دیکھا ہے کئی بار۔۔محمد اسد شاہ

کھیل تو واقعی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔ چند مخصوص اینکرز اور چینلز کے علاوہ تقریباً ہر باشعور شخص کو معلوم ہے کہ “مقبولیت” صرف ایک دھوکا تھا ۔ کپتان ایک محدود طبقے کی حد تک تو واقعی مقبول تھا اور ہے ۔ اتنی مقبولیت تو برصغیر میں کرکٹ کے تقریباً ہر مشہور کھلاڑی کو حاصل رہتی ہے ۔ سنیل گواسکر سے لے کر ویرات کوہلی تک ، اور حنیف محمد سے لے کر عامر سہیل تک ۔۔۔۔ کس کی مقبولیت سے انکار کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ ہمارے پڑوسی ملک میں تو بعض اداکاروں کی مقبولیت ، کھلاڑیوں کی نسبت کئی گنا بڑھ کر ہے ۔ لتا منگیشکر ، عامر خان ، شاہ رخ خان ، دلیپ کمار (یوسف خان) ، امیتابھ بچن ، سلمان خان ، ایش وریا رائے ، کرینہ کپور ، اکشے کمار وغیرہ مقبولیت کی دوڑ میں ہمارے “کپتان” سمیت تمام بھارتی اور پاکستانی کھلاڑیوں سے بہت آگے ہیں ۔

اسی طرح پاکستان میں معین اختر مرحوم ، سلطان راہی مرحوم ، انور مقصود ، عمر شریف ، نصرت فتح علی خان ، راحت فتح علی خان ، جواد احمد ، جنید جمشید مرحوم وغیرہ کی مقبولیت کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ خیر بات یہ ہو رہی تھی کہ دیگر کھلاڑیوں کی طرح “کپتان” کا بھی ایک فین کلب تھا اور اب بھی ہے ۔ جس طرح متھیرا ، وینا ملک ، ماہرہ خان ، فہد مصطفیٰ ، قرۃ العین بلوچ اور آئمہ بیگ کے بھی فین کلبز ہیں ۔

مسئلہ لیکن تب سامنے آیا جب کرکٹ کے ایک سابق “کپتان” کے فین کلب کو سیاسی جماعت بنایا گیا اور لوگوں کی آنکھوں میں اتنی دھول جھونکی گئی کہ کوئی اور چہرہ نظر ہی نہ آ سکے ۔ حقیقت لیکن اس سے کوسوں دور تھی ۔ جن لوگوں کی آنکھیں مصنوعی چکا چوند سے چندھیا گئیں ، انھیں “کپتان” میں جانے کیا کچھ نظر آنے لگا ۔ لیکن جن کی آنکھیں کھلی ہیں ، اور جنھیں اللّٰہ تعالیٰ دیکھنے کی صلاحیت بخشی ہے ، وہ پہلے دن سے جانتے تھے کہ پردے کے پیچھے کیا ہے ۔ مہربانوں کی (جادوئی) محنت سر چڑھ کر بولتی محسوس ہوتی تھی ۔ کپتان کے لیے صداقت و امانت کے سرٹیفکیٹس بنوائے گئے ۔

یہ الگ بات کہ جاننے والوں کے ہاں ان سرٹیفکیٹس کی کیا حیثیت ہے ۔ “کپتان” کو کپتان کہے جانے پر بھی تنازعہ موجود ہے ۔ سابق ایم این اے کیپٹن محمد صفدر کا دعویٰ ہے کہ اصلی کپتان تو وہ ہیں ، جب کہ کرکٹ کے ایک سابقہ کپتان کی کپتانی تو صرف کھیل کود کی بات تھی ۔ بندوبست کو ہر لحاظ سے “فول پروف” رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ حقیقی مقبول راہ نماؤں کو میدان سے باہر نکلوایا گیا ۔ مضبوط ترین ٹیموں کو کم زور کیا گیا ۔ ان کے تجربہ کار کھلاڑیوں کو حکم ملا کہ اگر میدان میں رہنا ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ وہ اپنی پسند کی ٹیموں سے علیحدگی اختیار کریں ، ٹکٹ واپس کریں ، اور کپتان کی ٹیم میں شامل ہو جائیں ۔ یا پھر آزاد کھلاڑی بن جائیں ، لیکن جیتنے کی اجازت تب ہی ملے گی جب وہ وعدہ کریں کہ جیت کر “کپتان” کی طرف سے کھیلیں گے ۔ حقیقتاً مہربانوں نے اپنے “کپتان” کے لیے میدان خالی کروایا اور اسے بلا مقابلہ “جیتنے” کا کھلم کھلا موقع دلوایا ۔ مزے کی بات یہ کہ وہ پھر بھی جیت نہ سکا ۔ اس کے بعد پھر خاص طور پر پنجاب اور وفاق میں “مزید محنت” کرنا پڑی ۔ بالآخر تعداد پوری کر کے کپتان کو مسند عطا کر دی گئی ۔

خیر لفظ “سلیکٹڈ” کی ایجاد اور استعمال کے پیچھے یہ حقائق بھی ہیں ، اور بہت سے وہ حقائق بھی ، جن کا اظہار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ حقائق جہاں عوام کو معلوم ہیں ، وہاں خود کپتان کے علم میں بھی تو ہیں ۔ مقبولیت والے دھوکے کی حقیقت بھی اسے معلوم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے ضمنی انتخابات میں وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتا نظر آیا ۔ ڈسکہ میں جس طرح ہمہ جہت “دھاندلا” برپا کیا گیا ، فائرنگ ، پولنگ اسٹیشن بند رکھنے ، ڈبے بھرنے ، قتل و خون ریزی ، پھر من مرضی کی ایف آئی آر ، ایک خاتون امیدوار کے ساتھ سرکاری بدتمیزی اور تشدد ، دھمکیاں ، گرفتاریاں تو نمایاں حربے ہیں ، لیکن اندھیر نگری کی ایک نئی قسم “دھند گردی” ، اور پولنگ عملے کے اغواء جیسے کارنامے بھی ایجاد کر لیے گئے ۔ اب اوپر سے سینیٹ الیکشن کا مرحلہ ہے:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے جانا

Advertisements
julia rana solicitors

چنانچہ آئین کی واضح شق کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا گیا ۔ کیوں کہ کپتان کو اچھی طرح یاد ہے جو کچھ خود اس نے 2018 کے سینیٹ الیکشن میں کیا تھا ۔ پنجاب سے چودھری سرور کو کیسے سینیٹر بنوایا گیا ۔ کے پی کے میں بکنے والوں اور خریدنے والوں کو کیسے وزارتوں پر فائز کیا گیا اور پھر تین سال بعد مخصوص وقت پر انھی کی وڈیو جاری کر کے اپنی پاکیزگی کا ڈھونگ کیسے رچایا گیا ۔ کپتان نے 2018 کے سینیٹ الیکشن میں زرداری صاحب کے ساتھ مل کر “حصہ” وصول کیا تھا ۔ چنانچہ وہ زرداری صاحب کے طریقہ واردات کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے خوف زدہ ہے ۔ دوسری طرف زرداری بھی 2018 سے اب تک “مہربانوں” کے اشاروں پر من و عن عمل کر رہے ہیں ۔ اور اس کے صلے میں اب بجا طور پر توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ مہربانوں نے جس طرح شریفوں کو راستے سے ہٹایا ، اسی طرح کپتان کو بھی گھر بھیجیں ۔ پھر وہی گلیاں جو کپتان کے پھرنے کے لیے “سنجیاں” (ویران) کروائی گئیں ، اب زرداری کے لیے بھی کروائی جائیں ۔ گھاس چرنے گئی تھیں عقلیں مولانا اور میاں کی ، کہ جو زرداری پارٹی کو اپوزیشن سمجھ کر پی ڈی ایم میں شامل کر بیٹھے ۔
محسن نقوی نے کہا تھا؛
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر ! !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply