سپیس ٹائم کی معذولی۔۔وہاراامباکر

تصور کریں وہ وقت جب آپ نے وادی کاغان کا سفر کیا تھا۔ یا گاڑیوں کے لئے کسی نئے ڈیزائن کا۔ یا اپنے قریبی دوست کے شادی کا۔ یا اس دن کا جب لاہور ریڈیو سٹیشن سے اعلان کیا گیا ہو گا، “کچھ ہی ساعت کے بعد نصف شب کو بارہ بجے کا گجر بجتے ہی پاکستان کی آزاد و خودمختار ریاست وجود میں آ جائے گی”۔ ان سب تصورات میں سپیس اور ٹائم ہمارے مددگار ہیں بلکہ لازمی رفیق ہیں۔ ان کے بغیر یہ تصورات بے معنی ہیں۔
لیکن اب کوشش کیجئے کہ تصور کر لیں ایسی دنیا کا جس میں تین کے بجائے چار ڈائمنشن ہوں۔ اوپر اور نیچے، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں۔ اور کہہ لیں کہ باژ اور ذغ؟ اس میں کامیابی نہیں ہوتی۔ ہمارا ساتھی ہمارا جیلر بن جاتا ہے اور ہمارے تصور کو جکڑ لیتا ہے۔ وقت کی ماضی اور مستقبل کی ایک ڈائمنشن کے بجائے تصور کر لیں کہ وقت کی دو ڈائمنشنز ہیں۔ یا پھر وقت نہیں ہے۔ اس قید کا شکنجہ مزید سخت ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی کے وقت سے سپیس اور ٹائم سائنس کے کہانی کا مرکزی کردار رہے ہیں۔ آئن سٹائن کی تھیوری سے پہلے ان کا تصور ایک سٹیج کا تھا جس پر مادہ اپنا دلچسپ ڈرامہ کھیلتا ہے۔ اپنے اس کردار سے بڑھ کر سپیس ٹائم خود پروڈکشن کا حصہ بن گئے۔
دس نومبر 1919 کو نیویارک ٹائمز کی سرخی تھی۔
Light all askew in the heavens: Men of science more or less agog over results of eclipse observations.
سورج گرہن میں لی گئی آبرزویشن نے کنفرم کر دیا کہ یہ مڑتے ہے، کھنچتے جاتے ہے اور خمیدہ ہوتے ہے۔ مادے اور روشنی کو اپنے ہمراہ لئے پھرتے ہیں۔
نیند، تہذیب کا تحفہ ہے۔۔ادریس آزاد
کوانٹم تھیوری 1926 میں نمودار ہوئی۔ خاص حالات میں یہ سپیس اور ٹائم کے ساتھ ملکر ٹھیک چلتی ہے۔ اور اس سے نکلنے والا نتیجہ پارٹیکل فزکس کا سٹینڈرڈ ماڈل ہے جو الیکٹرومیگیٹک، ویک اور سٹرانگ نیوکلئیر تعاملات اور ان کے سب ایٹامک ذرات کی کامیابی سے وضاحت کر دیتا ہے۔ لیکن جب مادے کی کثافت بہت زیادہ ہو جائے یا آپس کا فاصلہ بہت کم ہو جائے تو پھر ان کا آپس میں اتحاد ٹوٹ جاتا ہے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان معاملات میں کوانٹم تھیوری اپنے ساتھی سٹار کو پچھاڑ دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے آپسی اتفاق میں گڑبڑ سب سے پہلے 1935 میں نظر آنے لگی تھی جب آئن سٹائن، پوڈولسکی اور روزن نے معلوم کیا کہ اگر کوانٹم تھیوری درست ہے تو اس کا نتیجہ انٹینگلمنٹ ہے۔ یعنی الگ پارٹیکلز کی ایک کوانٹم حالت ہو، خواہ وہ ایک دوسرے کے قریب نہ ہوں۔ اس سے انفارمیشن کو روشنی کی رفتار سے تیز سے منتقل کئے جانا تو ناممکن ہے لیکن اس مظہر کی سپیس اور ٹائم سے بے رخی وہ مسئلہ تھا جس نے آئن سٹائن کو خاصا پریشان کیا۔
سٹرنگ تھیوری نے اس تعلق کے ٹوٹ جانے کو سامنے لا کھڑا کیا۔ نوبل انعام یافتہ فزسسٹ ڈیوڈ گروس کا کہنا ہے، “ہر سٹرنگ تھیورسٹ اس بات کا قائل ہے کہ سپیس ٹائم کا قصہ ختم ہو چکا ہے۔ لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ اس کی جگہ پر کیا ہو گا”۔ فیلڈ میڈلسٹ ایڈورڈ وِٹن کا بھی یہی خیال ہے۔ ناتھن سیبرگ کا خیال ہے کہ “میں تقریباً یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سپیس اور ٹائم سراب ہے۔ ان کا بنیادی ہونا ہمارا قدیم واہمہ ہے۔ اس کی جگہ اس سے کچھ زیادہ sophisticaated چیز لے گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھی خبر یہ ہے کہ اب کئی متبادل زیرِغور ہیں۔
ان میں سے ایک امیدوار خود انٹینگلمنٹ ہی ہے۔ برائن سونگل اور مارک وان رامسوڈنک کی تحقیق دکھاتی ہے کہ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی کے خمیدہ سپیس ٹائم اینٹینگل شدہ کوانٹم بِٹ کے ٹینسر نیٹورک سے ابھر سکتے ہیں۔ اگر یہ منظر درست ہے تو اینٹینگلمنٹ کا سپیس ٹائم سے بے رخی برتنا سراب نہیں۔ بلکہ یہی وہ مظہر ہے جو سپیس ٹائم فیبرک کو جوڑ کر رکھتا ہے۔
ایک اور امیدوار جیومیٹرک کنسٹرکشن ہے جو سپیس ٹائم سے باہر ہے۔ اس میں نیما ارکانی حامد اور جاروسلاو ٹرنکا کا دریافت کردہ amplituhedron ہے۔ اس کو سرن میں لارج ہیڈرون کولائیڈر کے تجربات سے حاصل کردہ مشاہدات سے اخذ کیا گیا ہے۔ سب ایٹامک ذرات ایک دوسرے سے کئی طرح سے ٹکرا کر بکھرتے ہیں اور فزکس میں کئی دہائیوں سے ان کے امکانات کی کیلکولیشن کے فارمولے ہیں۔ یہ اس مفروضے پر ہیں کہ فزیکل پراسس سپیس ٹائم میں لوکل ہیں۔ لیکن یہ فارمولے انتہائی پیچیدہ ہیں اور نیچر میں پائی جانے والی گہری سمٹری چھپا لیتے ہیں۔ Amplituhedron ان فارمولوں کو بے حد سادہ کر دیتا ہے اور ان سمٹریز کو آشکار کرتا ہے جو سپیس ٹائم چھپا جاتا ہے۔ تاہم اگر یہ درست ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں یہ مفروضہ ترک کر دینا پڑتا ہے کہ سپیس اور ٹائم فنڈامنٹل ہیں۔
جادوئی ڈبے کی کہانی۔۔محمد شاہ زیب صدیقی
اگر سپیس اور ٹائم بنیادی نہیں تو پھر کیا بنیادی ہے؟ ابھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن زیادہ گمان کوانٹم انفارمیشن کے بارے میں ہے۔ کوانٹم بِٹ اور کوانٹم گیٹ۔ لیکن یہاں پر کوانٹم انفارمیشن کو ہمیں سپیس ٹائم کے ساتھ نہیں بلکہ تجریدی طور پر دیکھنا ہو گا۔ سپیس ٹائم اور آبجیکٹ کوانٹم انفارمیشن کی non-spatial اور non-temporal ڈائنامکس سے کسی طرح ابھرتے ہیں۔ جیسا کہ جان وہیلر نے کہا کہ یہ “It from bit” کا مظہر ہے۔ لیکن اس سے پھر اپنے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ آخر کیوں انفارمیشن (کوانٹم یا دوسری) رئیلیٹی کی تہہ پر ہے؟ اور یہ کس sense میں انفارمیشن ہے۔
ابھی سپیس اور ٹائم کی فاتحہ پڑھ دینا قبل از وقت ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وفات کی خبر مبالغہ آرائی ہو۔ لیکن زندہ ہو یا مردہ، یہ اہم پیشرفت ہے۔ سپیس ٹائم فنڈامنٹل ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ثبوت ہمیں نیچر آف رئیلیٹی کے بارے میں نئی اور گہری انسائیٹ دیں گے۔ اور ہمارے اپنے تصور کی نیچر کے بارے میں بھی۔
مجھے شبہ ہے کہ ان کی موت کی خبر مبالغہ نہیں۔ اور یہ صرف رئیلیٹی کی نیچر کے بارے میں ہی نہیں بلکہ محققین کے لئے perceptual psychology میں بھی نئے سوالات اٹھاتی ہے۔ آخر کیوں ہمارا تصوراتی سسٹم دنیا کو سپیس اور ٹائم کے فارمیٹ میں پیش کرتا ہے۔ اور وہ کونسے ایسے سلیکشن پریشر تھے جس وجہ سے یہ قدیم واہمہ اور سراب ابھرا ہے؟ اس میں فٹنس کا فائدہ کیا تھا؟
ایک عام مفروضہ ہے کہ ارتقا حقیقت کے درست ادراک کی حمایت کرتا ہے۔ اپنے ماحول کے بارے میں درست انفارمیشن اکٹھی کرنا کسی جاندار کی فٹنس کے لئے لازم ہے۔ “سپیس ٹائم کا فارمیٹ حقیقت نہیں، قدیم سراب ہے” سٹینڈرڈ تصور نہیں۔ لیکن جب ایک بار اپنے اس مفروضے کو چیلنج کریں تو ہمیں اس مفروضے کے پیچھے کوئی خاص وجہ یا بنیاد نظر نہیں آتی۔ (ایولیوشنری گیم تھیوری اس عام خیال کی سپورٹ نہیں کرتی)۔
اگر سپیس ٹائم کا سراب ہونا طے ہو جاتا ہے تو یہ ہمارے گہرے تصورات کو چیلنج کرے گا۔ اس سے فزیکل کازیلیٹی کے خیال میں کتنی بڑی تبدیلی آئے گی؟ اور کلاسیکل مائیڈ باڈی پرابلم کے بارے میں؟ شعوری تجربات اور دماغی ایکٹیویٹی کے بارے میں؟
ایسے سوالات واضح کر دیتے ہیں کہ یہ سوال بڑے ہیں۔ ایک صدی پہلے سپیس اور ٹائم نے عالمی شہہ سرخیوں کے ساتھ دھماکے دار انٹری دی تھی۔ اور ان کو کائنات کے سٹیج کے بجائے ایک مرکزی کھلاڑی بنایا تھا۔ اپنے تخت سے اس کی معزولی اس سے کم بڑی خبر نہیں ہو گی۔
اور اگر یہ درست ہے تو یہ سائنس میں نئے راستے کھولنے کیلئے بہت exciting خبر ہے۔

کواٹنم انفارمیشن کے بنیادی ہونے پر اچھی کتاب
The Demon in this Machine: Paul Davies

نیما ارکانی حامد کا amplituhedron کے بارے میں

https://youtu.be/WGNZEZcO3bo

اینٹینگلمنٹ کے مرکزی ہونے کے بارے میں برائن سونگل کا پیپر
https://www.annualreviews.org/doi/abs/10.1146/annurev-conmatphys-033117-054219

ایڈورڈ وِٹن کا سپیس ٹائم کے بارے میں نکتہ نظر
https://www.quantamagazine.org/edward-witten-ponders-the-nature-of-reality-20171128/

Advertisements
julia rana solicitors london

اس بارے میں تفصیل سے پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل کتاب
The Cast Against Reality: Donald Hoffman

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply