معاشی مسائل کا ایک حل۔۔۔ ذیشان محمود

ہمارا معاشرہ شدید تناؤ میں گھرا ہوا ہے۔ صبح سے شام اور پھر رات تک ہم کسی نہ کسی الجھن کا شکار رہتے ہیں اور سونے کے بعد یہی الجھنیں خوابوں میں متمثل ہو کر سکون کی نیند کو دور بھگاتی ہیں اور کم خوابی کا شکار نئی صبح مزید الجھن لئے کھڑی ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر ماہ شروع سے آخر تک مشکلات سے گھیرا تنگ کئے رکھتا ہے۔ بجلی، گیس، دودھ اور فون یا موبائل کے بل ایک تہائی تنخواہ پر مشتمل ہوتے ہیں اور باقی ماندہ تنخواہ ادھورے راشن کی نذر ہوجاتی ہے۔ زائد آمد ن کے لئے دوسری نوکری یا کام تلاش کیا جائے تو وہ بیوی بچوں کے آرام اور گھر کی دیگر ضروریات کا بوجھ بمشکل برداشت کرتی ہے اوپر سے گھر کے لئے وقت نہ نکالنے کا شکوہ آدمی کو شدید نفسیاتی دباؤ میں لئے رہتا ہے۔
ایسے میں ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھنےو الا جہاں شدید دباؤ میں آتا ہے وہاں جسمانی لحاظ سے بھی کئی عوارض کا شکار ہوتا ہے۔ایک عام آدمی کمانے کے لئے 12 سے 18 گھنٹے محنت کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کو محنت کا پورا صلہ ملتا ہے یا نہیں، لیکن اتنی محنت کے بعد اسے آرام کا اتنا وقت میسر نہیں آتا کہ وہ اگلے دن دوبارہ تازم دم ہوسکے۔ یہی بے آرامی و بے سکونی اس کے جسم میں مختلف بیماریوں کی جڑ بنتی ہے۔
وسائل و مسائل کا رونا صرف نچلے و متوسط درجے تک محدود نہیں ۔ پر تعیش زندگی اور جدت کے خواہاں لوگوں تک بھی اس کا اثر پایا جاتا ہے۔ ہاں ان کے مسائل کی شکل مختلف ہوتی ہے بلکہ جدید ہوتی ہے۔ پھر ملکی سطح پر ان مسائل کا حجم اربوں اور کھربوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ امراء اور متوسط درجے کے لوگوں کی نیند میں یہ فرق ضرور ہوتا ہے کہ انہیں جتنی نیند ملے بھرپور ہوتی ہے جبکہ امراء کو نیند کے حصول میں دوائیاں کھانے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔بحیثیت مسلمان اور ایک ایسے دین کے پیروکار ہونے کے جو سادہ زندگی، توکل علیٰ اللہ، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر زور دیتا ہو۔ ہم پر مذہبی ذمہ داریوں کا شعور اور بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان مسائل کا حل دینی نقطۂ نظر سے کیسے ممکن ہے۔
دنیا کا نقطۂ آغاز خدا کی ذات ہے اور ہم سب کو اللہ کی طرف اپنی نگاہیں بلند کرنی چاہئیں او اس سے سوال کرنا چاہئے وہی ہماری ضروریات کو پورا کرنے والا ہے اور وہی ہماری ضروریات کا ضامن ہے۔
پھر توکل ایک ایسا امر ہے جو ہر مشکل کی کنجی ہے۔ خدا پر توکل ضروری ہے اور اس کی ایک شرط ہے کہ ہم پہلے خود بھی کوشش کریں ۔ گو یہ بھی قانون قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔لیکن اس درجہ کے حصول سے قبل توکل کے پہلے درجہ کو حاصل کرنا ضروری ہے۔
پھر قناعت وہ وصف ہے جو معمولی آمدن  میں بھی رہنا سکھاتی ہے اور قناعت ہی توکل تک لے جاتی ہے۔ آخری بات یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ برکت کا موجب تو ہے ہی لیکن اللہ تعالیٰ نے کئی گنا بڑھا کر واپس لوٹانے کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔
پس جہاں انفرادی طور پر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم توکل، قناعت اور سادہ زندگی کو ترجیح دیں وہاں من حیث القوم ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرہ میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اس سے نچلا طبقہ سنبھلے گا۔ معاشرہ میں تناؤ کم ہوگا اور اپنے رزق میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کشائش پیدا کر دے گا۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply