“عالمی اردو ادب” کے خصوصی شمارہ ‘ستیہ پال آنند نمبر’ کا اجرا

‘عالمی اردو ادب’ حوالہ جاتی مجلہ ہی نہیں بلکہ ایک دستاویز ہے : پروفیسر عتیق الله

عالمی اردو ادب کے خصوصی شمارہ ‘ستیہ پال آنند نمبر’ کا اجرا

نئی دہلی۔جامعہ نگر. بٹلہ ہاؤس واقع ڈائنامک انگلش انسٹی ٹیوٹ میں مظہر فاؤنڈیشن انڈیا اور اکادمی اردو زبان و ادب کے زیر اہتمام ‘رسالہ عالمی اردو ادب’ کے اڑتالیسویں شمارے کی رسم اجرا عمل میں آئی۔یہ پروفیسر ستیہ پال آنند کے فن اور شخصیت پر خصوصی شمارہ ہے۔پروگرام کی صدارت پروفیسر عتیق الله نے کی جبکہ ڈاکٹر خالد مبشر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔رسالے کے سرپرست پروفیسر کوثر مظہری نے صدر پروفیسر عتیق الله کو گلدستہ دےکر استقبال کیا۔جناب فاروق ارگلی صاحب کو رسالے کے مدیر یوسف رضا نے گلدستہ پیش کیا۔نند کشور وکرم کے فرزند جناب وکاس دت کا استقبال پروفیسر شہزاد انجم نے گلدستہ پیش کر کےکیا۔

Advertisements
julia rana solicitors


واضح ہو کہ رسالہ ‘عالمی اردو ادب’ اردو کا واحد حوالہ جاتی مجلہ ہے جو 1984 سے مسلسل جاری ہے۔27 اگست 2019 کو رسالے کے سابق مدیر اور بانی جناب نند کشور وکرم کے اچانک انتقال کے سبب یہ رسالہ تقریباً تین سال کے عرصے کے بعد ایک مرتبہ پھر سے جاری ہوا ہے۔اس کا آخری شمارہ جولائ 2019 میں شائع ہوا تھا۔
پروفیسر ستیہ پال آنند کا شمار برصغیر ہند و پاک کےایک بڑے نظم گو شاعر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔انہوں نے فکشن اور ڈکشن دونوں میں ہی طبع آزمائی کی اور اہل اردو کو اپنی درجنوں کتابوں سے مستفیض کیا، اورافسانہ، ناول ،شاعری کے علاوہ اپنی خودنوشت ” کتھا چار جنموں کی ” لکھ کر اپنی تحریر کا سکہ جمایا۔ اس سے قبل اس رسالے کے کئ خصوصی شمارے شائع ہوچکے ہیں جن میں سنیما صدی نمبر، حبیب جالب نمبر، احمد ندیم قاسمی نمبر، علی سردار جعفری نمبر، دیویندرستیارتھی نمبر، اشفاق احمد نمبر، کشمیری لال ذاکر نمبر اور مشتاق احمد یوسفی نمبر کافی مقبول ہوئے۔
یہ رسالہ پروفیسر کوثر مظہری کی سرپرستی میں شائع ہورہا ہے۔مجلس مشاورت میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی بہار، جناب حقانی القاسمی دہلی، ڈاکٹر شاہ عالم (استاد شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئ دہلی)ڈاکٹر نعیم انیس کلکتہ اور ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق لکھنؤ شامل ہیں۔
پروگرام کی ابتداء میں ڈاکٹر جاوید حسن نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور رسالے کے سرپرست پروفیسر کوثر مظہری کو مبارکباد پیش کی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ نئ دہلی کے سابق صدر شعبئہ اردو پروفیسر شہزاد انجم نے بتایا کہ مرحوم نند کشور وکرم اپنے آپ میں ایک انجمن تھے انہوں نے اردو کی بےلوث خدمت کی۔ساتھ ہی انہوں نے ‘عالمی اردو ادب’ کے اڑتالیسویں شمارے میں شامل اپنے مضمون سے دو اقتباس بھی پیش کیے۔جناب حقانی القاسمی صاحب نے اپنے اظہار خیال میں جناب نند کشور وکرم اور پروفیسر ستیہ پال آنند سے متعلق گفتگو کی۔پروگرام میں نند کشور وکرم صاحب کے فرزند جناب وکاس دت صاحب نے شرکت کی اور اپنے والد صاحب سے متعلق کچھ باتیں بتائیں۔رسالے کے سرپرست اور شعبئہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئ دہلی کے استاد پروفیسر کوثر  مظہری نے اپنی گفتگو میں آج کے دور میں رسائل کی اہمیت بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ بیشک آج سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کا زمانہ ہے اور لوگ اسی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔لیکن باوجود اس کے اخبارات و رسائل برابر شائع ہورہے ہیں اور لوگ پڑھ بھی رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اخبارات ختم ہوگئے ہوں۔سوشل سائٹ اپنی جگہ ہے اور اخبارات و رسائل اپنی جگہ۔انہوں نے آگے کہا کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس رسائل کی جگہ نہیں لے سکتے۔انہون نے ریسرچ اسکالرزاور طلبہ سے گزارش کی کہ وہ رسائل کا مطالعہ ضرور کریں۔ جناب فاروق ارگلی صاحب نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔انہوں نے نند کشور وکرم مرحوم سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں ایک طرح کا دیوانہ پن تھا جو انہیں کام کرنے کے لیے تحریک دیتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ جب ‘عالمی اردو ادب’ کا پہلا شمارہ وکرم صاحب نے نکالا تھا تو اس کی کتابت انہی نے کی تھی۔فاروق ارگلی صاحب نند کشور وکرم کے قریب تھے اور وکرم صاحب انہیں وقتاً فوقتاً اپنے گھر بلاتے رہتے تھے۔پروفیسر عتیق الله نے اپنے صدارتی کلمات میں رسائل کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور ‘عالمی اردو ادب’ کی اہمیت واضح کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ رسالہ صرف حواجاتی مجلہ ہی نہی ہے بلکہ یہ ایک دستاویز ہے۔نند کشور وکرم کی نظر میں تمام رسائل تھے جن سے انہوں نے عطر کشید کیا۔انہوں نے کبھی بھی اپنے رسالے کو کسی خاص نظریے کا ترجمان نہیں بنایا اور نہ ہی کسی کو خوش کرنے کی خاطر کوئ خصوصی شمارہ نکالا۔انہوں نے معیار سے کبھی مفاہمت نہیں کی۔پروفیسر عتیق الله صاحب نے بتایا کہ نئ نسل کو رسائل کا مطالعہ کرنا چاہئیے۔نئ نسل حسّ تحیر سے محروم ہوگئ ہے۔ادب کا شوق قدرت کا گراں قدر عطیہ ہے۔یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ادب سے جس کو دلچسپی ہےوہ انسان کبھی تنہا نہیں ہو سکتا ۔ادب سے وابستگی موت کا خوف نکال دیتی ہے۔نند کشور وکرم کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ رسالہ نکالنا دیوالیہ ہونا ہے۔کوئ قلندر ہی یہ کام کرسکتا ہے، وہ قلندرانہ صفت نند کشور وکرم میں تھی۔
پروگرام میں ڈاکٹر عادل حیات، نوشادمنظر،ڈاکٹر امتیاز احمد، ڈائنامک انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انوارالحق،ڈاکٹر شہنواز ہاشمی کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرز اور طلبہ نے شرکت کی۔ آخر میں رسالے کے مدیر یوسف رضا نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply