ڈیجیٹل میڈیا اور عوام۔۔صائمہ جعفری

نوے کی دہائی میں انٹر نیٹ کی ایجاد اور مقبولیت کے سبب دنیا میں معلومات یا انفارمیشن کا نظریہ یکسر بدل گیا ۔ آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں اسے ففتھ ویو یا انفارمیشن کا پانچواں دور کہا جا رہا ہے ۔ ماضی میں معلومات   محدود تھیں  جس کی وجہ سے مختلف افراد ، گروہ اور میڈیا ہاؤسز کا معلومات اور خبروں پر مکمل غلبہ تھا ۔ انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے سبب اب نہ تو خبریں اور نہ ہی انفارمیشن کسی ایک فرد یا گروہ کی میراث ہے ۔

پچھلے ادوار میں عوام معلومات اور خبروں وغیرہ کی تشریح کے لئے بھی سیاستدانوں ، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے محتاج تھے، جبکہ  اب ایک خبر کے کئی  تجزیات عوام کے سامنے ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت آجاتے ہیں ۔ اب صرف معلومات ہی کی بھرمار نہیں بلکہ  ہمارے اردگرد تشریحات اور تجزیوں کی بھی بہتات ہے ۔ اب عوام کو بھی یہ سمجھ بوجھ ہے کہ  کیسے مختلف نظریات کے حامی افراد ، اخبارات اور میڈیا ہاؤسز عوام کو سچائی کا وہ  رُخ دکھاتے ہیں جو کہ  ان کے حق میں ہوتا ہے ۔انفارمیشن کے انقلاب نے عوام کو یہ سوچنے پر ضرور مجبور کر دیا ہے کہ  نہ تو کوئی حتمی سچائی ہے اور نہ ہی کوئی نظریہ جھول سے خالی ہے ۔ ہر فرد اور نظریہ تنقید کی  زد میں آ سکتا ہے اور آنا چاہیے تاکہ  سچائی کا  سامنے  کیا جاسکے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  کس خبر یا معلومات کو صحیح سمجھا جائے اور کس معلومات کو جھوٹا ہونے کی وجہ سے رَد  کیا جائے ۔ تو بات صاف ظاہر ہے  کہ  پڑھنے والا بغیر تصحیح اور تحقیق کے کسی بھی معلومات کو حتمی اور سچا تسلیم نہ کرے اور نہ  ہی  اس پر اپنا فوری رد عمل دے ۔

ففتھ ویو کا نظریہ مارٹن گوری نے دیا تھا جن کا ماننا ہے کہ  ہم اس وقت ڈیجیٹل انقلاب کے دور میں ہیں ۔ زرعی اور صنعتی انقلاب کے بعد یہ دور سب سے مختلف اور کئی تضادات کا شکار ہے  ۔ عوام میں اب اتھارٹی جیسے کہ  حکومت ، پولیس ، اخباروں ، ٹی وی چینلز  اور سیاستدانوں پر اعتبار بالکل نہیں رہا ۔ عوام اب مسلسل اضطراب کا شکار ہے کیونکہ صدیوں سے جن اداروں پر عوام کا یقین تھا وہ اب ٹوٹ چکا ہے ۔ اسی لئے اب عوام نے ڈیجیٹل میڈیا کا سہارا لیا ہے تاکہ وہ نہ صرف صحیح معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں بلکہ اپنا احتجاج بھی سامنے لا سکیں۔
گوری کے مطابق معلومات کے پھیلاؤ کا یہ دور انیہ حقیقت  ففتھ ویو ہے ۔

ڈیجیٹل انقلاب کے سبب اب عوام حکومت کو  چیلنج  کر سکتے ہیں ، سوالات اٹھا سکتے ہیں ، واقعات کے مختلف پہلو سمجھ اور جان سکتے ہیں ۔ غرض کہ موجودہ دور عوام اور اتھارٹی کے ٹکراؤ کا دور ہے ۔ عوام جو کہ پہلے صرف معلومات کو استعمال کرتے تھے وہ اب خود معلومات پر اختیار رکھتے ہیں ۔ عوام اب خبریں بناتے ہیں ، ریکارڈ کرتے ہیں ، ڈیجیٹل سپسیز میں اپنی خبریں پھیلاتے ہیں اور ظلم کے خلاف احتجاج بھی انہی ڈیجیٹل سپسیز پر ریکارڈ کرتے ہیں ۔ میڈیا کے ذریعے سے عوام طاقت کے محور کو جھنجھوڑ رہے ہیں ۔ پہلے یہ طاقت منظم اداروں جیسے کہ حکومت یا سیاستدانوں یا بارے کاروباری گروہوں کو حاصل تھی کیونکہ معلومات پر ان کا قبضہ تھا ۔ اب یہی معلومات عوام کی جاگیر ہے جس کے ذریعے سے عوام اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں ۔

موجودہ دور میں کئی حکومتوں کے خلاف منظم احتجاج ڈیجیٹل میڈیا کے توسط سے ہوئے  جن میں سرفہرست مصر ہے ۔ غونیم جو کہ  پیشے کے اعتبار سے انجنیئر تھے مگر سوشل میڈیا کا خاص شوق اور سمجھ  بوجھ رکھتے تھے ۔ انھوں نے مصر کی حکومت کی ناقص کارکردگی اور ظلم کے خلاف فیس بک پہ  احتجاج کا اعلان کیا جو کہ  بڑھتے بڑھتے مصر کی سڑکوں تک پھیل گیا اور آخر حسنی مبارک کی حکومت کو لے ڈوبا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈیجیٹل میڈیا جہاں عوام کے ہاتھ میں ایک طاقتور ہتھیار ہے وہیں گروہ اور افراد اسے منفی پروپیگنڈا ، غلط معلومات کے پھیلاؤ اور نفرت اور شرانگیزی پھیلانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ  آج کل اکثر حکومتیں میڈیا پر کھلے عام یا ڈھکے چھپے انداز میں پابندیاں عائد کرتے ہیں ۔اس قسم کی پابندیاں ترکی نے عرصے سے اپنے شہریوں پر عائد کی ہوئی ہیں ۔ ایران بھی ایسے ہی ممالک میں سے ایک ہے جہاں میڈیا پر سخت پابندیاں عائد ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ  نا صرف افراد بلکہ حکومتی اراکین بھی سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرتے ہیں جیسے کہ  امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے  کہ  انھوں نے اپنی الیکشن کمپین کے لئے میڈیا کا منفی استعمال کیا تاکہ ہیلری کلنٹن  کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے ۔
بہرحال ڈیجیٹل میڈیا عوام اور طاقتور ہرارکیز کے درمیان میدان جنگ ہے اور آنے والے ادوار تک رہے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply