طالبان کے بعد کا پاکستان۔۔صاحبزادہ امانت رسول

شاید ہمارا خیال تھا کہ طالبان کے رخصت ہونے سے سفاکیت اور ظلم کو بھی دیس نکا لا مل جائے گا لیکن یہ کیا ہوا کہ طالبان کو رخصت ہوئے ایک عرصہ بیت گیالیکن ان کی رخصتی کے باوجود،بچے یتیم ہو رہے ہیں، مائیں اپنے لعل کھو رہی ہیں، بہنیں اپنے جوان بھائیوں کی موت پہ بین کر رہی ہیں،بیویاں بیوہ ہو رہی ہیں، بوڑھے باپ جوان لاشوں کو کندھا دے رہے ہیں۔جرائم اور مجرم موجود ہیں تو قانون، عدالت اور ادارے بھی موجود ہیں لیکن مال،جان اور عزت محفوظ نہیں ہیں ۔پاکستانی معاشرے میں جرائم  مختلف صورتوں میں ابھر کر سامنے آتے رہتے ہیں ،جن میں سے معاشرے کی اخلاقی پستی ،اداروں کی نا کامی، انصاف کی عدم دستیابی اور مذہب میں شدت پسندی کا بیانیہ سر فہرست ہیں ۔

گزشتہ چند روز سے ہم دیکھ رہے ہیں پاکستان کا کوئی صوبہ ایسا نہیں جہاں جنسی زیادتی کے بعد معصوم بچوں اور بچیوں کو قتل نہ کر دیا گیا ہو۔معصوموں کی بے لباس لاشوں کو دیکھ کر انسانیت کیا “شیطنت”کو بھی پسینہ آ جائے۔یہ ہمارے معاشرے کا بھیانک چہرہ ہے بلکہ آئینہ ہے جس میں ہم سب کو اپنی تصویر نظر آنی چا ہیے ۔آرمی پبلک سکول کے شہداء کے زخم سے یہ زخم کسی طرح بھی چھو ٹا نہیں، جو آئے روز ہماری روحوں کو چھلنی کر رہا ہے ۔ہم کوئی لاش ریلوے لائن سے اٹھاتے ہیں اور کوئی لاش گندگی کے ڈھیر سے،کوئی لاش کسی ویرانے سے اور کوئی لاش کھیتوں سے اٹھا رہے ہیں ۔اب ہمیں طالبان سے بھی بڑے چیلنج کا سا منا ہے اور وہ ہے سماج میں پھیلتی سفاکیت اور تشدد۔اس کا علاج فوج اور رینجرز کے پاس  نہیں ہے ۔اگر اس کا علاج ہے تو وہ میڈیا،دانشوراور علمائے کرام کے پاس ہے ۔

دوسری صورت جرائم کی”ماورائے عدالت قتل” ہے جنہیں پولیس کی اصطلاح میں”پولیس مقابلہ”کہا جاتاہے ۔گزشتہ دنوں سندھ میں “پولیس مقابلہ” میں بہت سے نوجوانوں کو قتل کردیا گیا ۔نقیب اللہ کیس میں راﺅ انوار کو معطل کرکےاُن سےتفتیش شروع ہو چکی ہے لیکن اس   کا شکار صرف نقیب اللہ ہی نہیں انتظار احمد بھی ہوا ہے اور ان جیسے بہت سے نوجوانوں کا خونِ ناحق دہائی  دے رہا ہے۔ایسے ہی حالات پنجاب میں ہیں ۔ملزم کو عدالت تک جانے ہی نہیں دیا جا تا اس سے کہیں پہلے گولیوں سے بھون دیا جا تا ہے ۔عدالت ہمیشہ فیصلہ شواہد پہ دیتی ہے ۔پولیس کی نا قص تفتیش سے شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو پہنچتا ہے ۔عدالتیں ثبوت و شواہد کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیں تو کس بنیاد پر دیں؟حکومتیں پولیس کا شعبہ بہترکر نے اور تفتیش و تحقیق کے جدید وسائل مہیا کر نے کی بجائےپولیس سے ایسے جرائم کرواتی ہیں جن کی بھینٹ نقیب اللہ،انتظار احمد اور مقصودجیسے نو جوان چڑھ جاتے ہیں ۔پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سکورٹنی(Scrutiny)کا  بہترانتظام ہونا چا ہیے تا کہ شعبہ پولیس میں جرائم پیشہ افراد بھرتی نہ ہونے پائیں اس کے لیے ضروری ہے پولیس کو سیاسی وابستگیوں سے علیحدہ کر کے صرف ریاست اور عوام کا وفادار بنا یا جائے۔

تیسری صورت تعلیم و مذھب کے نام پر وحشیانہ تشدد اور قتل و غارت کا کلچر ہے۔اس کا تعلق صرف مدارس سے ہی نہیں بلکہ سکولوں سے بھی ہے ۔اب ایسی ویڈیوز وائرل ہوچکی ہیں جو اس حقیقت کو  یقین تک پہنچاتی ہیں کہ تشدد  پہ مبنی رویہ فقط مدارس کا ہی خاصہ نہیں ہے بلکہ سکولوں کے اساتذہ بھی بڑے”ہتھ چُھٹ”ہوتے ہیں ۔بعض اوقات استاذ کے اس تشدد میں شاگرد کی جان بھی چلی چاتی ہے۔ اسی طرح کا واقعہ دو روز قبل کراچی کے علاقے بن قاسم میں واقع ایک مدرسہ میں بھی ہوا۔اخبارات کے مطابق دس سالہ حسین جو مدرسہ سے بھاگ جا تا تھا اُسے معلم نے اتنا ما را کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ ایک  واقعہ چار سدہ میں بھی ہوا ہے کہ ایک طالب علم نے کالج کے پرنسپل کو قتل کردیا ہے ،اس نے قتل کرنے کی وجہ توہین رسالت بتائی جب کہ گواہان اور عوام کا کہنا ہے کہ یہ الزام غلط ہے۔سببِ قتل صرف یہ ہے کہ پرنسپل کا تعلق قاتل کے مسلک سے نہیں تھا۔نوجوان قاتل کی دلچسپی اس تحریک میں تھی جو دوسرے مسالک کے وابستگان کو گستاخ خیال کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شدت پسندی کازہر معاشرے میں پھیل چکا ہے۔معلوم نہیں ہے کون، کب،کہاں، کس کو گستاخ قرار دے کر قتل کردے۔مدرسہ میں رو نما ہونے وا لے واقعہ کے باعث بہت سے اہل قلم مدارس کو موردِ الزام ٹھرائیں گے جیسے قصور کے واقعہ پہ پنجاب حکومت کو اور مردان کے واقعہ پہ خیبر پختونخواہ حکومت کو الزام دیاجا تا ہے۔یہ بات متفق علیہ ہے  کہ مجرموں کو سزا دی جائے اور حکومتیں اپنی ذمہ داریاں ادا کر تے ہوئے پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کو عوام کے مسائل حل کر نے میں فعّال بنائیں۔لیکن یہ مسائل سماج کی تمام اکائیوں کے لیے باعثِ تشویش ہونے چاہئیں۔ہم میں سے ہرشخص کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنا کردار کیسے ادا کر سکتا ہے؟ معصوم زینب،مظلوم نقیب اللہ، شھدائے ماڈل ٹاون اورمظلومینِ سانحہ بلدیہ وغیرہ کو انصاف دلانے کیلئے جلوس ،جلسہ اورمظاہرے کر نے سے پہلے،  اجتماعی طور پر،اداروں کی نا کامی،انصاف کی عدمِ دستیابی ،شدت پسندی اور سماج میں اخلاقی پستی جیسے مسائل کیلئےحل تجویز کریں۔ بے شک سیاسی دکان،عوامی پذیرائ اور گروہی شناخت کا کاروبار ٹھپ ہوجائے لیکن حل ایسا ہو جو مستقل طور پر،  ہمیں ترقی اور امن کے راستے پہ  ڈال دے ۔ان مسائل کے علاج کے لئے ہم سب کو مل جل کر سوچنا ہوگا۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply