ناول “میرے ہونے میں کیا برائی ہے”میں خُنثٰی کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ(دوم،آخری حصّہ)-اظہر حسین

شیکھا سب کی جانب سے خود کو سراہے جانے کی خواہش مند ہے اس کے ساتھ ساتھ اپنے چاہنے والوں کے علاوہ دوسروں کے طلب گاروں کو بھی اپنی ذات میں محو  دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ ایک بیوی کی طرح راشد کے سامنے خود کو بنا ؤسنگھار کرکے  پیش کرتی ہے تاکہ اس کا دل بہلا سکے۔اس کی نظروں میں خود کو مقبول بنانےکی کوشش کرتی ہے۔وہ اپنےاس مقصد میں کامیاب تو ہوجاتی ہے مگر آدھی ادھوری عورت ہونےکی وجہ سے اس کی زندگی کا ساتھی نہیں بن سکتی ۔وہ اپنےاس ادھورےپن کا بیان ان الفاظ میں کرتی ہے:
“انہیں خاندان کا وارث چاہیےاورآدھی ادھوری عورتیں سینےمیں ممتا کاجذبہ تو رکھ سکتی ہیں زرخیز کوکھ نہیں۔ چھاتیاں تو ہیں مگرخشک۔مردانہ جسم میں عورت کی روح تو بستی ہے،عورت کا دل سینےمیں دھڑکتابھی ہے تڑپتابھی ہے۔ماں کی ممتا،شفقت سےدل شرابوربھی ہےمگرمصنوعی نطفہ سےماں تونہیں بن سکتی ۔رب کی اس ناانصافی کے ساتھ ہنس کرجینا بہت مشکل ہے۔”(۱۰)

نفسیات کے حوالےسےخُنثٰی کاچوتھا پہلوتشویش(Anxiety)اورٹینشن ہے۔انسان کو تشویشی صورتِ حال کامقابلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے۔کیوں کہ اس جذباتی عمل میں انسان کےاعصاب بُری طرح متاثرہوجاتےہیں۔پرفیسر ساجدہ زیدی تشویش (Anxiety)کےمتعلق یوں رقم طراز ہیں:
“تشویش ،وحشت یا(Anxiety)، بعض لحاظ سے سب سے زیادہ تباہ کُن جذبہ ہے جس کی بنیاد خوف بھی ہوسکتا ہے۔مثلاً سَرزَنِش کا خوف،جگ ہنسائی(وہ چیز جس پر دُنیا ہنسے) کا خوف استہزااورماں باپ کی شفقت کھودینےکا خوف وغیرہ۔۔۔تشویش ایک جاری و ساری خوف ہے جس کا سبب فرد پر نہیں کُھلتا،وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ایسا کیوں ہوا اوراس سےنجات کا راستہ کیا ہے؟اس کےقوائےعمل معطّل ہونےلگتےہیں۔”ص: (۱۱)

سات آٹھ سال کی عمر میں شیکھر جب والدین کےساتھ دادا کےگھر شادی کےسلسلےمیں گیاہوتاہے۔ وہاں اس کاماموں اس کےاقوال وافعال سےمتاثرہوکراسےکمرےمیں پیردبانےکےبہانےبُلاکرجنسی اختلاط کرتا ہے۔اس کے بعد اسےبتاتاہےکہ اگراس نےکسی کو بتایاتواس کی ماں اس  کو جان سے مارڈالےگی۔لہذا اسی خوف کےاندر اُس کے ساتھ پورا ہفتہ مسلسل جنسی اختلاط کرتا ہے۔سات سال کی عمر میں شیکھر کے ساتھ پیش آنےوالےاس حادثےکی وجہ سے   خوف اورتشویش میں مبتلاہوکر اس کےجسم و روح کےمابین ایک کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔یہی تشویش اورٹینشن شیکھا کی زندگی کےساتھ بچپن میں ہمسفر بن جاتی ہے۔شیکھرکی زبانی ملاحظہ کیجیے:
“اُلجھن،کشمکش،حیرانی،بےچینی،بےسکونی کا پہلا بیج میرےدل ودماغ میں سات سال کی عمر میں پڑاجب ننھیال کی ایک شادی میں۔۔۔ایک شام دور دراز کےبڑی عمر کےماموں نےکمرےمیں ٹانگیں دبوانے کے لیے بُلالیا۔میں بھی خوشی خوشی ان کی ٹانگوں پرایسے چہل قدمی کررہا تھاجیسے گھٹنےسےٹخنےکی نہیں بلکہ کسی ڈھلان پر پِھسل رہا ہوں۔پھر نہ جانےاُنہیں کیا سوجھی کہ انھوں نے یکدم سے مجھے دبوچ لیا۔میں چھٹپٹانےلگا۔چِلّانےلگاتواُنہوں نےاپنےبڑےسےدہانہ میں میرامنہ بھرکرمیری آواز بندکردی۔میری سانس رُکنے لگی میری آواز میری اندر ہی گھٹتی رہی اور پھر انہوں نے اپنا وجود مجھ میں پیوست کردیا۔درد سے کرہاتارہا۔میری آنکھیں برستی رہیں۔میں اُن کی سرخ آنکھیں دیکھ کر سہم گیا۔نادان معصوم بچہ سمجھ ہی نہ سکا کہ کھیلتےکُودتے یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ پھر۔۔۔ڈرایادھمکایاکہ اگرمیں نےکسی کوبھی بتایاتومیری امّاں کوبھی جان سےمارڈالےگی۔۔۔جتنےدن ننھیال میں رہے یہ سلسلہ چلتا رہا۔”(۱۲)

اس سانحےکےبعداسےکئی دن بُخاررہتا ہےاورشادی کےتمام دن ڈر اورخوف میں گزار تاہے۔شیکھراپنے جذبات چُھپانےکا ہنرسیکھ لیتاہے۔اس کی باتوں میں نزاکت اور نسوانیت کا عمل دخل شروع ہوجاتا ہے۔اس کی گفتگو، حرکات و سکنات ،چال چلن اورپسند ناپسند میں نسوانی پن آجاتاہے۔اسےکہیں بھی سکون نہیں ملتا ۔آخرکار ستارہ کے  توسط سے خُنثٰی افراد کے ڈیرےپر ہمیشہ کے لیےبسیرا کرجاتا ہے۔شیکھرناول میں ان تمام تکالیف کا بیان ان الفاظ میں کرتا ہے:
“گھرسےنکالےجانےکاغم،معاشرےکابائیکاٹ،اپنوں کامُنہ پھیرلینا،ذِلّت،غربت،بےروزگاری،جسم فروشی، چوری چکاری،چھینا جھپٹی یاپھربھیک مانگنے کا راستہ،یہ سب برداشت کرنےکےلیےحوصلہ چاہیےاورجب یہ حوصلہ پست ہوجاتا ہے تو نشے میں خود کوغرق کرنا سب سے آسان راستہ نظر آتا ہے۔”(۱۳)

تشویش کا یہ عمل ناول کے دوسرا خُنثٰی کردار ستارہ کے ساتھ پوری زندگی جاری و ساری رہتاہے۔وہ اپنے تشویش پر قابو پانے کے لیے بہت کوشش کرتی ہے مگر کسی بھی طور سے اس میں کامیاب نہیں ہوتی ۔اس کو بھی شیکھرکی طرح جب گھرسےنکالا جاتاہےتو خُنثٰی افرادکےڈیرےپرجاکرزندگی گزارنے لگتی ہے۔والدین ،گھر،خاندان اوراپنےاقدار سےہمیشہ کےلیےجدا ہونے کی وجہ سے اسےکہیں سکون نہیں ملتا۔اس لیےوہ کچھ لمحےسکون کی زندگی گزارنےکےلیےشراب کا سہارا لیتی ہے مگر شراب اس کی زندگی کا جزوِناگزیربن جاتاہے اور آخرکاراس کی موت جسم میں شراب کی کثرت کی وجہ سے ہی ہوجاتی ہے۔ناول میں کلپناکے ذریعےجب شیکھا کوخبرہوجاتاہےکہ تھانے سے ایک مُردہ لاش ملنے کی خبرآئی ہے جس کےموبائل فون میں آخری نمبرکلپنا کا ہوتا ہے۔تو دونوں ستارہ کے حوالےسےحیران و پریشان تھانےکی طرف چلنےلگتی ہے۔راستےمیں  شیکھاخودکلامی کرتےہوئے کہتی ہے:
“کتنی بار سمجھایااُسےدیررات تک گھرسےباہربےمقصد مت گھوماکر۔شراب کے نشے میں نہ جانے کہاں کہاں ٹکریں مارتی رہتی ہے۔انسان کےاندر کی بےچینی ،بےسکونی،اُسےبھٹکنےپرمجبورکردیتی ہےپھرنہ جانےاس سکون کی تلاش میں وہ کن راستوں پر نکل پڑتاہے۔”(۱۴)

خُنثٰی کےنفسیات کےحوالے پانچواں اہم عنصرالفریڈایڈلؔرکا نظریہ”احساسِ کمتری” ہے۔الفریڈایڈلؔرکہتاہےکہ پیدائش کے بعدبچہ دنیا کا کمزور ترین مخلوق ہوتاہے۔پیدائش سےلےکربچپن تک اس کی جملہ ضروریات ماں کےذریعےپوری ہوتی ہے۔ جب وہ تھوڑا کچھ سماج کا شعور رکھنےلگتاہےتواسےمحسوس ہوتاہےکہ وہ سماج کے دوسرےافرادکےمقابلےمیں بہت کم زور، بےبس اور لاچارہے۔یہ ادراک اسےاحساسِ کمتری میں مبتلا کردیتاہےجو تمام عمر اس کےذہن پر سوار ہوتاہے۔الفریڈایڈلؔر کہتاہے کہ پہلے پہل وہ گلی محلےمیں کھیلتےکھودتےہوئےاپنےسےبڑےاورطاقت وربچوں،اسکول میں استادوں،عہدِ بلوغت میں سماجی اداروں اورعملی زندگی میں دنیاکےکسی بھی شعبے میں جاکراپنےسےخوب صورت،طاقتور،لمبےاور دولت مند افراد کو دیکھتاہے تو احسا سِ کمتری میں مبتلا ہوجاتاہےاور یہی احساسِ کمتری اس کا دامن نہیں چھوڑتی۔وہ اپنی احساسِ کمتری پرفوقیت پانےکےلیے ہراچھےاوربُرےطریقےاختیارکرناشروع کردیتاہےجن سےاسےقوت کااحساس ہو۔ڈاکٹر ساجدہ زیدی اس کےمتعلق کہتی ہے:

“ایڈلرؔکانمایاں کام یہ ہے کہ اس نے احساسِ کمتری سے پیداشدہ رجحانِ برتری کو زندگی کا بنیادی مقصداوررجحان قراردیا۔اس کا خیال ہے کہ تمام عمر فرد اسی کاوش میں رہتاہے کہ یا تو فوقیت کے حقیقی جدوجہدکرےاوراپنےعلم و عمل،کارناموں،اکتساب،تخلیق وتعمیراورکاکردگی کےذریعےخوش اسلوبی سےدنیاپراپنی برتری ظاہرکرےاور خودکواس تکلیف دہ احساسِ کمتری سےنجات دلائے جس کی موجودگی میں وہ سکون و اطمینان حاصل نہیں کرتا۔” (۱۵)

شیکھرکوبچپن سےیہی احساسِ کم تری ہوتی ہےکہ (نعوذباللہ)خالق نےاس کےساتھ نا انصانی کرکےایک نامکمل انسان کے روپ میں پیداکیاہے۔اس کا جسم مردمگرروح عورت کی ہے۔بچپن سےلےکرجوانی تک یہی احساسِ کمتری اس کی زندگی کا جزوِ ناگزیربن جاتاہے۔وہ خودکوعورت سمجھتی ہے اوراپنی احساسِ کمتری پربرتری پانےکےلیےگھرکےافرادکی غیرموجودگی میں عورتوں جیسی ڈھول سنگارکرکےمَسرت محسوس کرتاہے۔اس کے ساتھ وہ ڈانس باراورخُنثٰی افراد کے ڈیرےپرجاتاہےکیوں کہ اسےاپنی شخصیت کی تکمیل اسی میں محسوس ہوتی ہے۔اسے یہ پتا ہوتا ہے کہ خُنثٰی افراد کے ڈیرےپرجانےکی خبرجب میرے گھروالوں کو لگ جاتی ہے تو گھر میں کیا ،اس سماج میں بھی میری جگہ نہیں ہے لیکن پھر وہ اس کی رجحانِ برتری اسے اسی طرف کھینچ لاتا ہے۔ناول میں وہ اپنے  احساسِ کمتری کے حوالے سے رقم طراز ہے:

“یہ میرےاندرکی کشمکش یہ گُٹھن شایدمیری زندگی کا اٹُوٹ حصہ تھی۔جب سےمیں نےہوش سنبھالاخود کو بےچینی ،کشمکش، بے سکونی ،گُٹھن میں مبتلاپایا۔اس کی وجہ شاید میری دوہری شخصیت رہی ہوگی کیوں کہ میں ایک نامکمل انسان ہوں۔”(۱۶)
وہ اپنےقبیلےوالوں کو اس دلدل سے نکالنے،بہتر تعلیم و تربیت دینےاورمختلف ہنر سکھانے کےلیے ایک سینٹربنانےکا ارادہ کرلیتی ہےتاکہ وہ بھی دنیا کا مقابلہ کرسکیں۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے اس کی زندگی میں مشہورفوٹوگرافرراشد آجاتاہے جواپنےدوسرےفوٹوگرافردوست (جس کا سرکارمیں اثررسوخ ہوتا ہے) کی مدد سے شیکھا کے طبقے کےتمام مسائل ریکارڈ کرکے اوران کےڈیرےکےتصاویرلےکردفتروں میں لےجانا شروع کرتےہیں۔دونوں کےدس مہینےکی مسلسل جدوجہد کےبعد سرکارکی طرف سےاسےایک سینٹرکھولنےکی اجازت مل جاتی ہے۔راشد کی مدد سے ڈاکٹرزاوراساتذہ ان سےجُڑجاتےہیں۔دن میں باقاعدگی سےتین گھنٹوں کےلیےڈاکٹرز آتےہیں اورایڈز سمیت دیگرنامرادبیماریوں کا علاج کرتےہیں۔آخرکاروہ اپنی احساسِ کم تری کو شکست دےکر فتح یاب ہوجاتی ہے۔

نفسیات کے حوالےسےخُنثٰی کی شخصیت کا چھٹا اہم پہلو الفریڈ ایڈلرؔکا”خاندانی پوزیشن “ہے۔الفریڈ ایڈلرؔ نے کہا تھا کہ گھر میں سب سے بڑوں اور سب سےچھوٹےبچوں کے ساتھ اکثریتی طورپروالدین کا لاڈپیاربہت زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ درمیانی بچوں کےساتھ اتنا لاڈپیارنہیں ہوتا۔لیکن یہی درمیانی بچےجووالدین کی لاڈ پیارسےزیادہ محظوظ نہیں ہوتے،دنیا مقابلےمیں سب سےبڑوں اور سب سےچھوٹےبچوں کےمقابلےمیں زیادہ محنتی ،ہوشیار،جدوجہد کرنےوالےاورہرطرح کےاچھےبُرےحالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنےکی ہمت اور طاقت رکھتےہیں۔پروفیسرساجدہ زیدی ایڈلرکے”خاندانی پوزیشن” کےحوالےسےکہتی ہے:
“اکثرسب سےبڑےاورسب سےچھوٹےبچےجووالدین کےزیادہ لاڈلےہوتےہیں اتنی جدوجہدکرنےکےاہل نہیں ہوتے جتنے درمیانی بچےکالاڈ پیارنہیں ہوتا،ایسےبچےزیادہ محنتی،دنیا کا مقابلہ کرنےمیں زیادہ کامیاب اورخود کفیل ہوتےہیں۔”(۱۷)

ناول میں شیکھر والدین کا درمیانی بچہ ہوتا ہے جو سات آٹھ سال کی عمر میں جنسی و روحانی کشمکش کا شکارہوجاتاہے۔اس کےحرکات و سکنات اوراقوال وافعال کی وجہ سےوالدین پریشان رہتےہیں۔غرض اسی شخصی دوہراپن اورتشویش کی وجہ سے والدین کی طرف سےشیکھرکو وہ محبت نہیں ملتی جو بڑی بہن رُکمنی دیدی اور چھوٹےبھائی للّت کو ملتی ہے۔مگر اس کا شعوری حِس بیدار ہوتا ہے ۔سات سال کی عمر سے لے کربلوغت اور بیس سال کی عمر میں خُنثٰی افراد کےڈیرےپرگُروکےہاں چیلابن جاتاہے۔ وہاں وہ خُنثٰی افراد کی تباہ حال زندگیوں کو دیکھ کر سخت ذہنی تناؤ کا شکارہوجاتی ہے اوردل میں مُصممّ ارادہ کرلیتا ہےکہ میں اپنےطبقےکوان رسومات کی قید اور اس تباہ حال زندگی سے نکال کرتعلیم و تدریس اور عملی کاموں کی طرف لاؤں گا۔ناول میں اپنے اس ارادے سے متعلق کہتی ہے:
“رب سےسارےگِلےشکوےپَل میں دُورہوجاتےاورشُکرانےکےلیےسجدےمیں سرجُھک جاتا۔چاہےاُس نےآدھی ادھوری ، ذلت،نفرت،حقارت سےبھری زندگی دی مگر ساتھ میں اُسےبدلنےکی سوجھ بوجھ اور ہمت بھی تو دی۔صدیوں سےچلتی آئی سوچ ، روایت،نظام کو ایک روز میں تونہیں بدلا جاسکتااور نہ ہی ایک شخص انقلاب لاسکتاہے۔”(۱۸)

اپنی اس حساس طبیعت کی وجہ سےایک طرف راشداوراُس کےدوست کےتوسط سے تعلیم و صحت کا سینٹرکھولنےمیں کامیاب ہوجاتی ہے تو دوسری طرف اس کاخُنثٰی افرادکےمتعلق سماج کے قوانین کو بدلناہوتاہے ۔کیوں کہ اس کے خُنثٰی ہونے میں اس کا کوئی قصورنہیں ہوتا ۔یہ تو اس رب کا فیصلہ ہوتا ہے جس کے اشاروں پر کائنات چلتی ہے۔وہ اپنے وجود کو ہرصورت میں سماج پر قبول کرنےکی ٹھان لیتاہے ۔ستارہ کی خودکشی کےبعداس مقصد کی شروعات اپنے گھرسےکرتا ہے۔آخرکاروہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے اور ماں کی توسط سے باپ کو راضی کرکےہفتہ میں ایک بار گھرآنےکی اجازت لےلیتا ہے۔اپنےان مقاصد کی کامیابی کا بیان ناول کے آخرمیں ان الفاظ میں کرتی ہے:
“اتوار کی شام امّاں سے ملاقات ہوتی توپورےہفتےمجھےجی توڑ کام کرنےکی ہمت ملتی ،میرےساتھ بہت سےلوگ جُڑگئےہیں اب میں اکیلی نہیں ہوں۔اُن کی آنکھوں میں بھی خواب جھلملانےلگےہیں۔۔۔شاید آج میری امّاں نےمیری حقیقت قبول کرلی ہے کل کو دنیا کے سامنےبھی قبول کرلےگی ہوسکتاہےدوسرےوالدین بھی امّاں کی پیروی میں اپنی اولادوں کو اپنالیں۔دُنیا امید پہ قائم ہے۔”(۱۹)

خُنثٰی کی شخصیت کا جائزہ لیتےہوئےجوساتواں اہم نفسیاتی عنصرسامنےآتاہےوہ جذبیت(Ambivalence) ہے۔ جذبیت کے مطابق انسان میں دو متضاد جذبات یا مخالف قوتیں بیک وقت پائی جاتی ہےجن میں سےہرایک جذبہ یا قوت اسے اپنی طرف کھینچنےکی کوشش کرتا ہے۔ جس کےسبب وہ بےچین و بےسکون رہتاہے۔شیکھااورستارہ بھی اس کیفیت سے دوچار ہوتی ہیں۔ان کی روح خُنثٰی طبقےکےڈیرےپررہنےکے خواہش مندہوتیں ہیں جبکہ ماں کی محبت اوربچپن کےگلی کوچے اسےاپنے گھرکی طرف کھینچ لانےکی کوشش کرتے ہیں۔وہ فیصلہ نہیں کرسکتیں کہ کون سا راستہ اختیار کریں اور جب خُنثٰی ڈیرےپررہنےکا راستہ اختیار کرتی ہیں تو یہی جذبیت ساری عمر اس کی زندگی کا جزوِ ناگزیربن جاتی ہیں جس کا مقابلہ کرتےہوئےستارہ اپنی جان کھودیتی ہے جبکہ شیکھا اس پر قابو پاکرسماج میں خود کو منواکراپنےلیےآبائی گھرکادروازہ کھول دیتی ہے۔

خُنثٰی افرادمیں نفسیاتی اعتبارسےحساسیّت اوراحساسِ دردمندی پائی جاتی ہے۔یہ حساسیّت اور اِحساسِ دردمندی شیکھااور ستارہ کے کردار میں موجودہوتی ہے۔وہ کسی پر ظلم نہیں کرتی،کسی کا حق نہیں مارتی،کسی سےبددعائیں نہیں لیتی ،بلکہ اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے بدھائی کےلیےجاکردوپیسہ کماتی ہیں۔ان کی فطرت میں بدکاری ،حسد،جسم فروشی اور چھیناجھپٹی نہیں ہوتی ہیں بلکہ فطرتاً خوشی اورمحبت دینےوالےلوگ ہوتےہیں ۔ناول میں شیکھاکے اپنےپیشےسےمتعلق سوال پر ستارہ کہتی ہے:
“ہم لوگوں سےاُن کی حیثیت کےمطابق ہی تقاضا کرتے ہیں۔ہمارے پاس دعائیں دینے کےعلاوہ اور ہے ہی کیا؟ لوگ ہماری بددُعا سے ڈرتے ہیں اوراسی لیے جو بَن پڑتاہےدے دیتے ہیں۔۔۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ کہ کسی غریب کے گھر کچھ دینے کو نہیں تو ایک ٹُکڑا گُڑ ہی کھا کر خوب دعائیں دی ہیں بلکہ دو تین مرتبہ تو دُلہن کو شَکُن بھی دال کر آئے ہیں۔ہم انسان ہیں لٹیریں نہیں۔”(۲۰)

ناول”میرےہونےمیں کیابرائی ہے”میں شیکھااورستارہ کےعلاوہ دیگرضمنی خُنثٰی کرداربھی پائےجاتےہیں۔جن میں ادھیڑ عمر گُرو،کلپنا، پنچالی ،سرلا،سوشیلا،بینا،شکیلا،روزی اور دیگرمتعددخُنثٰی کردار پائےجاتےہیں جو ناول کے مجموعی پلاٹ کو منطقی ربط دینےمیں اہم کرداراداکرتےہیں۔ناول میں “گُرو”کا کردارخُنثٰی افراد کےحوالےسےعظمت اورعزت و تکریم والاکردار ہے۔ خُنثٰی ان کو ماں کا درجہ دیتےہیں اور ان کے ہر حکم کو سرآنکھوں پر پورا کرتےہیں۔گُرواحساسِ دردمندی کےساتھ ان کو اولاد کی طرح پالتی اور چاہتی ہے۔ناول میں ستارہ کےمرنےکےبعد اسےقبرستان لےجاتےوقت گُروالوداع کرتےہوئےکہتی ہے:”رب تیری سب گناہ اسی جنم میں بخش دےاوراگلے جنم میں تُومکمل انسان بن کرزمین پر آئے۔”(۲۱) یہ تمام خُنثٰی کرداراپنے طبقےکےنفسیاتی وسماجی مسائل،مخصوص اقدار،اصول و ضوابط،رہائشی نظام،رسوم و رواج،ثقافت،علمی رجحان،معاملات،تعلیم وتعلُّم،مہمان نوازی، ہنرمندی ،اخلاق و عادات،سوچ و فکراورخُنثٰی طبقےسےجڑی متعدد سماجی شعریات کےآئینہ دار ہیں۔یہ چیلے اپنےگُروکوماں کادرجہ دےکرانہیں سب کچھ سمجھتے ہیں جن سے ایک فرمان بردار اورمحبت کرنےوالےاولاد کی مہک اُٹھتی ہے۔

ڈاکٹر رینو بہل نے شیکھااورستارہ کےذریعےپورے سماج کے نفسیات کو اُجاگر کیا ہے۔یہ موت ستارہ کی نہیں بلکہ ہندوستانی سماج کی موت ہے جس نےایک کم سِن بچےکوحالات کےرحم و کرم پر چھوڑکراس کا تماشا کیا۔اس نےمشکل حالات میں جینےکی بھرپور کوشش کی لیکن ایک اکیلا انسان جس کو سماج انسان کی نظر سےبھی نہیں دیکھتا ،ایسے حالات کا کتنا مقابلہ کرسکتاہے۔یہ زوال اورالمیہ صرف خُنثٰی افراد کا ہی نہیں بلکہ پورےہندوستانی سماج کا زوال اورالمیہ ہے۔ ناول میں ڈاکٹررینوبہل کےقلم سےبیان کیے ہوئےشیکھا اور ستارہ کےتمام مسائل (نفسیاتی کشمکش،تعلیمی مسائل ، گھروں سےبےدخلی، والدین سےدوری ،عدم تحفظ،نشہ آوری،جسم فروشی، خونی رشتوں کےناروا رویّے،تشدُّد،اوردیگرمسائل)اُن کےذاتی مسائل ہوتےہوئےہندوستان میں رہنے والےتمام شیکھاؤں اور ستاراؤں کےمسائل ہیں۔ڈاکٹر رینو بہل نے شیکھا اورستارہ کےذریعےخُنثٰی کی زندگی کی بہت سی گتھیوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے ۔

رینو بہل ناول میں ایک انسان دوست ادیب کے طور پرسامنے آتی ہے۔وہ انسان کو فرشتہ سیرت پیش کرتی ہے نہ شیطان صفت۔وہ اعتدال میں رہ کرجیتے جاگتےانسانوں سے ناول کے کردار اخذ کرتی ہیں۔ان کے ہاں والدین سایہ خدا بھی ہوتے ہیں اور قہرِ الٰہی بھی۔اگر ایک طرف شیکھا کاابّا اس کی دوہری شناخت پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ستارہ کاوالد تھوڑی ہی بدنامی پر اسے اندھیری رات میں گھر سے نکال دیتی ہے۔ان کے ہاں انسان ہوس کا پجاری بن کر درندگی بھی اختیار کرتا ہےاور حضرتِ حضرؑ بن کرانسانیت کی خدمت بھی کرتاہے۔اگر شیکھا کا ماموں ہوس کی آگ بُجھانے کے لیےسات سال کی عمر میں اُن سے پورا ہفتہ جنسی اختلاط کرتا ہے تو دوسری طرف راشد،اس کا فوٹوگرافردوست اور شیکھا سینے میں درد بھرے دل رکھ کر ہیجڑا افراد کے مسائل کم کرنے کے لیے صبح و شام محنت کرتے ہیں۔رینوبہل خُنثٰی طبقے کے تمام مسائل کا ذمہ دار صرف سماج کونہیں ٹھہراتی بلکہ سماج کا روشن چہرہ بھی پیش کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ جات
۱۔ رخشندہ شہناز،کاروانِ نفسیات،مکتبہ کاروان لاہور،۲۰۰۸؁ء،ص:۱
۲۔ رینوبہل ،ڈاکٹر ،”میرے ہونے میں کیا برائی ہے”، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی نمبر۶ ، ؁۲۰۱۷ء ،ص:۳۷۔۳۸
۳۔ ساجدہ زیدی،انسانی شخصیت کےاسرارورموز،قومی کونسل برائےفروغِ اردو زبان ،نئی دہلی ،جولائی ۱۹۹۹؁،ص:۳۵۴
۴۔ رینوبہل ،ڈاکٹر ،”میرے ہونے میں کیا برائی ہے”،محولہ بالا،ص:۱۶
۵۔ایضاً، ص:۸۶
۶۔ایضاً، ص:۲۴
۷۔ ظہیررحمتی،ڈاکٹر،غزل کی تنقید کی اصطلاحات، اترکھنڈ،جواہرلال نہرو یونی ورسٹی،نئی دہلی ،۲۰۰۵؁ء، ص:۴۶۲
۸۔ رینوبہل ،ڈاکٹر ،”میرے ہونے میں کیا برائی ہے”،محولہ بالا،ص:۱۸۔۱۹
۹۔ ساجدہ زیدی،انسانی شخصیت کےاسرار و رموز ،محولہ بالا،ص: ۳۴۲۔۳۴۳
۱۰۔ رینوبہل ،ڈاکٹر ،”میرے ہونے میں کیا برائی ہے”،محولہ بالا، ص:۷۷
۱۱۔ساجدہ زیدی،انسانی شخصیت کےاسرار و رموز ،محولہ بالا،ص: ۳۹۳
۱۲۔ رینوبہل ،ڈاکٹر ،”میرے ہونے میں کیا برائی ہے”،محولہ بالا،ص:۱۶۔۱۷
۱۳۔ایضاً،ص:۹۳
۱۴۔ایضاً، ص:۷۹
۱۵۔ ساجدہ زیدی،انسانی شخصیت کےاسرار و رموز ،محولہ بالا،ص:۳۸۴
۱۶۔ رینوبہل ،ڈاکٹر ،”میرے ہونے میں کیا برائی ہے”،محولہ بالا،ص:۱۶
۱۷۔ ساجدہ زیدی،انسانی شخصیت کےاسرار و رموز ،محولہ بالا،ص:۳۸۶
۱۸۔ رینوبہل ،ڈاکٹر ،”میرے ہونے میں کیا برائی ہے”،محولہ بالا،ص:۱۰۴
۱۹۔ایضاً،ص:۱۱۱
۲۰۔ایضاً، ص:۵۲
۲۱۔ ایضاً،ص:۸۳

Facebook Comments

اظہر حسین
پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ بی ایس اسکالر ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply