وزیراعظم صاحب، اب بھی وقت ہے۔۔نعمان خان مروت

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی لڑائی جاری ہے اور روزبروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف اپنی پروپیگنڈہ ٹیم سے حملے کیے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہیں کر رہے۔ عام طور پر ماضی کی حکومتیں آئین میں ترامیم اور بل پاس کروانے کے لیے اپوزیشن سے مذاکرات کیا کرتیں تھیں۔ موجودہ حکومت اصلاحات اور تبدیلی کے لئے متبادل راستے تلاش کررہی ہے۔ سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کے معاملے کو دیکھ لیں حکومت پہلے ریفرنس دائر کرتی ہے پھر آئینی ترمیم کے ذریعے اسمبلی میں بل کا شوشہ چھوڑ تی ہے، آخر میں صدارتی آرڈیننس۔۔ بہرحال الیکشن کمیشن یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ایک آئینی ادارہ ہے اور آئینی اعتبار سے دو تھائی اکثریت سے قانون ساز اسمبلیوں سے بل پاس کرانا ہوگا۔ اپوزیشن کی جماعت پیپلز پارٹی صدارتی آرڈیننس کو عدلیہ کی بدنام کرنے کی حکومتی کوشش گردان رہی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ابلاغ اور پروپیگنڈے کی اس جنگ میں بظاہر اپوزیشن بھاری نظر آتی ہے۔ حکومت کے ترجمانوں کی ٹیم اپوزیشن کے بیانیے کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہی، کیونکہ جس مہارت اور تکنیک کی ضرورت ہے وہ دکھائی نہیں دے رہی۔ بہر حال اپوزیشن نے مارچ کے مہینے میں لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اس سال کے اختتام تک عوام یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہونگے کہ 2023تک عمران خان وزیراعظم رہیں گے یا پھر کوئی اور۔ لانگ مارچ ہی اصل میں اپوزیشن کا آخری سپل ہے یعنی اس سال پڑنے والے اس فائنل میچ میں حالات واضح ہو جائیں گے۔ اب تک کی صورت حال حکومت کےحق میں ہے مگر بڑھتی مہنگائی ایسا مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر وہ اپوزیشن عوام کو بڑی تعداد میں عوام کو گھروں سے باہر نکال سکتی ہے۔ موجودہ اپوزیشن کے اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو دیگر جماعتوں کے ساتھ ایک مقصد کے لئے اکٹھا کر دیا ہے، وہ اس کامیابی کے حقدار ضرور ہیں جس کے لئے انہوں نے بڑی محنت کی ہے۔

پارلیمنٹ میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ عوام کو انکی حب الوطنی پر شک نہیں مگر ایسے الزامات روز جب عام آدمی سنتا ہے تو کچھ اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا ۔ حکومت سے عوام کی توقعات ہیں۔ وزیراعظم متعدد بار مہنگائی میں اضافے کے خلاف نوٹس لے چکے ہیں مگر اس کا اثر کچھ خاص نہیں ہوا۔گزشتہ 15 ماہ میں حکومت نے ریکارڈ قرض لیا۔ عالمی مالیاتی ادارے قرضوں کے ساتھ سخت شرائط بھی لگارہے ہیں۔ اب تو حالات پارکس کو گروی رکھنے تک پہنچ چکے ہیں۔ ڈھائی سال حکومت نے سخت فیصلے بھی کئے مگر عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ حکومت اب اس دوراہے پر ہے کہ اب اس کو ہر صورت ڈیلیور کرنا ہے۔ ماضی کی حکومتوں پر ملبہ ڈالنے سے اب کام نہیں چلے گا۔ اپوزیشن سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کامیاب نہیں ہوسکی اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی کامیابی کے امکانات کم ہیں ۔ یہ حکومت کی کامیابی ہے ایک طرف مگر اس حکمت کا استعمال عوام کے لئے بھی کرنا ہوگا۔ حکمت اور فنِ سیاست ایک جز ہوجائیں تو یہ نفع کا باعث ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت ان دونوں خوبیوں کااستعمال اپوزیشن کی چالوں کے خلاف تو کر رہی ہے مگر بڑھتی مہنگائی اور منافع خور مافیا کے خلاف اب تک ناکام ہے۔ سیاستدانوں کی حکمت یہ ہونی چاہیے کہ عوام کو ریلیف کی شکل میں آسانیاں منتقل کرے۔ عوام یہ بات محسوس کرے کہ حکمران ان کے لیے رحمدل ہیں۔ تب ہی کوئی حکومت عوام کے منظور نظر ہو سکتی ہے۔

سیاست اور حکمرانی کی حکمت اس بات سے بھی ہے کہ وہ اقرباپروری اور کرپشن کا خاتمہ کرے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی تنظیم جس کا کام دنیا بھر میں بدعنوانی پر نظر رکھنا ہے اس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 4 درجے تنزلی کے بعد 180 ممالک کی فہرست میں 124 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت 2018 میں اقتدار پر براجمان ہو ئی اور گزشتہ ڈھائی برسوں سے کرپشن کے خاتمے کا عظم دہراتی آئی ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر فوادچوہدری کا بیان نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے ناکامی کا تسلیم کیا اور کہا کہ کرپشن میں اضافے کی وجہ قانون سازی میں ناکامی ہے۔ یاد رہے OECD اور سوئٹزرلینڈ سے کئے گئے معاہدوں کے بعد اب سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے لئے اپنی دولت بیرونِ ملک رکھنا یا منتقل کرنا تقریباً نا ممکن ہوگیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سب سے زیادہ کرپشن کی نشاندہی سرکاری اداروں میں کی ہے جبکہ سیاسی جماعتیں، عدلیہ اور میڈیا بھی اس کلچر سے مبرا نہیں۔

آج میڈیا عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہ یقیناً ایک بہترین امر ہے کیونکہ صحافی کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے اصلاح کرے۔ پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھی تب تچلی سطح پر مسائل کے حل کے لئے بلدیاتی نظام میں اصلاحات اور بروقت انتخابات پر ذور دیا کرتی تھی۔ جبکہ موجودہ صورتحال اس حوالے سے سابقہ حکومتوں سے مختلف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے رپورٹ طلب کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ جو بھی انتخابات ہونگے وہ عدلیہ کے حکم پر مجبوری میں کرائے جائیں گے۔ عمران خان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر انکے دورِ حکومت میں بلدیاتی انتخابات وقت پر نہ ہو نے پر زبردست تنقید کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے قوم سے وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ اپنی حکومت میں وقت پر انتخابات بھی کرائیں گے اور اصلاحات کرکے بلدیات سے جڑے اداروں کو با اختیار بھی بنائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکمرانی اور تخت نشینی کا طویل عرصہ ساتھ نہیں رہتی۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ یاد وہی رہتے ہیں جو بہترین انصاف کرتے ہیں۔ اربابِ اختیار سے کہوں گا کہ۔۔۔ “اب بھی وقت ہے”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply