بکواس بکتا ہے۔۔۔۔۔ سید عون شیرازی

شام ڈھل رہی ہے ،وحشت بڑھ رہی ہے ،اور پھر جیسے جیسے اندھیرا گہرا ہوتا جائے گا اندر کی آگ جسم و روح کو بھسم کرنا شروع کر دے گی.

یہ کوئی آج کی بات نہیں گزشتہ کچھ عرصہ سے احساسات عجیب و غریب ہیں ، اپنی حالت دیکھتا ہوں توکبھی اپنی بے بسی پر رحم آتا ہے تو اگلے لمحے غصہ محسوس ہوتا ہے کہ بے حسی جیسی نعمت سے محروم ہوں. خود کو کوستا ہوں کہ کیوں محرو م ہوں؟ پھر اندر ہی اندر کڑھنے لگتا ہوں کہ

انسانوں کی اس مقتل گاہ میں کتنی جوان لاشوں پر بین کروں گا ،کب تک سینہ کوبی کروں گا ، سوگ مناؤں گا۔ یہاں تو ایک لاش گرنے سے لے کر دوسری لاش کے گرنے کے درمیانی وقت کو امن قرار دیا جاتا ہے۔

بے حسی اور بے شرمی میں گولڈ میڈل سنبھالے ان نام نہاد سیاسی ، مذہبی شرفاء اور اسٹیبلشمنٹ سمیت ان کے نمک خواروں کو کوئی پرواہ نہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ ایک بیٹا جوان کس طرح ہوتا ہے ، اوریہ کیا جانیں کہ کبھی کبھی معصوم لاشے اٹھانے میں کتنے بھاری ہوتے ہیں۔ کیونکہ درد اسے محسوس ہوتا ہے کہ جو کسی پیارے کو اپنے کندھا پر اٹھا کر لحد میں اتارے ، وہ پیارا کہ جو کچھ دن قبل ہی کندھے سے کندھا جوڑے کھڑا تھا ،لیکن جب نقصان کسی کا ہو ، تو پھر مذمتی بیانات بھی احسان سمجھ کر دیئے جاتے ہیں، اور بسا اوقات تو مذمتی بیان تک بھی نہیں دیا جاتا۔

بلوچستان اور خیبر میں درجنوں کی تعداد میں قانون دان ایک لحظے میں منوں مٹی تلے بھیج دیئے گئے ،احساس کسے ، پراہ کون کرے، اپنی جان و مال محفوط ہے تو باقی سب جائیں بھاڑ میں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پانامہ اور سوئس بینکوں میں ذہنی طور پربیمار ، جسمانی طور پر لاچار ، فکری اور شعوری طور پر لاغر قوم کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے والوں کو سکون کی نیند نصیب نہیں ہوتی لیکن اے بدبخت قوم کے نہ سدھرنے والے جاہلوں، نیند تو تمہیں بھی نہیں آتی۔ فرق محض اتنا ہے کہ ان کو بد ہضمی کی وجہ سے نیند نہیں آتی جب کہ تم اور تمہارے بچے فاقوں کی وجہ سے سو نہیں پاتے۔

جہاں جنگیں گانوں سے لڑنے ،کالے کرتوتوں کو بھوک ہڑتالوں سے پردہ پوشی کرنے ،چوری کرنے کے بعد چور چور کا شور مچانے ، قتل کے بعد مقتول کا روپ دھارنے،ملک کی عزت پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے ،چند ٹکو ں کی خاطر قومی وقار کو بیچنے اور رہزنی کے لیے رہبری کا روپ دھارنے کی رسمیں عام ہو جائیں وہاں پر بسنے والے افراد کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسی تمہاری ہے۔

حکومت پر تنقید کرو گے تو صاحب سائبر کرائم بل کی پکڑ میں آ جاؤگے ، عدالت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھو گے تو توہین عدالت میں قصور وار ٹھہرا دیئے جاؤ گے ،عسکری اسٹیبلشمنٹ پر نقطہ چینی کرو گے تو ملک دشمن کا سرٹیفکیٹ ملے گا، کسی طاقتور کے خلاف بولو گے تو ریاست تمہارے خلاف کھڑی ہوگی ، پولیس کو بے نقاب کرو گے تو جعلی مقابلے میں پار کر دیئے جاؤ گے،کرپشن کے خلاف اٹھو گے تو اینٹی کرپشن والے اٹھا کر لے جائیں گے، صحافی کو رنگے ہاتھوں بھی پکڑو گے تو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا جائے گا، اپنے حق کیلئے آواز اٹھاؤ کے تو نشان عبرت بنا دیئے جاؤ گے تاکہ تمہارے جیسے دیگر ذہنی بونے پھر ایسی جسارت کرنے کا سوچیں بھی نہیں۔

ایک ہی صورت ہے بچت کی کہ غریبوں پر ظلم کرنا شروع کر دو ، کرپشن ، دو نمبری کو اپنا شعار بنا لو، دھونس دھاندلی ، کے ساتھ قبضہ گروپوں کی پشت پناہی کرنے لگ پڑو، اٹھائی گیروں اور اشتہاریوں کو پناہ دو، شراب شباب کے نشے میں ڈوبے رہو اور اس نعمت سے ارد گرد کے لوگون کو بھی مستفید کرتے رہو تو یہ معاشرہ عزت بھی دے گا ، ریاست کا تحفظ بھی نصیب ہو گا، آہستہ آہستہ نام نہاد ایلیٹ کے کلب میں بھی شامل ہو جاؤ گے۔ ایک معزز اور ہمدرد شخصیت جیسے القابات سے بھی نوازے جاؤ گے۔

اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو بس اتنا بول دو کہ بکواس بکتا ہے بکواس لکھتا ہے شاید اس سے مجھے ہی کچھ افاقہ نصیب ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(سید عون شیرازی پیشے سے صحافی اور شوق سے ادیب ہیں) 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply