• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط11)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط11)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

گردشِ دوراں اسی کا نام ہے
جون میں لہجے دسمبر ہو گئے
خوش گمانی سب دھری ہی رہ گئی
آپ تو پہلے سے بدتر ہوگئے.

“حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ تک پہنچنے کا آسان راستہ کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا دکھی دلوں پر مرہم رکھتے جاؤ ۔ اللہ تک پہنچ جاؤ گے۔” (تاریخ دعوت و عزیمت)

آمنہ کے ساتھ کچھ لمحے گزارنے کے بعد سے اسے قرار و حوصلہ ملا تو اس کو کسی کتاب کی پڑھی ہوئی یہ بات یاد آ گئی ۔ اس نے بھی مصمم ارادہ باندھا کہ انشاءاللہ میں بھی لوگوں کے لیے مرہم کا سامان کرو‌ں گی ۔
لیکن بےچینی اور اضطراب کی اس کیفیت میں اب تو زندگی دھوپ چھاؤں کی مانند ہوگئی ۔کبھی دل میں امید کی بوندا باندی ہوتی تو دل کھل اٹھتا، مگر پھر ایسا مایوسی کا طوفان، گھن گرج سمیت برکھا بن کر برستا کہ ہمت جواب دے جاتی ۔ خوف کا احساس ہوتے ہی اعتماد پارے کی طرح پگھل جاتا ۔
ضحی کی مثال اس سیپی کی طرح تھی، جو اپنے اندر کی قیمتی متاع “امید کا موتی” منفی سوچوں کے ہاتھوں ایک بار تو گنوا بیٹھی ۔اسے اپنی ڈوبتی ڈولتی کشتی کے لیے ایک ایسے ملاح کی ضرورت تھی، جو تجربہ کار ہو اس سمندر کی وسعتوں، گہرائیوں کے ساتھ ساتھ آنے والے طوفانوں سے بھی نبرد آزما ہونا جانتا ہو اور وہ آمنہ کی صورت اسے نظر آیا ۔
آمنہ کے جانے کے بعد طبیعت میں آئی بشاشت کچھ ہی لمحے برقرار رہ سکی، جب تک اماں کی آوازوں نے پورے محلہ کو بتا دیا کہ “ارے میں کہتی ہوں کہ باتوں سے بھی لوگ ٹھیک ہوا کرتے ہیں۔ اٹھ کام کاج کر، چل پھر کوئی جسم جان پکڑے، نہ جی حرام نوالے ٹھونسنے ہیں منجی تے ڈھے کے، چچا بشیرے نوں ویکھ جہڑا بائی پاس تو بعد وی باندرا وانگو ٹپدا اے” ۔

ابھی شاید ان کا خطاب لمبا چلتا مگر دلخراش آواز نے ان کی زبان کو روک دیا۔ ضحی پینک حالات میں زمین پر پڑی تھی ۔حالت مرگی کے مریض جیسی ہورہی تھی اور زبان پر ایک ہی تکرار.
” میں مرجاؤں گی اماں ۔بس چپ کر جائیں ۔ میرا دل گھبرانے لگا ہے ۔میرا دل بند ہورہا ہے، میری ٹانگوں میں جان نہیں رہی ۔ میری آنکھیں بے رونق ہورہی ہیں۔ اماں مجھے مرنے سے بچا لیں۔”
اماں نےضحی کو رکشہ میں جیسے تیسے بیٹھایا اور نفسیات کے معالج کے پاس لے گئیں۔
مریضوں کی لمبی قطار اور تکڑی فیس کی ادائیگی کے بعد اپنی باری کا انتظار کرتی، عجیب سی صورتوں کو دیکھتی، اسے ایسے لگا شاید یہاں سب ہی میرے جیسے ہیں ۔
خیر کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر کے پاس حاضری ہوئی.
“اسلام علیکم ”
ڈاکٹر اشرف نے پروفیشنلی انداز میں گفتگو کا آغاز کیا ۔ بیٹا کیا مسئلہ ہے آپ کو ۔ذرا کھل کر بات کریں
ضحی نے گن سم آنکھوں سے دیکھا اور لفظوں کو ترتیب دینے لگی ۔
“وعلیکم السلام، سر مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں مر جاؤں گی، میرا دل بند ہو جائے گا، مجھے یہ احساس بھی ہے جیسے میرا دل کمزور ہو چکا، اس پر ہر وقت دباؤ رہتا ہے ۔
معدہ جلن اور کچھ بھی کھا لو تو بے چینی بڑھنے لگتی ہے ۔ نیند درست نہیں آتی، برے برے خواب معمول بن چکے ہیں ۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا، متحرک زندگی اب دائرے میں سمیٹی جا رہی ہے ۔”
ضحی نے اپنے مریض کی کیفیت کو مختصر جملوں بیان کرنے کی کوشش کی ۔
” آپ لیٹ جائیں، میں دیکھ لیتا ہو ۔”
سٹیتھواسکوپ لٹکائے ڈاکٹر نے اسے ایک بیڈ پر لیٹنے کا اشارہ کیا ۔
تفصیلی چیک اپ کے بعد ۔
” آپ کو کچھ نہیں ہے. آپ فوبیازجو ایگزئیٹی اور ڈیپرشن کے کچھ مراحل سے گزر داخل ہو چکی ہیں ۔اعصابی کمزوری سے آپ کو نفسیاتی مسائل ہیں ۔لیکن آپ اب کچھ بڑا کام نہیں کرسکتی ۔سفر پر نہیں جا سکتی ۔حادثات اور میت والی جگہ آپ کے مناسب نہیں، میں کچھ ادویات لکھ رہا ہوں کچھ عرصہ تک، بلکہ شاید تمام زندگی آپ کو کھانی پڑے ”

Advertisements
julia rana solicitors

وہاں سب ہی امید کے ٹمٹماتے دیے ڈاکٹر کے ان الفاظ کے ساتھ بجھ گئے.
” آپ کبھی نہیں ٹھیک ہو سکتیں ۔آپ کے ہارمونز میں تبدیلی ہو چکی ہے۔ معدہ چھلنی ہوچکا ہے آپ خود کو پرسکون رکھیں اور اس مرض کو ذہنی طور ہر قبول کریں اور جینا سیکھیں”۔
ضحی دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گری زبان سے صرف یہی نکلا۔ “کوئی مایوسی کے کڑے وار کے بعد شہد سے زخم بھرنے کی کوشش کرے تو وہ مسیحا کیوں کر ہو؟ ”
اماں تو جیسے جاہ و جلال میں آگئیں۔”ڈاکٹر صاحب پاگل ہوگئی ہے، یہ چیخیں مارتی ہے۔ بات کہہ دو تو دل پکڑ کر زمین پہ مچھلی کی طرح تڑپتی ہے ۔ ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں ۔آپ بس اس کو سکون کی دوا دیں۔ ”
ڈاکٹر صاحب پیشہ وارانہ انداَز میں قلم گھیسٹتے ہوۓ کہا
“اماں جی فکر نہ کرو میں کچھ ادویات لکھ دیتا ہوں، ساتھ میں ہدایات بھی آپ فارمیسی سے لیتے جائیں “۔
ڈاکٹر نے ایک صبح کھانے کے بعد اینٹی ڈیپرشن میڈیسن، ایک نہار منہ معدہ کا کیپسول، رات کو سونے سے پہلے ایک مسکن دوائی اور کچھ ملٹی وٹامنز لکھ دیں ۔
وہ ایک ماہ کی ادوایات اٹھائے باہر نکلی تو ایک اس نے عصر سے مغرب میں داخل وقت کے ساتھ سورج کو غروب ہونے کا منظر دیکھا ۔ ایک سوچ کی لہر نے اس کے دل و دماغ کو جکڑ لیا ۔
جاری ہے ۔

Facebook Comments