ انشا جی اس تحریر میں مسمانوں کی ساری تاریخ بیان کرنے کے بعد موجودہ دور کا ذکر کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

وعدے حقیقت سے خالی
دل درد سے خالی
دماغ عقل سے خالی
شہر فرزانوں سے خالی
جنگل دیوانوں سے خالی
یہ خلائی دور ہے
لوگ توہم کے غبارے پھلاتے ہیں
معجون فلک سیر کھاتے ہیں
رویت ہلال کمیٹیاں بناتے ہیں
آسمان کے تارے توڑ لاتے ہیں
ڈٹ کے دنبے نوش فرماتے ہیں
بیت الخلا میں مدار پہنچ جاتے ہیں
ہمارے ہاں کا خلائی دور یہی ہے۔

اسے پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ انشا نے ہمارے خلائی دور میں رہنے کی علمی تصدیق کردی ہے ۔

سو واپس کرونا کی طرف جاتے  ہوئے کہنا یہ ہے کہ مجھے کرونا کی ویکسینیشن کرائے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ مجھے بارہا محسوس ہوا کہ میرے اندر کوئی چپ لگا دی گئی ہے جو  “ہم  کو ہم ہی   سے چھین رہی ہے”۔ اب میں مولویانہ ہونے کی بجائے بل گیٹسیا ہوتاجا رہا ہوں۔ اور یہ سب میرے اندر موجود سوفٹ ویئر  پر  قبضہ کرنے پر ہی ممکن ہوسکا ہے۔ وگرنہ میں تو رزم حق و باطل میں فولاد تھا مگر سوفٹ ویئر کبھی نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاتے جاتے ویکسینیشن کے چند مضر اثرات آپ کو بتاتا چلوں تاکہ آپ بھی ان سازشی عناصر سے آگاہ ہوں۔
کرونا ویکسینیشن کے بعد سے خواتین واہیات نہیں لگتیں بلکہ کسی عورت کو بغیر دوپٹے کے دیکھوں تو غیرت بھی نہیں جاگتی۔
اب مختلف سوچ رکھنے والے اور منفرد طرزِ عمل کے لوگ گناہگار یا جہنمی نہیں لگتے۔
خوش رہنا عجیب اور خوشیاں بانٹنے سے ڈر نہیں لگتا۔
بنِا کسی کے کہے اب سڑک پر ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کرتا ہوں۔ کہیں نئے افکار سن لوں یا پڑھ لوں تو دماغی طور پر راحت اور شادابی محسوس کرتا ہوں۔
دوسرے مذاہب اور فرقے دشمن نہیں لگتے۔
فرقوں کے نام پر قتل اب ایک وحشیانہ عمل لگتا ہے۔
اب حرام کی کمائی سے ذبح کردہ جانوروں کا گوشت حلال نہیں لگتا۔
بل جمع کرانے قطار میں اپنی باری آنے تک کھڑا رہ سکتا ہوں۔
پہلے نفرت کا کھل کر اظہار کرتا تھا اور محبت چھپ کر کرتا تھا، اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔
وہ نظر جو گھر سے نکلنے کے بعد دوسروں کی بہنوں بلکہ بچوں اور لونڈوں تک جاتی تھی، اب وہ نظر ہی نہیں رہی۔
ویکسین پر یقین ہو چلا ہے۔ مختصراً یہ کہ کئی سالوں سے مجھ میں پلتی  ز ہر آلود “میں” ختم ہو رہی ہے اور میرے پاکستانی بھائی اب اس نئے اور دلکش قبضے سے مجھے نہیں بچا سکتے کیونکہ ان کے ہاتھ میں اب موت کا لائسنس رہ گیا ہے لیکن زندگی اور ذات کا پاس ورڈ ابھی بل گیٹس کے پاس ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply