چکوال مدرسہ ، بچوں کے جسم سے روحوں تک نشان/محمد وقاص رشید

“ننھے بچوں کے جسموں کے نازک حصوں پر چاقو کی نوک سے A اور Z کے نشان “۔۔۔۔ آپ نے یہ جملہ پڑھا تو کیا ذہن میں آیا ؟۔ کہیں زمانہِ قدیم میں سفاک فوجیوں کے ہاتھوں دشمن فوج کے بچوں سے غیر انسانی سلوک۔ یا آج کے دور میں کسی ٹارچر سیل میں سائیکو پیتھ ذہنی مریض مجرموں کے ہاتھوں بچوں کا استحصال ؟

جی نہیں۔ رحیم خدا نے ہدایت کی ایک کتاب اتاری تھی رحمت للعالمین نبی ص  پر۔ اس نبی ص کے وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے یہ کتاب پڑھنے آنے والے بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کرنے کے بعد انکے جسم کے نازک حصوں پر اپنے ناموں کی مہریں ثبت کیں۔ (لا حولا ولا قوۃ)

اب بتائیے گا آپ کے ذہن میں تصویر کیا بنی ؟۔ طالبعلم کے مشاہدے کے مطابق یہاں سے دو تصورات بنتے ہیں۔ ایک اگر، مگر ، چونکہ ، چنانچہ ، لیکن ، بہرحال ، چلو خیر کے بغیر انسانیت کی بنیاد پر مذمت۔۔۔دوسرا سب ایسے نہیں ، سکولوں میں بھی ہوتا ہے ، اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ، میڈیا کی دروغ گوئی یا خاموشی۔ یہ دوسری طرزِ فکر دراصل وہ ہے جسکی وجہ سے ایسے گھناؤنے ترین انسانی جرائم یہاں پنپتے رہتے ہیں۔

چکوال میں ایک کھلی کچہری کے دوران ایک مدرسے “جامعتہ المصطفی’ ” (او خدایا کیسے لکھوں کہ یہ وہی مصطفی ص ہیں جن کو معلم بنا کر بھیجا گیا اور انکے  نام کی ایک درسگاہ میں پراگندگی کے مارے ان معلموں نے معلمِ انسانیت کی جو توہین کی۔۔۔خدا کی قسم اگر انکی کوئی توہین ہے تو وہ یہ ہے ) میں پڑھتے طلباء کے چچا نے یہ شکایت درج کروائی کہ انکے بچوں کے ساتھ مدرسے میں جنسی و جسمانی تشدد کیا گیا۔

ڈی پی او کی کھلی کچہری میں کی گئی شکایت پر جب قانون حرکت میں آیا تو طبی و قانونی تحقیق و تفتیش کے دوران یہ ہولناک انکشاف سامنے آیا کہ 14 بچوں کے ساتھ  یہ گھناؤنا ترین مکروہ کھیل کھیلا گیا۔ طبی معائنے کے دوران ناصرف بچوں سے جنسی زیادتی سامنے آئی بلکہ آپ ان دین کیا زمین پر بوجھ بنتے قاریوں کی ذہنی وحشت اور تعفن کا اندازہ کیجیے کہ ان دونوں نے اپنے ناموں انیس اور ذیشان کے پہلے حروف A اور Z کو چاقو کی مدد سے بچوں کے پرائیویٹ پارٹس پر کندہ بھی کیا۔ او میرے مالک۔ الامان

ایک عام انسانی ذہن اور متشدد ذہن میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک بچہ فطرت کا عکس ہوتا ہے۔ متشدد ماحول کے بچے جانوروں کو پتھر مارتے انکو زخمی کرتے لنگڑاتا دیکھ کو خوش ہوتے ہیں۔ نارمل گھروں کے بچے کبھی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آپ اندازہ تو کیجیے کہ یہاں متشدد مجرمانہ حیوانی ذہنیت کی سفاکیت کا کیا عالم ہے کہ یہ چھٹے ہوئے بد معاش پہلے بچوں کی اخلاقیات اور ننھی روحوں پر اپنے مکروہ کرداروں کو منقش کرتے ہیں اور پھر انکے ننھے مساموں پر چاقو سے اپنے ناپاک ناموں کو کندہ کرتے ہیں۔ کیوں ؟ جانتے ہیں کیوں ؟ جانیے کیوں۔۔

کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ہم انہی کی بے بنیاد اور جاہلانہ دینی تشریحات پر بچے پیدا کرتے جاتے ہیں انکو پڑھانے لکھانے کی  ذمہ داری (جس پر خدا بہرحال پوچھے گا ) نہیں پوری کر پاتے تو اسکا بھی یہی ہمیں مقدس عذر فراہم کرتے ہیں کہ ” ایک حافظ اپنے ساتھ چھے لوگ جنت میں لے جائے گا “۔۔اور ہم بجائے اس سے پوچھنے کے کہ اگر ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے تو بچے پیدا کرنے کے بعد اسکی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمارا رزق کیوں نہیں بڑھا ؟ ہم اپنے بچے کے جسمانی ، جنسی ، اخلاقی اور روحانی استحصال کے بدلے خدا کی جنت کا سودا کرتے ہیں۔ اس پوری کائنات میں اس سے زیادہ سفاک سودے بازی ممکن نہیں۔

آپ ذرا گہرائی میں تو جائیے ، خدا کی قسم شرم سے منہ چھپانے پر دل کرتا ہے ۔ آخر بچوں کے جسموں پر اپنے ناموں کے حروف کندہ کرنے کی وجہ کیا ہے۔ ؟ ایک ملعون مفرور ہے جبکہ دوسرے نے جنسی تشدد سے انکار اور جسمانی تشدد کا اقرار کیا ہے۔

“اپنا رزق ساتھ لانے والے” اور ” دین کے بیوپاریوں اور اپنے ماں باپ کے درمیان سودے میں اپنی زندگیاں تج کر ، جیتے جی جہنم واصل ہو کر اپنے ماں باپ کی تصوراتی جنت کمانے والے ان معصوم بچوں نے بتایا کہ انہیں جنسی تشدد کی خبر ماں باپ کو بتانے سے روکنے کے لیے کیے جانے والے تشدد کے سلسلے کی ایک کڑی جسموں پر نام کندہ کرنا تھا۔

لاہور میں جب بے چارے انس کو بارش کی وجہ سے ایک دن چھٹی کرنے پر وحشی قاری نے سسکا سسکا کر اور تڑپا تڑپا کر قتل کر دیا  تھا تو انس کے والد نے کہا تھا “ہمارا بچہ تو چلا گیا لیکن پاکستان کے تمام ماں باپ سے کہتا ہوں ان وحشیوں سے اپنے بچے بچا لو” تب ایک مضمون لکھا تھا “مفتی تقی عثمانی صاحب کے نام ایک خط”۔۔۔اس کے جواب میں انکے ایک چاہنے والے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ مفتی صاحب نے مدرسوں میں اس مسئلے کے حل پر ایک کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا نام طلب کرنے پر جو تاویلات کا سلسلہ تھا۔ اللہ اللہ۔

سنیے A to Z کے یہ الفاظ انگریزی میں ایک خاص اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اگر ایک ریاست سمجھے تو یہ الفاظ دراصل اسکے جسم پر کندہ کیے گئے ہیں۔ مگر نہیں سمجھے گی کہ پچھلے دورِ حکومت میں لکھا تھا کہ وزارتِ انسانی حقوق کے زیر اہتمام اس حساس معاملے پر مستقل بنیادوں پر نمٹنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے۔

اگر یہ بڑے بڑے مفتیانِ اور پاکستان کے علما حضرات سمجھیں تو یہ الفاظ انکے بدنوں پر نقش کیے گئے ہیں۔ مگر وہ نہیں سمجھیں گے کہ اگر سمجھتے ہوتے اپنے دائرہ کار سے باہر معاملات پر جتنی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اتنی اپنی ناک کے نیچے ہونے والے سنگین ترین انسانی استحصال پربھی کرتے۔

مگر یہ سمجھیں نہ سمجھیں وہ والدین اس سے بری الزمہ کیسے ہو سکتے ہیں جنہوں نے حساس ترین عمر میں اپنے بچوں کو ان متشدد عقوبت خانوں میں چھوڑا اور پھر پورے ملک میں پے در پے ہونے والے سانحات کے آئینے میں بھی کہیں ہمیں اپنا بچہ نظر نہیں آیا۔ ماں باپ یہ سوچیں اور خود سے سوال کریں کہ انکے بچے نے اپنی اخلاقی ، جسمانی اور روحانی معصومیت کی طرف اٹھتے پہلے مکروہ ہاتھ پر بھاگ کر انکی ممتا اور پدری شفقت میں پناہ کیوں نہیں لے لی۔ یہ A to Z کی پراگندہ مہر اس جنت کے سودے کی دستاویز پر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خبر ہے کہ مدرسہ سیل ہو گیا۔ بچے گھروں کو آ گئے۔ ماں باپ سوچیں کہ انکے ننھے جسموں سے A to Z کی ملائی مہریں تو ہٹ جائیں گی ، روحوں سے نشان کیسے جائیں گے۔ کب تک آخر کب تک روحوں پر ان نشانوں کی نشانیاں ملتی رہیں گی ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply