کشمیر جنت نظیر۔۔شہباز افضل

ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی اچانک سلمان صاحب صدر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کا میسج موصول ہوا کہ پی ایف سی کے سلیکٹدڈ ممبرز اگلے ہفتے کشمیر جا رہے ہیں، 26 فروری کو رات آٹھ بجے ہم سب ائیر فورس کلب ( AFOSH CLUB)اکٹھے ہوئے ،یہاں سے آگے ہمیں اپنے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ رات 2بجے ہم اسلام آباد کشمیر ہائی وے پر پہنچ گئے، یہاں سے باقی دوستوں کو پک کرنا تھا اور دوستوں کو رسیو کرکے باقاعدہ سفر کا آغاز ہوا۔

اس سارے سفر کے انتطامات روڈ اینڈ سٹوری ( Road & Story) نے کیے تھے ۔ روڈ اینڈ سٹوری کی طرف سے حنا ایمان اس سارے ٹرپ کو سنبھال رہی تھیں ۔ انٹروڈکشن کرواتے اور ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہم لوگ نیلم کنارے پہنچ گئے ،مظفر آباد سے تھوڑا پیچھے ایک ہوٹل میں  ناشتے کا انتظام تھا۔ جب ہم ناشتے کے لیے بس سے باہر نکلے تو موسم بہت ہی حسین تھا ہلکی ہلکی بارش نے سفر کی ساری تھکان بھلا دی، سب دوست منہ ہاتھ دھونے اور فریش ہونے میں مصروف تھے لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے ایک ہی خیال تھا کہ ایک آدھ تصویر بنالی جائے اور میں نے وہی کیا۔

ہوٹل سے نیلم کا نظارہ بہت ہی دلفریب لگ رہا تھا اور بارش نے اس حسن کو مزید نکھاردیا تھا ہر طرف ہریالی نظرآ رہی تھی اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف ۔ اس دفعہ نیلم مجھے کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا کیونکہ میں نے نیلم کے پانی کو ہمیشہ نیلے رنگ میں ہی دیکھا تھا لیکن ابھی گلیشئرز پگھلنا شروع نہیں ہوئے اور نیلم کے پانی میں مٹی ہونے کی وجہ سے وہ کسی بھی عام دریا کی طرح ہی نظر آ رہا تھا لیکن اس کے پانی کی آواز آج بھی اتنی ہی خوشگوار تھی جتنی ہمیشہ ہوتی ہے یہ آواز اگر آپ اکیلے بیٹھ کر سنیں ، تو کسی بھی  موسیقی کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔

ناشتے کے بعد ہمارا مظفر آباد سے نیلم کی طرف سفر شروع ہوا ،جوں جوں  منزل قریب آتی جارہی تھی سردی کا احساس اور بارش بڑھتی جا رہی تھی سردی کی اس شدت کو ختم کرنے کے لیے ایک جگہ رک کر قہوہ پیا گیا، تھوڑا مزید سفر گزرا تو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کا دیدارہوا اور اس کا ایک سپل وے کھلا ہوا دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستان میں ابھی بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ تھوڑا اور آگے گئے تو ہماری دائیں جانب ایک بہت ہی خوبصورت وادی میں انڈین فلیگ لگا ہوا نظر آیا تو سب حیران ہوئے پھر سر اشرف شریف صاحب نے بتایا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی وادی کا کوئی گاؤں ہے، یہ سن کر تھوڑا افسوس ہوا کہ اتنی خوبصورت جگہ چند میٹرکے فاصلے پر ہونے کے باجود بھی آپ جا نہیں سکتے، لیکن پھر اچانک ان لوگوں کا خیال ذہن میں آیا جن کے رشتے دار صرف ایک پل کے فاصلے پر سامنے بیٹھے ہیں اور وہ صدیوں سے انہیں گلے نہیں مل سکے، ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک نہیں ہو سکے، ان کا دکھ تو ہم سے بہت زیادہ تھا اس لیے اپنا دکھ فوراً  بھول گیا۔ خیر میرا ماننا ہے کہ ایک دن آئے گا جب ہماری حکومتوں کو یہ احساس ہوگا کہ سرحدیں ملکوں کی ہوتی ہیں دلوں کی نہیں ۔

بارش کی وجہ سے تھوڑی تھوڑی لینڈ سلائیڈنگ ہو رہی تھی جس کی وجہ سے سفر تھوڑا لمبا ہوگیا تھا ہوٹل پہنچ کر ہم لوگوں نے فریش ہوکر لنچ کیا اور ریسٹ کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے کیونکہ بارش مسلسل ہو رہی تھی جس کی وجہ سے گھومنے کا پلان نہیں بن پایا تھا لیکن کچھ زندہ دل دوستوں نے بارش میں بھی خوب انجوائے کیا اور فوٹو گرافی کی ،ان زندہ دل دوستوں میں میرا نام بھی شامل ہے ۔ رات کو ڈنر کے بعد سب نے گپ شپ کیا اور لڈو کھیلی آپس میں مل کر گانے گائے ، شاعری سنائی اور صابر بخاری صاحب نے سرائیکی جھومر دکھا کر محفل لوٹ لی ۔

وہاں جا کر ہماری وقاص اور مشرف سے ملاقات ہوئی جنہوں نے ہمیں بتایا کہ لاہور کی ایک این جی او سائٹ فاؤنڈیشن ( CYTE Foundation) نیلم ویلی میں بچوں کی مفت اور معیاری تعلیم کے لیے سکول چلا رہی ہے تو سب نے ملکر اگلی صبح ان سکولوں کو دیکھنے کا پلان بنایا۔ صبح ناشتے کے بعد سائٹ فاؤنڈیشن کے مینجر عبدللہ مظفر کے ساتھ ہم سکول دیکھنے کے لیے نکل پڑے۔ سائٹ فاؤنڈیشن کم وسائل کے حامل خاندانوں کی مدد کر رہی ہے۔ یاسر رشید نے نیلم ویلی میں ایسے کئی مستحق بچوں کے تعلیمی مصارف اپنے ذمے لے لئے ہیں جو مالی مشکلات کے باعث تعلیم جاری رکھنے کے قابل نہ تھے۔ آٹھویں جماعت کی ایک بچی کی کہانی سن کر ہم سب کی آنکھیں بھیک گئیں‘ وی لاگردعا تو باقاعدہ رونے لگی۔ اس بچی کے والد ایل او سی کے قریب بارودی سرنگ کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔ چچا ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں مارے گئے‘ یہ بچی تعلیم کو خیر باد کہہ کر اپنی بزرگ دادی اور دیگر بہن بھائیوں کی کفالت کر رہی تھی۔ سائٹ فاؤنڈیشن نے اس کو سکول میں داخل کرایا۔

کچھ مخیر افراد نے اس کے گھریلو اخراجات کے لیے پانچ ہزار روپے مہینہ کی ذمہ داری لی۔ سائٹ فاؤنڈیشن کی مدد سے اب وہ تعلیم پر توجہ دے رہی ہے۔ سات سے آٹھ برس کی تین بچیاں اور دو بچے بکریوں کے رسے تھامے سکول میں کھڑے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سائٹ فاؤنڈیشن نے کچھ گھرانوں کو بکریاں خرید کردی ہیں۔ ۔ انتہائی غریب گھرانوں کے لیے یہ کام کسی انڈسٹری سے کم نہیں ہے جو کہ وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے ۔ سائٹ فاؤنڈیشن نے اگرچہ لاہور اور چند دوسرے شہروں میں بھی بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا کام شروع کر رکھا ہے لیکن زیادہ توجہ آزادکشمیر پر دکھائی دی۔ ہم نے کنڈل شاہی آبشار کے قریب دو سکول دیکھے‘ اٹھ مقام کے قریب ایک سکول کا دورہ کیا۔ ان سکولوں میں پریپ سے لے کر انٹر میڈیٹ تک تعلیم دی جا رہی ہے۔

اکثر اساتذہ ایم اے ایجوکیشن‘ ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس‘ ایم اے ہسٹری اور سائنس مضامین میں ماسٹرز ہیں۔ یہ مقامی نوجوان ہیں۔ کلاس رومز میں جا کر دیکھا تو اپنا بچپن دماغ ں مین گھومنے لگا کچھ وقت بچوں کے ساتھ بنچوں پر بیٹھ کر اپنے کھوئے ہوئے بچپن کو دوبارہ دیکھنا نصیب ہوا۔ پھر جب ان بچوں کی مشکل زندگی کے  بارے میں سوچا کہ کیسے وہ بمبوں اور گولیوں کی آواز میں بیٹھ  کر تعلیم حاصل کرتے ہیں تو دل چاہا انہیں گلے لگا لوں۔ ان کی طرف دیکھتا تو آنکھوں میں پانی نظر کو دھندلا دیتا۔ برف باری ہو یا بارش کئی چھوٹی چھوٹی بچیاں اور بچے ہر روز گھنٹوں پیدل پہاڑی سفر کر کے سکول آتے اور پھر اتنا ہی وقت لگا کر گھر پہنچتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ آزاد کشمیر اور دوسرے سرد علاقوں میں سویٹر اور کوٹ کی جگہ بچوں کو مخصوص رنگ کی جیکٹیں بطور یونیفارم پہننے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تعلیم سے ان بچوں کے لگاؤکا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ نویں جماعت کی ایک بچی کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گھاس کاٹتے ہوئے بارودی گولا پھٹنے کی وجہ سے ضائع ہو گئیں۔ بچی معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔ اب وہ مٹھی میں قلم لے کر لکھتی ہے۔ کراچی کے ایک صاحب ہیں عزیز الرحمن۔ کمپیوٹر اور آئی ٹی کے شعبے میں ان کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے بل گیٹس نے انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ انتہائی منکسر المزاج عزیز صاحب سائٹ فائونڈیشن سے منسلک ایک سکول کے چھوٹے سے کمرے میں بچوں کو کمپیوٹر کا استعمال سکھاتے ہیں۔ وہ سال کا کچھ حصہ آزادکشمیر کے بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ سائٹ فاؤنڈیشن اس علاقے کے بچوں کے لیے کسی ماں کا درجہ رکھتی ہے جو ان بچوں کو ان کے خواب پورے کرنے میں مد د دے رہی ہے ۔

اس سارے ٹوور میں ہمارے ساتھ میاں حبیب اللہ صاحب سنئیر صحافی و کالم نگار جوکہ ہمیشہ کی گروپ لیڈرکا کام سر انجام دے رہے تھے ملک محمد سلمان صاحب صدر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ جنہوں نے روڈ اینڈ سٹوری کے ساتھ ملکر اس سارے سفر کا اہتمام کیا۔ اشرف شریف صاحب سینئر صحافی اور کالمسٹ ان سے مل کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سچ میں استاد ہیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
اس ٹور کی سب سے ڈیسنٹ لیڈی میڈم روبینہ ڈائریکٹر ڈی جی پی آر، ہماری ہوسٹ روڈاینڈسٹوری کی طرف سے حنا ایمان ، ایک اچھے شاعر اور سینئر صحافی راجہ عتیق صاحب ، توصیف بھائی جنہوں نے اس سارے ٹور میں آبزرور کا کردار ادا کیا، صابر بخاری پی آر او منسٹری ایکسائز اور ہمارے ڈانسنگ سٹار، ایشال بٹ پیشے کے لحاظ سے پرگروام اینکر ہیں لیکن جب محترمہ کو غصہ آتا تھا تو اچھا بھلا شیدید ٹھنڈ والے موسم میں گرمی کا احساس ہونے لگتا تھا۔

فائزہ بخاری پیشے کے لحاظ سے اینکر ہیں لیکن ان کے بارے میں صابر بخاری صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی ناک بہت خوبصورت ہے اور مجھے تصویریں دیکھنے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ صوبیہ اشرف پیشے کے لحاظ سے پروڈیوسر لیکن خاموش اور خوش اخلاق ، وجاہت جو کہ نیوز اینکر ہے اور اس ٹوور میں میرا روم میٹ بھی تھا اس کے بارے میں باقی باتیں ہماری لڈو ٹیم کی دو خوبصورت لڑکیاں ایشال اور فائزہ بخاری بہتر انداز میں بیان کر سکتی ہیں۔ زہرہ بخاری جو کہ وکیل ہیں اور سوشل ایکٹوسٹ ہیں ، عبدللہ مظفر سائٹ فاونڈیشن کے منیجر وقاص احمد فیلڈ آفیسر سائٹ فاؤنڈیشن ، لیلہ شاہ، فاطمہ چٹھہ اور سب سے آخر میں ہماری دعا شاہ جو کہ  وی لاگر ہیں اور اس سارے ٹرپ میں لمحوں کو قید کرنے مطلب فوٹو گرافی کے فرائض  سر انجام دے رہی تھی۔

ہمارا ارادہ تھا کہ نیند اور تھکن کی پروا کئے بغیر زیادہ سے زیادہ علاقوں تک پہنچا جائے۔ لیکن بارش نے پورا ایک دن کمروں سے نکلنے نہ دیا۔ دو مقامات پر تازہ لینڈ سلائیڈنگ نے گاڑی کے گزرنے کا راستہ بہت تنگ کردیا۔ یوں سمجھیں ٹائر تین انچ نیچے ہو جاتے تو ہم سب جنت مکانی ٹھہرتے۔ پہاڑوں پر رہنے والوں کی زندگی بہت مشکل ہے۔ سیاحوں کو فارمیسی‘ صاف ٹوائلٹ اور کافی شاپس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ہر پانچ دس کلومیٹر پر حکومت ٹوائلٹ بنا کر ایک ہی جگہ پر تینوں سہولتیں فراہم کرے تو سیاحتی ریونیو بڑھ سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سائٹ فاؤنڈیشن کا شکریہ جنہوں نے ہمارے مشینی دلوں کو کچھ وقت کے لیے سہی بچوں کی زندگی میں گھلے درد کو محسوس کرنے اور پھر اسے اپنے قارئین تک پہنچانے کا موقع دیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply