الیاس گھمن، میرا دوست۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی 

میں اسے پورے تیس سال سے جانتا ہوں یعنی اس وقت سے جب اسے بالغ ہوئے صرف تین سال ہوئے تھے۔ تین چیزیں اس کی شخصیت کی تب بھی شناخت تھیں اور آج بھی شناخت ہیں۔ اعلیٰ درجے کی ذہانت۔ اعلیٰ ترین درجے کا اخلاق اور خاکساری کی حد کو پہنچا ہوا انکسار۔ میرے اور اس کے تعارف کے اگلے سال یعنی 1987ء میں وہ جامعہ بنوریہ میں درجہ ثالثہ کا طالب علم تھا۔ اس نے جامعہ کی مسجد میں امامت کرائی اور سلام پھیرتے ہی مصلے چھوڑ کر چلتا بنا۔ منیجمنٹ نے دعاء نہ کرانے کو ایشو بنا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ جامعہ بنوریہ میں زندگی کی رفتار رک سی گئی۔ منیجمنٹ کا کہنا تھا وہ دعاء نہ کرانے پر معافی مانگے اور اس کا کہنا تھا کہ آپ ثابت کردیں کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعاء فرض یا واجب ہے یا اس کا نماز سے کوئی لازمی تعلق ہے تو میں معافی مانگ لوں گا۔ مفتی محمد نعیم صاحب نے فیکلٹی کا اجلاس بلا لیا اور فیصلہ لکھا کہ محمد الیاس گھمن کا جامعہ سے اخراج کیا جاتا ہے۔ تمام اساتذہ نے دستخط کردیے سوائے میرے والد مولانا محمد عالم رحمہ اللہ کے۔ میرے والد کا موقف تھا کہ آپ نے شرعی مسئلے کو اخراج کی وجہ بتایا ہے، شرعی مسئلے میں الیاس کا موقف درست اور آپ سب کا غلط ہے اور اس مسئلے میں میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اگر میرے دستخط چاہئیں تو یہ لکھئے کہ ہمارا انتظامی قاعدہ ہے کہ فرض نماز کے بعد ہر حال میں دعاء ہوگی اور الیاس نے یہ دعاء نہ مانگ کر ادارے کا ضابطہ توڑا ہے لھذا اخراج کیا جاتا ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ میرے والد کے لاڈلے شاگردوں میں سے ہے۔ اخراج کے بعد اسے رخصت کرتے ہوئے میرے والد نے 100 کا نوٹ دیتے ہوئے کہا تھا۔ “اب کراچی میں نہ پڑھنا، سیدھے پنجاب جاؤ اور وہیں پڑھو” اور الیاس نے ایسا ہی کیا۔ وہ دن ہے اور یہ دن ہے الیاس مسلسل تنازعات کا شکار رہتا ہے اور اس کا سبب اس کی بے پناہ ذہانت اور تحرک کے سوا کچھ نہیں۔ میری درخواست پر اس نے متشددانہ رویہ ترک کیا جو بڑی بات ہے کیونکہ اس لیول پر پہنچ کر لوگ دوستوں کی نہیں بلکہ چمچوں کی سنتے ہیں۔ میں نے اسی فیس بک 2014ء میں تنقید کا نشانہ بنایا تو فورا سرگودھے سے صفائی دینے آگیا اور بخدا اشارے کنائے میں بھی یہ نہیں کہا کہ آئندہ میرے خلاف نہ لکھنا۔

وہ بے انتہاء ذہین ہے، اس کا اخلاق اس درجے کا ہے کہ آپ کو دو منٹ میں فتح کرلے، وہ صرف اور صرف دلیل کی زبان میں بات کرنے والا مولوی ہے۔ اس کی آواز پھیل رہی ہے اور اس پھیلاؤ کا مطلب مولویوں کے لئے یہ ہے کہ چندے کا ایک اہم دعویدار اور میدان میں ہے اور یقین جانئے میں مولویوں کی رگ رگ سے واقف ہوں، چندے کو خطرہ لاحق ہوجائے تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کی اسلامک بینکنگ پر یہی تو مسئلہ تھا کہ ملک بھر کے سیٹھ ان کی طرف متوجہ ہوگئے تھے اور بڑے مدرسوں کے ایسے کیسز میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سیٹھوں نے یہ کہہ کر چندہ دینے سے انکار کردیا کہ “دارالعلوم کو دیدیا ہے” سیٹھ اسلامک بینکنگ کی وجہ سے ہی مفتی تقی عثمانی صاحب کے دارالعلوم کی جانب متوجہ ہوئے تھے لھذا اسلامک بینکنگ کو ہی نشانہ بنانا ضروری ہوگیا تھا اور یہ اس بے رحمی سے بنایا گیا کہ مفتی تقی صاحب کے بارے میں کہا جانے لگا “وہ سود کو حلال کر رہے ہیں” اور یہ بات الیاس پر زنا کی تہمت لگانے سے زیادہ سنگین بات تھی کیونکہ سود کو حلال کرنے والا تو کافر ہوجاتا ہے، اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ ان پر کفر کا فتویٰ لگانے کی تیاری تھی۔ تقی صاحب کے بعد مولانا زاہد الراشدی ابھرنے لگے تو ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ تو فیس بک پر ہی بکھرا پڑا ہے۔ زاہد الراشدی کے بعد مولانا طارق جمیل کا بھی نمبر لگا اور ان کے قدم بھی روکنے کی کوشش کی گئی۔ یاد رکھئے جب بھی کوئی مولوی سر اٹھانے کی کوشش کرے گا اور یہ خطرہ پیدا ہوگا کہ وہ بھاری چندہ کھینچ سکتا ہے تو کراچی کے مولویوں کا ایک گروپ لازما اس کی کردار کشی کرے گا۔

جہاں تک اس آرٹیکل کا تعلق ہے تو سبوخ سید بھی پچھلے دس سال سے میرے دوست ہیں لھذا میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا، اس کے لئے آپ کو کسی منجھے ہوئے میگزین ایڈیٹر سے رائے مانگنی ہوگی البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر یہ الیاس گھمن سبوخ سید کے بارے میں شائع کرتا تو قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری ایک فون کال پر الیاس اسے ویب سائٹ سے ہٹا بھی چکا ہوتا اور شاہ جی سے معذرت بھی کر چکا ہوتا اور یہی پرانے دوستوں کی کوالٹی ہوتی ہے۔ میں نے شاہ جی سے یہ درخواست نہیں کی کیونکہ فی الحال اپنی اتنی حیثیت نظر نہیں آتی لیکن یقین ہے کہ ایک دن شاہ جی کے ساتھ بھی دوستی کا لیول اس مقام تک پہنچ جائے گا۔ وہ ایک اچھے دوست ہیں، ہمدرد ہیں، ملنسار ہیں اور مشکل وقت میں آس پاس نظر آنے والوں میں سے ہیں !

یہ کیس اپنی نوعیت کے لحاظ سے دارالافتاء جانے کا تھا یا عدالت جانے کا ؟ قرآن مجید اس حوالے سے کیا کہتا ہے ؟ صرف اسی طرح کے کیس میں قذف کیوں رکھی گئی ہے ؟ الزام لگانے والے قرآنی ہدایات کے بجائے منافقین مدینہ کی راہ پر کیوں چلے ؟ جب تک الیاس گھمن کو عدالت مجرم قرار نہیں دیدیتی میں اسے پاک دامن ہی مانوں گا۔ کل کو آپ میں سے کسی شخص پر کوئی الزام لگا دے اور الزام لگانے والا ہوا بھی کسی شیخ الحدیث کا بیٹا تو کیا میں مان لوں ؟ یہ تو بہت ہی آسان بات ہوگئی، فیس بک پر بھی جو بندہ قابو نہ آ ئے اس پر ایسا ہی کوئی الزام دھر دو اور اسی سے کہو کہ اپنی پاک دامنی اور معصومیت ثابت کرو ورنہ ہم تمہیں زانی ہی مانیں گے۔ کیا شریعت اور مروجہ قانون ثابت کرنا ملزم کے ذمہ داری بتاتے ہیں ؟ جس دن آپ پر تہمت لگی اس دن آپ کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا اور اگر اس دن رعایت اللہ فاروقی بھی آپ سے ہی مطالبہ کرنے لگا کہ اپنی بے گناہی ثابت کرو تو وہ آپ کا ہی دل ہوگا جس پر خنجر چلیں گے۔ میری تو کوئی بیٹی اور بہن نہیں لیکن بہنوں اور بیٹیوں والو ! ایک بار قرآن مجید بھی کھول کر دیکھ لو کہ اس کیس میں اس کے رہنماء اصول کیا ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

محترم رعایت اللہ فاروقی صاحب علم ہیں، موجودہ آندھی میں انکا موقف اہمیت کا حامل ہے۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”الیاس گھمن، میرا دوست۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی 

Leave a Reply