افغانستان میں قیام امن کا بکھرتا ہوا خواب۔۔عبدالکریم

موسم سرما کی برف پگھل چکی تھی۔ لیکن اب بھی پگڈنڈیوں پر سفید روئی کی مانند کہیں کہیں  پڑی نظر آرہی  تھی۔ اورنگ آج اپنی زمینوں کو دیکھنے آیا تھا۔

اس کے روسی ساختہ جوتوں سے گیلی مٹی چمٹی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے وہ قدم اٹھانے میں دِقت محسوس کررہا تھا۔ اورنگ کا اجرستان کے دیگر باسیوں کی طرح روزگار بھی زمینداری سے  وابستہ ہے۔

اجرستان افغانستان کے صوبہ غزنی کا پہاڑوں میں گھِرا ہوا ایک چھوٹا سا ضلع ہے۔ اس علاقے میں صرف ایک فصل سالانہ سخت سردیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ علاقے میں روزگار کے دیگر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی اکثریت ہمسایہ ممالک پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔

اورنگ ہر سال کی طرح اس سال بھی گندم کی  کاشت کیلئے اپنے کھیتوں کو کارآمد بنا رہا تھا۔ اس نے زندگی کے چالیس سال توپوں کے سائے میں گزارے۔۔ لیکن آج اورنگ خوش دکھائی دے رہا تھا۔ انہیں شاہ وزیر نے بتایا تھا کہ افغانستان میں جنگ ہمیشہ کیلئے ختم ہونے والی ہے۔

وہ اپنی خوشی بیان نہیں کرپارہا تھا۔ وہ دن   ڈھل  نہیں رہا تھا۔ 29فروری کے دن کا ہر پل ان پر گراں گزر رہا تھا۔ وہ شام کا انتظار کررہا تھا۔ کیونکہ اورنگ کو خود بی بی سی پشتو سے خوشی کی اس خبرکی  تصدیق کرنی  تھی۔

کیونکہ اجرستان میں معلومات کے حوالے ذرائع ابلاغ کے دیگر ذرائع ناپید تھے۔

اورنگ کی طرح افغانستان کے دیگر لوگوں کو بھی امن معاہدے کا شدت سے انتظار تھا۔ کیونکہ افغانستان چالیس سال تک جنگ کی آگ میں جھلستا رہا۔ اس آگ کا ایندھن افغان عوام بنے ہیں۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ تو ہوگیا، لیکن  افغان عوام  امن معاہدے کے بعد بھی جنگ میں جھلس رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا افغانستان کیلئے خصوصی مشن برائے امن کے حال میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امن معاہدے کے بعد اب تک 3035 افغان شہری جا ن سے گئے اور 5785شہری جنگ کے دوران گھائل ہوئے ہیں ۔

یاد رہے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ امن معاہدہ گزشتہ سال 29فروری 2020کو ہوا تھا، لیکن اب اس معاہدے پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

امریکہ نے طالبان پر الزام عائد کیا ہے ، کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کررہا ہے ،جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ طالبان نے اس الزام کی تردید کی، اور اس کے ساتھ اپنے جنگجوؤں کو حکم جاری کیا کہ   کوئی بھی شخص دیگر دہشتگرد تنظیم کے رکن کو پناہ نہیں دے گا۔ اگر کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو وہ سزا کا مستحق ہوگا۔

اس کے علاوہ طالبان کے دوحہ کے سیاسی دفتر سے امریکی عوام کے نام ایک خط جاری کیا ۔ اس خط میں امریکی عوام پر زور دیا کہ وہ جنگ کے خاتمے کیلئے امریکی حکومت پر زور ڈالیں۔

افغانستان میں قیام امن افغان عوام کا ایک دیرینہ خواب ہے،لیکن عالمی قوتوں اور ہمسایوں کے  مفادات کی وجہ سے یہ خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

افغانستان میں امن کے قیام سے     زندگی ایک بار پھر  جی اٹھی  تو اس خطے پر بھی اس کے مثبت اثرات  مرتب ہوں  گے۔

افغانستان کے امور کے ماہر احمد رشید اپنی  کتاب” طالبان ” میں اس بابت لکھتے ہیں ”افغانستان میں قیامِ  امن سے پورے خطے کو بے پناہ فوائد حاصل ہوں گے۔ افغانستان میں تعمیرِ نو سے اقتصادی فائدہ ہوگا۔ افغان جنگ سے اس خطے میں اسلحہ کی جو بھرمار ہوئی ہے، منشیات، دہشتگردی، فرقہ پرستی اور کالے دھن کے سبب سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ ان سے عہدہ برآ  ہوسکے گا۔ علاقے میں پاکستان کی تنہائی ختم ہوسکے گی۔ وہ وسط ایشیا سے مواصلات کا سلسلہ قائم کرسکے گا۔ اور اس کے توسط سے وسط ایشیائی ریاستوں کو سمندر تک رسائی کا بہت چھوٹا راستہ مل جائے گا۔ ایران عالمی برادری میں اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرسکے گا۔ اس سے وسطی ایشیاء اور مشرقی وسطیٰ کے مرکز میں ایک بڑی تجارتی ریاست کا درجہ مل جائیگا۔ ترکی کو افغانستان میں ترکی نسل کے لوگوں سے اپنے تاریخی رشتے بحال کرنے میں مدد ملے گی۔

چین کو زیادہ تحفظ کا احساس ملے گا اور اسے پسماندہ مسلم صوبے سنکیانگ کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی مہلت ملے گی۔

روس وسطی اور جنوبی ایشیاء سے زیادہ حقیقت پسندانہ روابط قائم کرسکے گا۔ ان روابط کی اساس اقتصادی حقائق پر ہوگی۔ چھوٹی اجارہ دارانہ خواہشات ان کی محرک نہیں ہوں گی۔

افغانستان سے گزرنے والی تیل اور گیس کی پائپ لائنیں، افغانستان کا تعلق علاقے بھر سے قائم کرنے کا واسطہ ہوں گی۔ امریکہ وسط ایشیاء کے بارے میں زیادہ حقیقت پسندانہ پالیسی وضع کرسکے گا۔ اور ایک محفوظ ماحول  میں علاقے کی توانائی کے وسائل سے استفادہ حاصل کرسکے گا اور دہشت گردی سے  موثرطور پر نمٹ سکے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اگر افغانستان میں جنگ جاری رہتی ہے اور ہم اسے نظر انداز کیے رکھتے ہیں تو پھر بدترین نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply