• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/44سو سال پرانے مجسموں کے چور زیادہ امریکی تھے۔(قسط9)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/44سو سال پرانے مجسموں کے چور زیادہ امریکی تھے۔(قسط9)۔۔۔سلمیٰ اعوان

چلو افلاق نے مدد کر دی تھی۔
سمیرین ہالSumerian Hallکو سب سے پہلے دیکھیں اور جانیں کہ سمیرین تہذیب 3000 سال قبل مسیح کِس عروج پر تھی۔زراعت اور آب پاشی میں ہل اور شادفShaduf بار برداری کیلئے پہیہ، انتظامی اصلاحات میں قانون دان،اکاؤنٹنٹ،باورچی،جولاہے،کمہار،ترکھان،مندراور پادری،شاعر،گلوکار،موسیقار سب انسانی زندگی کیلئے لازمی ٹہرے تھے۔پڑھنے لکھنے میں تصویری علامتیں حروف کے طور پر رائج ہوئیں۔اس قوم کے مجسمے،زیورات،ملبوسات،ظروف،نواردات کی دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔
سیکنڈ فلور پر جانے کیلئے ماربل کی سیڑھیوں کی جو توڑ پھوڑ ہوئی تھی وہ مرمت کے باوجود کچھ کہتی تھی کہ اُن کے سینوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتے کتنے شاہوں کے بھاری بھر کم وجود لڑھکائے گئے ہوں گے کہ لوٹ مار کرنے والوں کے پاس ہمیشہ وقت کی کمی بھی ہوتی ہے اور پکڑے جانے کا خوف بھی۔
سیڑھیاں آرام دہ اور خوبصورت تھیں۔ٹیرس پر نصف دائرے میں ہر قوم جیسے سمیری،عکاد،آشوری اور دیگر محرابی صورت میں بنی گزرگاہوں سے ملاقاتیوں کو اپنے اندر آنے کی دعوت دیتی تھیں۔اُن میں داخل ہوکر ایک جہاں وا ہوتا تھا۔
افلاق مجھے سمیرین ہال کے وسط میں لے گیا۔جہاں اِس ہال کی سب سے قیمتی چیز سمیرین بادشاہ اینتمیناEntemena کا بغیر سر کے پتھر کا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔
تقریباََ4400 سال پُرانے اِس مجسمے کے چور جانتی ہیں کون تھے؟میں نے حیرت سے بھری آنکھیں اُٹھائیں۔
”امریکی فوجی۔“
”اوہو۔“
وہ تو چار وانگ شور مچ گیا۔انسانیت کے ٹھیکیداروں کو مروڑ اُٹھنے لگے تھے۔ اُن کے حسابوں آرٹ و کلچر کا خون ہوگیاتھا۔بھاگ دوڑ ہوئی۔نیچے کی مٹی اوپر آئی تب کہیں جا کر خیر سے یہ نیویارک کے آرٹ ڈیلروں سے برآمد ہوا۔
اسی طرح بے شمار مجسمے، سونے کانسی کی چیزیں، عراقی اور نیٹو دونوں نے مل کر لوٹیں۔بیشتر تو نکلوا لی گئی ہیں۔ بہت ساری ابھی بھی گُم ہیں۔
”کھیر تتّی تتّی نہیں بہت ٹھنڈی کرکے کھانے کا پروگرام ہے یار لوگوں کا۔اب ترقی یافتہ دُنیا اُن کے غم اور سوگ میں پڑی واویلا کرے۔جتنا جی چاہے شور مچائے۔بھونڈے احتجاج کرے۔آرٹ Lover’s قوموں کے المیے۔
پبلک گیلریوں میں سے ایک میں ورقہ کا وہ مقدس منقش مرتبان دیکھا۔کیا نقاشی تھی؟پور پور زخمی ہوا پڑا تھا۔چودہ حصّوں میں ٹوٹا ہوا۔کِس مہارت سے جوڑا گیاتھا۔
بے چارے ماڑے موٹے غریب غرباعراقی بچے،بوڑھے،نوجوان اسپتالوں میں ٹوٹی ٹانگوں،جلے چہروں کے ساتھ میسحاؤں کے انتظار میں جانیں دے رہے تھے۔دوائیں نہ ملنے کے باعث مر رہے تھے تو بھئی دیں جانیں۔یہ ان کلچرڈ جاہل لوگ اِسی سلوک کے مستحق ہیں کہ کبھی پابندیوں کے ہاتھوں بنیادی ضرورت کی چیزیں نہ ملنے پر مرجائیں اور کبھی غریب ملکوں کی قیمتی چیزیں ہتھیانے کے چکروں میں اُن کی دھرتی پر گرائے جانے والے خطرناک بموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں یا لنگے لُولے ہو کر سامان عبرت بن جائیں۔
یہاں میں نے نرم سفید پتھر کے پجاری دیکھے۔ہاتھ باندھے ہوئے،چہروں پر مسکینی،پہناووں پر پڑی بڑی خوبصورت ڈیزائن کاری تھی۔کہیں دھڑ ٹوٹے ہوئے تھے جنہیں جوڑا گیا تھا۔بنانے والے کیا کمال کے انسان تھے؟
سمیرین کیسے ذہین لوگ تھے؟وہیں ورقہ کے سفید سنگ نرم کے ماسک اور مجسمے تھے۔دیواروں میں نگینوں کی طرح جڑے عورتوں مردوں کے مجسمے۔زیورات ایسے خوبصورت اور ڈیزائن دار کہ آج کی ماڈرن لڑکیاں دیکھیں تو اُن کی جان پر بن جائے۔
موسیقی کا ایک بڑا سا آلہ چلو بربط کہہ لیں وہ بھی شکستہ دم پڑا تھا کہ سونا اندر سے نکال لیا گیا تھا۔کانسی کا مجسمہ باسطکBasitke کے ایک نوجوان کا اور شاہSchalmanezerکا مجسمہ واقعی دیکھنے کے قابل تھے۔گراؤنڈ فلو پر سیلنڈر سلیز، موتی منکے اور زیورات تھے۔اتنے زیادہ کہ بندہ اِس ڈھیروں ڈھیر ہجوم میں گُم ہو جائے۔ہاں البتہ سیلنڈر سیلزبہت حیرت انگیز تھیں۔چھوٹی ہونے کے باوجود اُن پر تحریریں تھیں۔سخت پتھر کی سیاہ اور گہرے سبز رنگ کی یہ سرکردہ شخصیات کے دستخطوں اور دفتری مہروں کے طورپر استعمال ہوتی تھیں۔شیلف بھرے پڑے تھے ان سے۔
چند اور چیزوں نے توجہ کھینچی۔بلکہ دیر تک اپنے پاس ٹھہرائے بھی رکھا۔
ایک پجاری دیوی۔ماشاء اللہ سے ہماری ٹُن ٹُن جیسی دس اُس کے گھیرے میں آہیں۔قریب جا کر حدوداربعہ پڑھا۔خیرسے شائد ایران سے تھیں۔گردن تک تو معاملہ درست تھا۔سر چھوٹا تھاچلو خیر۔آنکھیں نئے نکور کانچ کے نیلے بنٹوں جیسی تھیں۔خوب سجتی تھیں۔جو فراک پہنے بیٹھی تھی وہ بھی بہت خوبصورت ڈیزائن دار پر پھیلاؤ کتنا تھا اللہ ہو غنی۔
دوسرا اشوری زمانے کا کیا لاجواب شاہکار تھا۔جپسم سے بنا یہ مجسمہ بظاہر چیتا سا نظر آتا تھا۔پر اُس پر جو مردانی صورتیں کندہ تھیں۔وہ تو قدموں کو روکتا تھا۔پہلی منزل کے سٹوروں میں الماری کے شیلف رنگا رنگ برتنوں سے ناکوں ناک بھرے پڑے تھے۔ان کے سٹیل کے دروازے بھی کس قدر خوبصورت تھے۔
افلاق نے تہہ خانوں کے کمروں میں چلنے کیلئے کہا تھا۔وہاں جیولری کے انتہائی نادر شاہکار تھے۔
”دفع کرو تھوڑا سا اسلامی عہد کو دیکھ لوں۔“
اسلامک گیلریوں میں گھُسی۔محرابی ساخت کی گیلریاں۔ سچ تو یہ تھا کہ یہاں کا ماحول جلال، جمال و تقدس اور نور کے پُر فسوں سے ہالے میں لپٹا محسوس ہوتا تھا۔پتھر کے محرابی دروازے اور تختیاں کندہ کاری کی پھول پتیوں اور عربی کی آیات سے سجی دامن دل کو کھینچتی تھیں۔شیشوں میں سجے اسلامی عہد نامے،مختلف ادوار کے قرآن پاک کی جلدیں،ترجمے،تفسیریں،چوبی کندہ کاری کی محرابیں سب نہ صرف متاثر کرتی تھیں بلکہ آپ کا روحانی رشتہ اس وراثت سے جڑا ہوا ہے کا بھی بتاتی تھیں۔
کمروں میں بیٹھے نگران انگریزی سے نابلد نہیں تھے پر امریکیوں سے دلی نفرت کا کچھ وہ عالم تھا کہ جتنا بس چلتا تھااور جیسے چلتا تھا کا اظہار ہوتا تھا۔ صدام کے بارے میں بھی بس ایسے ہی جذبات تھے۔
بیک یارڈ بہت کشادہ اور خوبصورت تھا۔گھاس کے قطعوں کی تراش خراش آرٹسٹک سٹائل کی تھی۔فٹ پاتھ پورے لان میں بکھرے جیومیڑی کی شکلیں بناتے تھے۔گیٹ عقبی سڑک پر بھی کھلتا تھا۔جو اس وقت بند تھا۔سیکورٹی گارڈ بندوقیں سنبھالے پہرے دیتے تھے۔چند لمہے رُک کر میں نے گردوبیش کی عمارتوں کو دیکھااور پھر واپس اندرآئی اور گھومتے گھومتے میوزیم کے داہیں حصے میں جاگھسی تو ٹھٹھک گئی۔جہاں جرٹروڈ بیل کانسی کے مجسموں اور آرٹسٹوں کے کمال فن کی صورت میں یہاں وہاں بکھری ہوئی تھی۔اس کی لکھی گئی کتابیں، اس کے استعمال کی اشیاء سبھوں کو میں نے دیکھا۔
مجھے پتہ چلا تھا کہ اس شاندار میوزیم کو بنانے میں اُسکی انتہا درجے کی دلچسپی،آثار قدیمہ اور خاص طور پر میسوپوٹیمیا کی سرزمین پر بکھرے ہزاروں سالہ تاریخی ورثے سے اُس کی بے پناہ محبت اور لگن نے یہ عظیم کارنامہ اُس سے کروایا۔
جرٹروڈ بیل کون تھی؟میں نے آنکھیں ٹپٹپا تے ہوئے کچھ یاد کرنے کی کوشش کی۔
اور میری کچھ جاننے کی خواہش پر افلاق مجھے میوزیم کے کیفے ٹیریا میں لے آیا۔جہاں قہوے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹوں میں اُس تاریخ ساز عورت کے بارے سُنا۔ جب باہر نکلی۔دوزخ سے نکلے لُو کے تپھیڑوں نے استقبال کیا۔بیگ میں رکھا گیلا دستی تولیہ فوراً نکال کر چہرے کے گرداگرد لپیٹا کہ کہیں ماڑی موٹی جلدجوآب تک ساتھ نبھاتی چلی آرہی ہے کسی کورے برتن کی طرح تڑخ نہ جائے۔
افلاق سے صبح میں نے پاکستانی ایمبیسی جانے کا کہاتھا۔”چلو دیکھوں تو سہی۔ شمال کے کُرد علاقے دیکھنے میں کچھ مددگار ہوسکتے ہیں یا شام جیسی صورت یہاں بھی کہ سفارت کاری تو کیا کرنی ہے؟ہاں ذاتی مال و متاع بنانے اور اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔جس کے کچھ احوال میں نے وطن میں پڑھے تھے اور بقیہ سے دمشق آکر آشنا ہوئی تھی۔
پاکستان ایمبیسی کھوجنے میں اُس نے مجھے کئی سڑکوں پر گھمادیا۔ایمبیسی نہ ملنا تھی نہ ملی۔
”انڈین ایمبیسی لے چلوں۔“اُس نے پوچھا۔
”لو میں نے کیا کرنا ہے وہاں جاکر۔“میرے لہجے میں شکستگی تھی۔
”پھر کیا کروں۔“
پاکستا ن ایمبیسی کا کسی کو پتہ نہیں تھااور انڈینز کے عربی میں چھپے بروشر کئی دوکانوں سے مل گئے۔شام میں تو دو کلو کے خاکی تھیلوں میں چاول بھی دیکھ آئی تھی اور کڑھی بھی تھی کہ دوکانوں پر کوئی تو پاکستان میڈ چیز نظر آجائے۔دجلہ میرے ساتھ ساتھ بہہ رہاتھا۔
”افلاق تمہیں بھلا کیوں نہیں معلوم۔“میرے لہجے میں چھپا گلہ سا محسوس کرتے ہوئے اُسنے دھیرے سے کہا۔
”شرمندہ ہوں۔واقعی علم تو ہونا چاہیے۔“
پھر اُسنے دو تین جگہ رابطہ کیا۔شاید اُس نے میری اِس بات کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت پر اعتراض جانا یا اس کے وطن میں اپنے ملک سے وابستہ کچھ دیکھنے کی میری خواہش یا تمنا کا اُسے احساس ہوا تھا۔
بہر حال خاصی تگ و دو اور گلیوں کے دائیں بائیں بہت سے چکر کاٹنے کے بعد اس نے مجھے ایک گلی میں واقع ایک چھوٹی سی کوٹھی جس کا سفیدی مائل بند گیٹ زنگ آلود ہوا پڑا تھالاکھڑا کیا تھا۔اب بیل کئیے جارہے ہیں کوئی نکلتا ہی نہیں۔
میں نے اپنے اوپر لعنت بھیجی۔”بڑی ڈھیٹ ہوں۔جانتے بوجھتے بھی باز نہیں آتی۔“
جب گاڑی میں بیٹھی تو جھلاہٹ سی سوار تھی۔بُھوک سے بھی بُرا حال تھا۔قہوے کی ایک گلاسی کے ساتھ چند بسکٹ جومیں نے میوزیم کی کافی شاپ سے کھائے تھے۔وہ کب کے ہضم ہو گئے تھے۔
”ڈھائی بج رہے ہیں اب میں آپ کو مسجد چھوڑوں گا۔تین گھنٹے آرام کریں۔ہاں کچھ کھانا ہے تو مجھے بتا ئیں۔“
”میرے پاس دودھ اور میری دوائی ہے۔بس یہی میرا لنچ ہے۔“
”ارے ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا۔چچی نے آپ کے لئیے خبض بھیجی ہے یہ آپ کو یقینا پسند آئے گی۔“
ایک چھوٹا سا شاپر اُس نے گاڑی کے ڈیش بورڈ سے نکال کر مجھے تھمادیا۔میں کچھ اور دیکھنے کی متمنی تھی کہ وقت بھی تو تھوڑا ہے۔جب میں نے اس کا اظہار کیا وہ بولا۔
”آرام۔تھوڑا سا آرام۔تھکن آپ کے چہرے سے دُھواں دھار قسم کی بارش کی طرح برس رہی ہے۔موسم بھی اسوقت انتہا پر ہے۔“
اُس نے مجھے14 رمضان مسجد تحریر سکوائرمیں اُتارا۔صد شکر کہ مشرق وسطیٰ میں مسجدوں میں عورتوں کا حصّہ بھی ہے۔یہاں خوبصورت قالین بچھے تھے۔خوشگوار اور لطیف سی ٹھنڈک کا رچاؤ فضا میں گھلا ہوا تھا۔
دودھ کا پیکٹ نکالا۔بند گلاس میں قتیرہ گوند اور تخم ملنگا کے آمیزے میں شامل کیا۔تھوڑی سی مصری ڈالی۔جب اُسے پیتی تھی۔ افلاق کی چچی کے تحفے کا خیال آیا۔فوراً اُسے کھولا۔چھوٹی سی نان نما روٹی پرکریم اور تازہ گھٹلی نکالی کھجوروں کا لیپ سا کیا ہوا تھا۔ایک نوالہ لیا تو بہت مزے کا لگا۔سارا کھالیا۔پیٹ بھراتو شکر ادا کیاکہ اُسنے کھانا دیا اور آرام کے لیے ٹھنڈی جگہ دی۔
کیمرے کی تھیلی کی لمبی ڈورکو گلے میں ڈالا اور کیس سمیت گریبان میں انڈیلا۔عراقی دینار دوپٹے کے پلّو میں باندھے اور انہیں بھی وہیں پہنچایا جہاں پہلے خزانے دفن تھے۔تن پر پہنی سیاہ عبایا کا گلادرست کیا۔بیگ سرہانے اور ٹانگیں لمبی پسار لیں۔
کتنی دیر سوئی کچھ معلوم نہ تھا۔ٹانگ پر زور پڑا تو ہڑبڑا کر اٹھی۔موٹی تازی گوری چٹی خاتون کہتی تھی۔
”اذان ہوگئی ہے۔صلوٰۃ۔“

Advertisements
julia rana solicitors

شرابیوں کی طرح جھومتے جھومتے سر کو سنبھالا۔جی تو چاہتا تھا کہ سر کو زمین پر پٹخوں اور سو جاؤں۔پر اندر تین چار عورتیں اور آگئی تھیں۔
وضو کرنے میں اتنی دیر لگائی کہ اگر کوئی ساتھی ساتھ ہوتی تو یقینا کہتی۔وضوکرنے گئی تھیں یا پائے پکانے۔اب کرتی کیا۔ پانی تو ایسا تھا کیتلی میں پتی ڈالواور دم پر لگالو۔بے چاری پکوڑا سی ناک والا چہرہ جسے بادسموم میں جھلسنے سے بچاتی لائی تھی اُسکا خانہ خراب یہاں ہوجانا تھا۔چلّو بھر پانی کو کوئی دو منٹ ہاتھوں میں رکھتی پھر داہنے ہاتھ کی انگلیوں سے انہیں منہ ناک میں پھیرتی۔وضو کیا کرنا تھا بس مسّح ہوگیا تھا۔
نماز سے فارغ ہوکر باہر آگئی تھی۔بازار کی رونقیں بحال ہورہی تھیں۔ٹریفک میں تیزی اور لوگوں کے ہُجوم بڑھ رہے تھے۔افلاق سے موبائل پر بات ہوئی تھی۔ اُسنے گھنٹہ بھر بعد آنے کا کہا تھا۔
”چلو اچھا ہے میں ادھر ادھر گھومتی ہوں۔“
ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔قہوے اور حمس کا آرڈر کرنے کے بعد اردگرد کی رونقیں دیکھنے لگی جب دو اُدھیڑ عمراور ایک نوجوان لڑکی وہاں آکر بیٹھیں۔دونوں عورتیں سرخ و سفید، صحت مند جنکے غیر معمولی بھاری سینے اور کولہے عباؤں سے بھی چھلکے پڑتے تھے۔نوجوان لڑکی نے سکارف اور کھلے بازؤوں والی لمبی سی قمیض نما میکسی پہن رکھی تھی۔سینوں پر لہراتی بل کھاتی صلیبی زنجیروں نے مجھے بتا دیا تھا۔میں خوشدلی سے ان کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ جواباً انہوں نے بھی محبت بھری مسکراہٹ بکھیری۔حوصلہ پا کر میں ان کی ٹیبل پر گئی اور تعارف کے مراحل طے ہوئے۔
ڈیلی کریم اور جوزفین سیاب جن کے آباواجداد کوئی 1604 کے لگ بھگ ایران سے یہاں آئے تھے۔ڈیلی کریم شمالی عراق کے شہر موصل سے تھی یوں دونوں کی پیدائش اور بچپن جوانی سب بغداد سے منسلک تھے۔ڈیلی کی شادی موصل میں ہوئی۔اور وہ ابھی بھی وہیں تھی جبکہ جوزفین 1998 کے بعد سویڈن چلی گئی۔کوئی نو دس سال بعد وہ بغداد آئی تھی۔دونوں سہیلیاں بغداد کے نوسٹلجیا میں مبتلا تھیں۔انہیں اپنے بچپن کاوہ بغداد نہیں بھولتا تھا۔اُنکی یادوں میں بسا وہ شہر جو کوسموپولٹین تھا۔جو بڑا ماڈرن اور ملٹی کلچرل تھا،جس میں رواداری اور برداشت کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا۔مختلف مذاہب کی رنگا رنگی جس کا حسن تھا۔دُکھ تھا۔کرب کا واضح اظہار تھا جوزفین سیاب کے لہجے میں۔آنکھوں میں اُتری نمی بھی بہت کچھ کہتی تھی۔
ہمارے آبائی گھر یہیں اِس پرانے بغداد کی اِسی شاہراہ رشید کی اطرافی گلیوں میں تھے۔ہماری عیدیں، رمضان،کرسمس،گڈ فرائی ڈے سبھی مشترکہ تھے۔یہیں ہماری یہودی خالہ رہتی تھی جو بعد میں بغداد کے جنوبی حصّے میں بنے جیوش کواٹر میں چلی گئی تھی۔
میری ماں کی جگری سہیلی جسے ملنے کیلئے جانے کا ہمیں کتنا ارمان اور جنون رہتا تھا۔ جب کبھی ان کے ہاں جانے کا پروگرام بنتا ہم بہنیں اُچھل اُچھل کر ایک دوسرے سے کہتیں۔
”سوق حنونی(حنونی بازار) میں پھریں گے۔ہائے فوابینز(Fawa Beans) بھی کھاہیں گے۔“
میری چھوٹی بہن زبان تالو سے لگاتے ٹخ ٹخ کی آواز نکالتے ہوئے مستی میں آنکھیں نچاتی۔”کتنا مزہ آئے گا۔“
بلند و بالا خوبصورت بالکونیوں والے گھروں کی گلیوں میں غریب عراقی عورتیں Fawa Beans بیچا کرتی تھیں۔ اُسے چولہوں پر دھرے بڑے بڑے پتیلوں میں پکی فوابین کھانا کتنا پسند تھا؟جوزفین تو ہمیشہ اُوپر سادہ دہی ڈلواتی پرنینی کوDibis (کجھوروں کی چٹنی)ڈلوانا مزہ دیتا تھا۔
”میرے اُس بغداد کو نظر لگ گئی ہے۔“نمی موتیوں کی صورت نچلی پلکوں میں ٹہر گئی تھی۔
میرے اندر سے ہوک سی اٹھی تھی ہائے میرا لاہور اور کراچی بھی پچاس، ساٹھ ستر70کی دہائی میں ایسے ہی تھے۔میرا کراچی تو عروس البلاد تھا جس کی راتیں جوان رہتی تھیں۔میرے لاہور کا کیا کہناتھا۔ مارڈالا ہمیں فوجیوں، سیاستدانوں کے مفادات اور ملاؤں کی انتہا پسندی نے۔ کچھ ایسا ہی رونا یہ ڈیلی رو رہی تھی۔
خلیجی جنگ میں بھی بہت نشانہ بنے۔عراق پر امریکی حملے سے ہماری کیمونٹی بہت متاثر ہوئی۔صدام کے بارے میں بات ہوئی تو کہنے لگی”ہماری کیمونٹی کواُس کے زمانے میں بہت سہولتیں حاصل تھیں۔بہت آزادی تھی ہمیں۔ صدام جانتا تھاہم امن پسند لوگ ہیں۔“
کیتھولک عیسائیوں اور آرتھو ڈوکس آرمینیاؤں کی عراقی کلچرو لڑیچر اور موسیقی میں بڑی خدمات ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہماری جوانی میں ہی جیوش کواٹر ویران ہوگیا تھا کہ ہمارے سب ملنے والے یہودی اپنی جائیدادیں بیچ باچ کر اسرائیل چلے گئے مگر ہم عیسائی کہاں جاتے؟
ڈیلی کریم کی آنکھیں گیلی سی ہو گئی تھیں۔
”موصل میں ہماراٹورزم کا بڑا بزنس تھا۔نینوا میں میرے سسرال کے عالیشان ہوٹل تھے جو تباہ و برباد ہوگئے۔اب انہیں بیچنا مسئلہ بنا ہوا ہے۔موصل میں عیسائی کیمونٹی خاصی تعداد میں تھی جو اب بہت تھوڑی رہ گئی ہے جن میں ہمارے جیسے عراق کی محبت میں لتھڑے لوگ ہیں۔
یہ کیسا اندھا تعصب پھیل گیا ہے کہ جسنے اُن ساری حسین روایات کو نگل لیا ہے؟چرچوں کے خلاف نفرت بھڑکائی جارہی ہے۔موصل میں دو بڑے چرچ نشانہ بنائے گئے۔گذشتہ ماہ رمضان میں ایک ہینڈ بل چرچوں میں پھینکا گیاکہ جسمیں عیسائی کیمونٹی کو اپنے گہنگار سروں کوڈھانپنے کیلئے کہا گیا وگرنہ دوسری صورت میں موت کا سامنا کرنے کی دھمکی تھی۔یہ دھمکی القاعدہ یا زرقاوی کی طرف سے نہیں تھی بلکہ مسلم عراقی سٹوڈنس موصل کی جانب سے دی گئی تھی۔
خوبصورت لڑکی ملّی پہلی بار گفتگو میں شامل ہوئی۔
”فرانس میں جن دنوں حجاب کا مسئلہ حکومتی سطح پر زیربحث تھا۔اُن دنوں زیادہ شدت تھی۔سوچنے کی بات ہے کہ وہاں موت کی دھمکیاں تو نہیں دی جارہی تھیں۔
میں نے لمبی سانس بھرتے ہوئے اُن تینوں کو دیکھا اور کہا تھا۔ ”میرے ملک کو بھی کِسی کی نظر کھاگئی۔ ہم تو خود اسی ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔“
مغرب کی اذانیں گونجنے لگیں۔ بتیوں کی پھیلتی جگمگاہٹوں میں منظروں کی دل رباعی بڑی اپنایت لئیے ہوئے تھی۔لاہور کی مال روڈ کے منظر رقص کرنے لگے تھے۔
میں نے ڈیلی اور اُس کی عزیزہ جوزی سے اجازت لی۔مسجد آئی۔ مغرب کی نماز پڑھی۔باہر نکلی افلاق انتظار میں تھا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply