بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی۔۔عمران حیدر تھہیم

مَیں حالیہ کے۔ٹو حادثے کے بعد مسلسل ایک ہی مطالبہ کر رہا ہوں کہ اِس حادثے کی جامع تحقیقات کروائی جائیں کیونکہ یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں ہے۔
اِس حادثے کے بعد بحیثیت قوم ہمارا ردّ عمل ہمارے دھرتی پر سیاحت و کوہ پیمائی کے فروغ کے مستقبل کا تعیّن کرے گا۔ پاکستان بطورِ ریاست اور پاکستانی عوام بطورِ قوم اپنی سرزمین سے بےحد پیار کرتے ہیں اور ہمارے ایک iconic climber کی جان جانے کے بعد ہم نے اگر ٹھان لی کہ سیاحت اور کوہ پیمائی پر اب ہم نے خاص توجہ دینی ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل نشے کی لعنت سے بچ کر صحت مندانہ کھیل کی طرف راغب ہو تو یقین جانیے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اتنا پوٹینشل ہے کہ ایک اکیلی سیاحت و کوہ پیمائی کی صنعت ہی ہمیں بین الاقوامی قرضوں سے نجات دِلا سکتی ہے۔
گُزشتہ ایک ہفتے کے دوران کے۔ٹو حادثے سے متعلق نہ صرف پاکستان میں عوامی سطح پر سوالات اُٹھانے میں تیزی آئی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی بین الاقوامی کوہ پیما کمیونٹی بہت سنجیدہ سوالات اُٹھا رہی ہے۔ اور اِن سوالات کا ہدف نہ صرف 10 شرپاؤں پر مُشتمل وہ نیپالی ٹیم ہے جس نے کے۔ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کا دعویٰ کیا ہے بلکہ نیپال کی مشہورِ زمانہ کمپنی سیون سمٹ ٹریکس SST پر بھی تنقیدی سوالات کی بھرمار ہو چُکی ہے کیونکہ اُنہی کی بَدانتظامی کے باعث 4 فروری کی رات کے۔ٹو کے کیمپ 3 پر وہ کچھ ہوا جس کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کے۔ٹو پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنا کوہ پیمائی کی دُنیا میں ایک ناممکن کام سمجھا جاتا ہے۔ دُنیا کے 14 بڑے پہاڑوں میں سے ایک کے۔ٹو ہی واحد پہاڑ تھا جو کبھی بھی موسمِ سرما میں سر نہیں کیا جاسکا تھا۔ اِس سال کے ونٹر سیزن کےلیے کوہ پیمائی کی تاریخ کی سب سے بڑی تعداد یعنی تقریباً 60 کوہ پیما قسمت آزمائی کےلیے پاکستان آئے۔ اس میں آدھی سے زیادہ تعداد میں بین الاقوامی کوہ پیما نیپال کی ایک مشہور کمپنی سیون سمٹ ٹریکس SST کمرشل مُہم جُوئی کے طور پر لے کر آئی۔ پاکستان کے عالمی شُہرت یافتہ کوہ پیما سکردو کے مُحمّدعلی سدپارہ اپنے بیٹے ساجد علی سدپارہ کے ہمراہ آئس لینڈ کےکوہ پیما جان سنوری کیساتھ اس تاریخی مُہم جُوئی کا حصّہ تھے جبکہ 3 مختلف نیپالی ٹیمز کے 10 نیپالی شرپاؤں نے 16 جنوری کو کے۔ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کا دعویٰ کردیا جسے پاکستان میں کوہ پیمائی کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے “الپائن کلب آف پاکستان” نے تو تسلیم کر لیا تاہم عالمی سطح پر کلائمبنگ کمیونٹی میں اس بابت تسلیم اور تشکیک کے مِلے جُلے رُحجانات سامنے آئے۔
سب سے پہلے Russian Climb کے ٹویٹر ہینڈل کی خاتون لکھاری Elena نے نیپالیوں سے 16 جنوری کی سمٹ کی evidences مانگیں اور 22 سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ جاری کیا۔ جس پر نیپالیوں نے evidences مانگنے والوں ہر racism کا الزام لگا دیا کہ چونکہ تاریخ میں پہلی بار صرف All Nepalese Sherpa Team نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے اس لیے مغربی کوہ پیماؤں کو ہماری کامیابی ہضم نہیں ہو رہی۔ حالانکہ یہ ایک معمول کا مطالبہ تھا۔ کیونکہ دُنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کسی چوٹی کو سر کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہاں اس کی evidences بھی مانگی جاتی ہیں۔ خُود نیپالیوں کے اپنے مُلک میں کسی کو بھی تب تک ماؤنٹ ایورسٹ سمیت تمام بڑے پہاڑ سر کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جاتا جب تک کہ اپنی سمٹ کی evidences پیش نہ کر دی جائیں۔ اسی مقصد کےلیے نیپال میں Himalayan Data Base کا ایک ادارہ قائم ہے جس کی خاتون سربراہ کی طرف سے جاری شُدہ تصدیق کے بعد ہی کامیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اُس بُزرگ خاتون نے خُود کبھی کوہ پیمائی نہیں کی لیکن summit claim کےلیے اُسکی ماہرانہ رائے ہی حتمی سمجھی جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں نیپال نے بھارت کے دو میاں بیوی کوہ پیماؤں کے summit claim کو جعلی قرار دے دیا اور بھارت کی حکومت کو اِس بارے لکھا ہے۔ یہ جھوٹا دعویٰ عالمی سطح پر بھارت کی جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ اِس کے علاوہ بھی ماضی میں بہت سے summit claims جھوٹے اور متنازعہ ثابت ہو چُکے ہیں۔ معلوم نہیں الپائن کلب آف پاکستان نے کن evidences کی بُنیاد پر نیپالیوں کی سمٹ کو تسلیم کیا ہے۔ اگر نیپالیوں نے واقعی قابلِ اعتبار evidences پیش کی ہیں تو الپائن کلب کو چاہییے کہ وہ اِس بحث کو ختم کرتے ہوئے موجودہ حالات کی سنگینی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اُن evidences کو پبلک کردے۔
اب آتے ہیں کہ دُنیا میں اس سمٹ پر شکوک و شبہات نے کیوں جنم لیا۔
چونکہ کے۔ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنا کوہ پیمائی کے کھیل کی معراج سمجھا جاتا ہے اس لیے دُنیا بھر کی کلائمبنگ کمیونٹی اس پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ ہم پاکستانیوں نے تو نیپالیوں کی خُوب پذیرائی اور آؤبھگت کی اُن کے دعوے کو مَن و عن تسلیم کرلیا تاہم مغربی دُنیا نے نیپالیوں سے evidence مانگنا شروع کردیں۔
یہاں مَیں یہ بھی وضاحت کردوں کہ بین الاقوامی ایس۔او۔پی کے مطابق کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کی کیا کیا شہادتیں پیش کرنا ضروری ہوتی ہیں۔
1. آج کے جدید دور میں کوہ پیماؤں کے پاس سیٹلائیٹ فون ہوتا ہے اور اکثر جی۔پی۔ایس ٹریکرز ہوتے ہیں جو کوہ پیماؤں کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی پوزیشنز اور لوکیشنز کا پتہ دیتے ہیں۔ سیٹلائیٹ فون وقت، تاریخ، ہوا کا دباؤ، لوکیشنز کے longitude اور latitude کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ آج کل عموماً سیٹلائیٹ فون Thuraya کمپنی کے استعمال ہورہے ہیں۔ اِس کے علاوہ Garmin نامی کمپنی کے tracker بھی استعمال ہوتے ہیں جو براہِ راست لوکیشن یعنی Live Locations فراہم کرتے ہیں۔ موجودہ مُہم جُوئی میں آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جے۔پی موہر کے پاس گارمین کمپنی کے ٹریکرز تھے۔ اِس کے علاوہ جان سنوری کے پاس سیٹلائیٹ فون بھی موجود تھا۔
نیپالیوں کے پاس کیا کیا تھا، راوی اس بارے خاموش ہے کہ کہیں racism کا الزام نہ لگ جائے۔ ?
2. کسی بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر وہاں سے لی گئی وقت اور تاریخ کے ساتھ GPS ریڈنگ کی فوٹو جس کی سکرین پر پہاڑ کی بُلندی واضح لکھی نظر آئے مثلاً کے۔ٹو کی چوٹی پر یہ بُلندی 8611 میٹر ہے اور کے۔ٹو کے کوارڈینیٹس ذیل ہیں۔
35° 52′ 51.5316” N
and
76° 30′ 29.1672” E
ان تینوں ریڈنگز کیساتھ کوہ پیما کی اپنی فوٹو یا سیلفی ہو۔
3. چوٹی کے اطراف میں 360 ڈگری کی فوٹوز جس سے اطراف کے دیگر پہاڑ بھی نظر آتے ہوں۔ کیونکہ اطراف والی جگہیں تو تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
4. اُس خاص وقت کے موسمی حالات کی تصویریں جب چوٹی سر کی گئی ہو۔ کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ چوٹی سر کرنے والے کوہ پیماؤں کی فوٹوز میں موسم sunny ہو جبکہ بیس کیمپ پر ریڈیو کے ذریعے بتایا ہو کہ برفباری ہو رہی ہے۔
5. نیپال میں ہمالین ڈیٹا بیس والے کسی بھی summit claim کی پیش کردہ فوٹوز اور ویڈیوز کا فرانزک تجزیہ کرتے ہیں کہ کہیں وہ فوٹو شاپ شُدہ تو نہیں؟ اسی تجزیے کی بُنیاد پر ماضی میں سینکڑوں سمٹ کلیمز جعلی قرار دیے جا چُکے ہیں۔
چنانچہ اِن مندرجہ بالا تمام پیرامیٹرز کی روشنی میں بین الاقوامی کلائمبنگ کمیونٹی اگر نیپالیوں سے evidences مانگ رہی ہے تو اِس میں غلط کیا ہے؟
اِس ضمن میں ذیل سوالات عین منطقی ہیں
1. کیا نیپالیوں کے پاس سیٹلائیٹ فون، GPS، سیٹلائیٹ ٹریکرز سمیت استعمال کیے جانے والے gadget کی ریڈنگ پر مُشتمل evidence موجود ہیں؟
2. کیا نیپالی اور اُن کے تمام حمایتی عین اُسی سٹینڈرڈز کے مطابق جس کے تحت وہ نیپال میں دوسروں کے سمٹ کلیمز کو قبول یا ردّ کرتے ہیں اپنی اِس موجودہ summit claim کی تحقیقات کروانے کےلیے اپنی فوٹوز اور ویڈیوز پیش کرنے کےلیے تیّار ہیں تاکہ اُنکا فرانزک تجزیہ کیا جا سکے؟
3. اگر نیپالیوں پر ڈیتھ زون میں فکسڈ لائن کی رسّیاں کاٹنے یا اُتارنے کا الزام ہے تو اِس الزام کو جھوٹا ثابت کرنے کےلیے کیا اُنکے پاس کوئی ٹھوس شہادتیں موجود ہیں؟
4. پولینڈ کی ایک خاتون کوہ پیما نے نیپالی شرپاؤں پر الزام عائد کیا ہے کہ نیپالیوں نے بیس کیمپ پر اُس سے کہا تھا کہ ہم کے۔ٹو پر اپنے بعد بھی کسی کو نہیں چڑھنے دیں گے اور اپنی لگائی ہوئی رسّیاں کاٹ دیں گے۔ اِس مؤقف پر منگما جی شرپا کا غُصّے پر مبنی ایک کھوکھلا مؤقف ہی سامنے آیا ہے کوئی لاجیکل بات تاحال سامنے نہیں آ سکی۔
5. کینیڈا کے فوٹو گرافر ایلیا سیکلی کی آکسیجن چوری کرنے کے الزام کا کوئی لاجیکل جواب ابھی تک SST کی طرف سے کیوں نہیں آیا۔ SST کے لیڈر چھانگ داوا شرپا بھی اپنے انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کوئی بھی ٹھوس دلیل دینے میں ناکام رہا ہے۔
6. سلوانیہ کے کوہ پیما توماز روٹر کے انٹرویو میں بتائے گئے حقائق کے جواب میں بھی نیپالی نرمل پُرجا اور منگما جی شرپا نے ابھی تک صرف گالم گلوچ سے ہی کام لیا ہے۔ کیا توماز کے الزامات کا نیپالیوں کے پاس کوئی مدلّل جواب ہے؟
7. بلغارین کوہ پیما اتاناس سکاتوف کے فکسڈ لائن سے پِھسل کر گِرنے اور بعد ازاں جاں بحق ہونے کے وقت SST کا ڈینڈی شرپا سکاتوف کی جو ویڈیو بنا رہا تھا وہ ویڈیو تاحال کیوں جاری نہیں کی گئی تاکہ اس حادثے کی تو اصل وجوہات معلوم ہو سکیں۔ کیا نیپالی اُس ویڈیو کیساتھ بھی چھیڑخانی اور اپنے مطلب کی ایڈیٹنگ کرنے میں مصروف ہیں؟
8. سیون سمٹ ٹریکس کی بَدانتظامی کے باعث 4 فروری کی رات کیمپ 3 پر اُن کے کلائنٹس کےلیے خیمے نصب نہیں تھے جسکی وجہ سے جان سنوری ٹیم کو اپنے خیمے میں انسانی ہمدردی کے تحت دو تین دیگر کوہ پیماؤں کو پناہ دینا پڑی جس کے باعث جان سنوری ٹیم اپنی سمٹ پُش کےلیے مناسب آرام نہ کر سکی۔ کیا اس پر نیپالی کمپنی اخلاقاً مرنے والے کوہ پیماؤں کے لواحقین اور اُن ممالک کی عوام سے باقاعدہ و اعلانیہ معافی مانگیں گے؟
9. نیپالی کمپنی SST کے لیڈر چھانگ داوا شرپا کیا اِس بات کی وضاحت کریں گے کہ اُنہوں نے 6 فروری کو لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کےلیے بیس کیمپ پر موجود اپنی کمپنی کے اُن شرپاؤں کو بھیجنے سے کیوں انکار کر دیا تھا جو کہ دراصل مُکمّل acclimatised تھے؟
یاد رہے کہ چھانگ داوا شرپا نے صرف آرمی کے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فضائی سرچ آپریشن میں حصّہ لیا۔ یہ کام تو ہمارے پائیلٹ خود بھی کر سکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔
10. کیا چھانگ داوا شرپا کی یہ حرکت انتہائی شرمناک اور غیراخلاقی نہیں ہے کہ لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کےلیے جاری آپریشن کے دوران ہی عین اُسوقت جب پاکستان آرمی ہیلی کاپٹرز مشن جاری رکھے ہوئے تھے اور پاکستان کے دو ہائی آلٹیٹوڈ پورٹرز گراؤنڈ سرچ کےلیے کے۔ٹو پر اُتارے گئے تھے SST کمپنی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر بیس کیمپ سے سکردو واپس چلی آئی تھی۔ کیا نیپالیوں کو ذرا سی بھی empathy نہیں دکھانی چاہیے تھی؟
اِس ساری صُورتحال کے پیشِ نظر میرا اِس کھیل سے دلچسپی رکھنے والوں اور میری تحریریں پڑھنے والوں سے بھی ایک سوال ہے۔ اور وہ یہ کہ نیپالی شرپاؤں کے رویّے سے اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی اُنکی تحریروں کے مطابق سمٹ کلیمز کی evidences مانگنا کیا اُنکے nationalism پر حملہ ہے اور کیا اِسے ہی racism کہتے ہیں؟
بات دراصل یہ ہے کہ ساری دُنیا نیپالی شرپاؤں کی کوہ پیمائی کی اعلیٰ صلاحیتوں کی تو معترف ہے لیکن یہ بات صرف کوہ پیما کمیونٹی کے سنجیدہ کھلاڑی ہی جانتے ہیں جنکا اِن شرپاؤں سے نیپال میں پالا پڑتا ہے کہ چند ایک اچھّے اور شریف النفس غریب نیپالی شرپاؤں کو چھوڑ کر باقی پرلے درجے کے انتہائی جھوٹے، مکّار، دھوکے باز، وعدہ خلاف، کینہ پرور، پیسے کے پُجاری اور بُغض کے مارے ہوئے چند مفادات پرست لوگ ہیں جو نیپال میں تو اکثر کوہ پیمائی کے دوران غیر قانونی اور غیر اخلاقی دونوں طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر اپنے مستقبل کے کاروباری مفادات کےلیے واردات ڈالی ہے اور ہماری کلائمبنگ کمیونٹی کے بھولے بھالے لوگوں کی دل آزاری کرکے رفوچکّر ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کی صنعت پر جس طرح کاروباری قبضہ کرنے کے اِن کے عزائم ہیں وہ اگر اب بھی آشکار نہ ہوئے تو پھر پتہ نہیں کونسا حادثہ باقی ہے جو اربابِ اختیار کو جھنجھوڑے گا۔
جتنے بھی نیپالی شرپاؤں نے کے۔ٹو سر کرنے کا دعویٰ کیا ہے یہ تمام لالچی، پیسے کے پُجاری اور مفادات پرست ہیں۔ ابھی یہ اپنی سمٹ گلوری کے نشے میں مخمور ہیں اس لیے ہر اُس بین الاقوامی کوہ پیما کو گالیاں دے رہے ہیں جو اُن پر سوال کرتا ہے۔ ابھی تک تو صرف پولینڈ، سلوانیہ، کینیڈا اور یونان کے کلائنٹس نے صدائے احتجاج بُلند کی ہے آپ دیکھیے گا آنے والے دنوں میں عالمی سطح پر مزید شور اُٹھے گا۔
تاہم موجودہ حالات میں ہماری حکومت کو چاہییے کہ جلد از جلد کے۔ٹو حادثے کی تحقیقات کروا کر دُنیا کو پیغام دے کہ ہم اپنے قومی ہیروز کی کتنی قدر کرتے ہیں۔ محمّد علی سدپارہ کے بیٹے اور اُسکی فیملی کی مالی معاونت بہت اچھی بات ہے لیکن اصل کام گلگت بلتستان کی سیاحت اور کوہ پیمائی سے وابستہ افراد، گائیڈز، ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز اور ٹور آپریٹر کمپنیوں کےلیے روزگار کے اسباب پیدا کرنا اور اس مقصد کےلیے جامع اور ٹھوس قانون سازی کرنا ہے۔ کوہ پیمائی کی تاریخ نیپالیوں کی بَداعمالیوں سے بھری پڑی ہے۔ مغربی کوہ پیماؤں کی ایک مجبوری ہے کہ چونکہ اُنہوں نے ہر سال نیپال میں کلائمبنگ کےلیے جانا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نیپالیوں کے خلاف ایک حد سے آگے نہیں جاتے۔ پاکستان میں گلگت۔بلتستان کے ہائی آلٹیٹوڈ پورٹرز اور یہاں کے ٹور آپریٹرز سے تو اِن مغربی کوہ پیماؤں کو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ یہاں اُنکے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوتی ، اس لیے ہمیں مغربی کوہ پیماؤں کے مطالبے کو بھی رد نہیں کرنا چاہییے۔ وہ بھی کے۔ٹو حادثے کی تحقیقات چاہتے ہیں۔ پاکستان کے قومی ہیرو مُحمّد علی سدپارہ کے بعد بحیثیت پاکستانی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم نیپالیوں سے سوالات کریں کہ اُنکی کمپنی SST نے پاکستان کی سرزمین پر ایسی بَدانتظامی کیوں کی جس کے باعث کوہ پیمائی کی کمیونٹی کے بہترین کوہ پیما جان سے گئے۔ سپین کے Surgie Mingote، بلغاریہ کے Atanas Skatov سمیت جان سنوری، جے۔پی۔موہر اور مُحمّد علی سدپارہ کی اموات اس بات کی متقاضی ہیں کہ نیپالی شرپاؤں سے اُن کے سمٹ کلیم کی شہادتیں مانگنے کے ساتھ ساتھ نیپالی کمرشل کمپنی SST سے 4 فروری کی رات کیمپ 3 پر ہونے والی بَدانتظامیوں کا حساب بھی مانگا جائے۔
اِس ضمن میں نیپالی شرپاؤں کے حامی اور کے۔ٹو واقعے کو محض اتفاقی حادثہ قرار دینے والے پاکستان بھر کے میدانی علاقوں کے تمام ایسے فیس بُک گروپس، پیجز، ٹویٹر ہینڈلز سے جو کہ مفاد پرستی اور مصلحت کوشی کا شکار ہو چُکے ہیں اور جنہیں اِس بات کا ڈر ہے کہ نیپالیوں سے سمٹ کلیم کی شہادتیں مانگنے پر نیپالی اُن سے ناراض ہو جائیں گے اور اُنکا نیپال میں کاروبار متاثر ہو جائے گا، صرف اتنا ہی کہوں گا کہ علی سدپارہ کو اگر واقعی اپنا ہیرو سمجھتے ہیں تو بہترین موقع یہی ہے کہ پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کی تاریخ کے اس المناک سانحے کے بعد جامع تحقیقات کے نتیجے میں مؤثر قانون سازی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اِس کے راستے کی دیوار مَت بنیں۔ نیپالیوں کی چاپلوسی چھوڑ دیں۔ گلگت۔بلتستان کے شعبہء سیاحت کو پَھلنے پُھولنے دیں۔ آپ بےشک کاروبار کریں لیکن وطن پرستی کے جذبے اور غیرت مندی کے ساتھ۔
کیونکہ بقولِ اقبال۔۔۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تَگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
آخر میں میری تمام پڑھنے والوں سے گُزارش ہے کہ میری تحریریں محض other perspective ہیں۔ اور اِنکا مقصد تعمیری ہے نہ کہ تخریبی۔ میری تحریروں میں جو لوگ تخریب کا پہلو ڈُھونڈتے ہیں مَیں اُنکی کوتاہ فہمی پر ماتم کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ میرا مقصد پاکستان میں سیاحت اور کوہ پیمائی کا حقیقی فروغ ہے۔ ایک فیس بُک گروپ یا پیج بنا کر، مافیا کا رُوپ دھار کر پاکستان کے میدانی علاقوں کے سیاحت پسند عوام سے پیسے بٹور کر گلگت۔بلتستان کے سیاحت و کوہ پیمائی سے وابستہ سادہ لوح افراد کا حق کھانا میرا ہرگز مقصد نہیں ہے۔ میدانی علاقوں کے جو ٹورآپریٹرز یا اُنکے بینیفشری لوگ مجھ سے خائف ہیں اُن سے گُزارش ہے کہ خُود کو پاکستان کے ٹیکس کے نظام میں لا کر ڈاکیومنٹ کروائیے محض مڈل مین بن کر بس کنڈکٹر کی طرح ایک بس کی سواریاں دوسری بس کو بیچنے کے عمل کو سیاحت کی خدمت نہیں کہا جاسکتا۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply